107 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش قال: سمعت ابا وائل شقيق بن سلمة يقول: كنا جلوسا ننتظر عبد الله بن مسعود فاتانا يزيد بن معاوية النخعي فقال: ما لكم؟ قلنا: ننتظر عبد الله بن مسعود فقال: اين ترونه؟ قلنا: في الدار، قال: افلا اذهب فاخرجه إليكم؟ قال فذهب فلم يلبث ان خرج عبد الله حتي قام علينا ومعه يزيد بن معاوية فقال عبد الله إني لاخبر بمجلسكم فما يمنعني ان اخرج إليكم إلا كراهية ان املكم، وإن رسول الله صلي الله عليه وسلم «كان يتخولنا بالموعظة في الايام كراهة السآمة علينا» 107 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ يَقُولُ: كُنَّا جُلُوسًا نَنْتَظِرُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَأَتَانَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ النَّخَعِيُّ فَقَالَ: مَا لَكُمْ؟ قُلْنَا: نَنْتَظِرُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ: أَيْنَ تَرَوْنَهُ؟ قُلْنَا: فِي الدَّارِ، قَالَ: أَفَلَا أَذْهَبُ فَأُخْرِجَهُ إِلَيْكُمْ؟ قَالَ فَذَهَبَ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ حَتَّي قَامَ عَلَيْنَا وَمَعَهُ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنِّي لَأُخْبَرُ بِمَجْلِسِكُمْ فَمَا يَمْنَعُنِي أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ إِلَّا كَرَاهِيَةُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا»
107- شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے تھے، یزید بن معاویہ نخعی ہمارے پاس آئے انہوں نے فرمایاؒ کیا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے ہیں۔ انہوں نے دریافت کا: تمہارے خیال میں وہ کہاں ہوں گے؟ ہم نے کہا: گھر میں ہوں گے۔ انہں نے کہا: کیا میں جاکر تمہارے ساتھ بلا کر نہ لاؤں؟ راوی کہتے ہیں: تو وہ گئے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور ہمارے پاس آکر کھڑے ہوئے، ان کے ساتھ یزید بن معاویہ بھی تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے تمہارے یہاں بیٹھے ہونے کے بارے میں بتایا گیا لیکن میں نکل کر تمہارے پا اس لیے نہیں آیا، کیونکہ مجھے یہ اندیشہ تھا کہ میں تمہیں اکتاہٹ کا شکار کردوں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دنوں کے وقفے کے ساتھ وعظ کیا کرتے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اکتاہٹ کو پسند نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 68، 70، 6411، ومسلم: 2821، وابن حبان فى ”صحيحه“: برقم: 4524، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5032»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:107
107- شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے تھے، یزید بن معاویہ نخعی ہمارے پاس آئے انہوں نے فرمایاؒ کیا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے ہیں۔ انہوں نے دریافت کا: تمہارے خیال میں وہ کہاں ہوں گے؟ ہم نے کہا: گھر میں ہوں گے۔ انہں نے کہا: کیا میں جاکر تمہارے ساتھ بلا کر نہ لاؤں؟ راوی کہتے ہیں: تو وہ گئے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور ہمارے پاس آکر کھڑے ہوئے، ان کے ساتھ یزید بن معاویہ بھی تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:107]
فائدہ: ہر کام میں اعتدال ضروری ہے، جب بھی کوئی کام اعتدال کی حد کو عبور کر جاتا ہے، تب نقصان شروع ہو جاتا ہے۔ واعظین اور خطباء کو ایسا انداز نہیں اپنانا چاہیے کہ جو لوگوں کو تھکا دے، اور لوگوں کو دین کے قریب کرنے کی بجائے دین سے دور کر دے۔ لمبی لمبی تقاریر اور لمبے لمبے جلسے اور کانفرنسیں اور اکثر پروگرام لوگوں کو دین کے قریب کرنے کی بجائے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ لہٰذا انداز خطابت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اور اہل علم حضرات کومنبر و محراب کا مالک بنانا ضروری ہے، کیونکہ خطیب نے لوگوں کے سامنے شریعت پیش کرنی ہے، وہ تب ہی کر سکے گا جب علم وحی میں ماہر ہوگا۔ افسوس کہ آج کل لوگ ان پڑھ، سریلی اور ترنم والی آواز نکالنے والے کومنبر و محراب کا مالک بنائے ہوئے ہیں، اور وہ غیر ثابت شدہ اور جھوٹی روایات بڑے زور وشور سے بیان کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں، الامان والحفیظ۔ ہمیں ہر کام قرآن وحدیث کے مطابق کرنا چاہیے، اس میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 107