الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 23
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي موسى الاشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما احد اصبر على اذى يسمعه من الله يدعون له الولد ثم يعافيهم ويرزقهم» . متفق عليه‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللَّهِ يَدْعُونَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تکلیف دہ بات سن کر اس پر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں، وہ اس کے لیے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی ان سے درگزر کرتا ہے اور انہیں رزق بہم پہنچاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (7378) و مسلم (2804/ 49)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري7378عبد الله بن قيسما أحد أصبر على أذى سمعه من الله يدعون له الولد ثم يعافيهم ويرزقهم
   صحيح البخاري6099عبد الله بن قيسليس أحد أصبر على أذى سمعه من الله إنهم ليدعون له ولدا وإنه ليعافيهم ويرزقهم
   صحيح مسلم7082عبد الله بن قيسما أحد أصبر على أذى يسمعه من الله إنهم يجعلون له ندا ويجعلون له ولدا وهو مع ذلك يرزقهم ويعافيهم ويعطيهم
   صحيح مسلم7080عبد الله بن قيسلا أحد أصبر على أذى يسمعه من الله إنه يشرك به ويجعل له الولد ثم هو يعافيهم ويرزقهم
   مشكوة المصابيح23عبد الله بن قيسما احد اصبر على اذى يسمعه من الله يدعون له الولد ثم يعافيهم ويرزقهم
   مسندالحميدي792عبد الله بن قيسليس أحد أصبر على أذى يسمعه من الله عز وجل، يدعون له ندا ثم هو يرزقهم ويعافيهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7378  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ والذاریات میں) ارشاد میں بہت روزی دینے والا، زوردار مضبوط ہوں`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللَّهِ يَدَّعُونَ لَهُ الْوَلَدَ، ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ . . .»
. . . ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے، کم بخت مشرک کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور پھر بھی وہ انہیں معاف کرتا ہے اور انہیں روزی دیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7378]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7378 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آیت کریمہ پیش فرمائی جس میں حق تعالیٰ شانہ کی صفات عالیہ کا ذکر ہے، تحت الباب جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس کا باب سے مکمل طور پر تعلق دکھائی نہیں دیتا مگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب سے حدیث کا ربط «الرزاق» سے مناسبت رکھتا ہے کیوں کہ حدیث میں «يرزقهم» کہ اللہ تعالیٰ انہیں رزق دیتا ہے کے الفاظ وارد ہیں مگر «ذو القوة المتين» سے باب کی مناسبت مشکل ہے، چنانچہ اس حوالے سے ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«أما الرزاق فواضح بقوله: ويرزقهم أما القدرة و القوة فبقوله: ما أحد أصبر على أذى سمعه من الله عز و جل، ففيه إشارة إلى قدرة الله على الإحسان إليهم مع كفرهم به.» [المتوري على ابواب البخاري: ص 461]
رزاق کا مناسبت ہونا حدیث کے لفظ «ويرزقهم» سے واضح اور «القوة» کا تعلق حدیث کے الفاظ تکلیف دہ الفاظ سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے میں ہے، پس اس میں اشارہ ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ان کے کفر کرنے کے باوجود بھی ان پر احسان کر رہا ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترجمۃ الباب دو اوصاف پر مبنی ہے، پہلی صفت «الرزاق» اور دوسری «القوة»، یعنی لوگوں کی ایذاء والی بات پر بھی اللہ تعالی ان پر احسان کرتا ہے اور صبر کرتا ہے۔
«ثم أورد البخاري فى الباب حديث أبى موسى، و وجه المطابقة للترجمة من جهة اشتمال الحديث على الصفتين: الرزق، و القوة الدالة على القدرة، أما الرزق، فواضح من قوله: ويرزقهم، وأما القوة، فمن قوله: أصبر فإن فيه إشارة إلى القدرة على الإحسان إليهم مع إساءتهم، بخلاف طبع البشر، فإنه لا يقدر على الإحسان إلى المشيء إلا من جهة تكلفه ذالك شرعًا.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 252/5]

ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«تضمن هذا الباب صفتين لله تعالى: صفة ذات، و صفة فعل، فالرزق فعل من أفعاله تعالى، فهو من صفات فعله، والقوة من صفات الذات، وهى بمعني القدرة.» [شرح ابن بطال 404/10]
اس باب میں دو صفات اللہ تعالیٰ کی ضم ہیں، ایک صفت ذات اور دوسری صفت فعل، پس رزق کی جو صفت ہے وہ فعل ہے اللہ تعالیٰ کے افعال میں سے، اور وہ اس کے فعلی صفات سے ہے، اور دوسری صفت قوت کی ہے جو صفت ذات کی ہے اور یہ بمعنی قدرت کے ہیں۔ (جس سے باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے)۔

علامہ عینی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق حدیث کے آخری حصے سے ہے۔ [عمدة القاري للعيني: 129/25]

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک ترجمۃ الباب کا تعلق اولی کے ساتھ ہے صرف، کیوں کہ «صفة القوة» آنے والے باب میں اس کا تعلق موجود ہے: «باب قل هو القادر» ۔ [الابواب و التراجم: 780/6]

یہ عاجز اور حقیر بندہ کہتا ہے کہ ترجمۃ الباب کے آخری حصہ کا تعلق اسی حدیث کے ساتھ ضم ہے کیوں کہ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے قوۃ کا ذکر فرمایا ہے اور قوت کا استعمال انتقام کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ حدیث میں اللہ تعالیٰ تکلیف والی بات پر صبر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا صبر کرنا اس کی اس قوت کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ انتقام کو روک کر رکھتا ہے، لہٰذا باب کے ساتھ اسی جہت سے مناسبت بنتی ہے، اور جہاں تک تعلق ہے «باب قل هو القادر» کا تو اس باب میں صرف صبر کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مخلوقات کی حاجتیں پوری کرنا ہے، اسی لیے تحت الباب دعائے استخارہ کا ذکر فرمایا ہے۔ فافہم!
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 313   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 23  
´ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟ `
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللَّهِ يَدْعُونَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ» . . .»
. . . سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ کلمات سن کر صبر اور تحمل کرنے والا کوئی نہیں ہے مشرکین اللہ کے لیے بیٹا اور اولاد تجویز کرتے ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں عافیت بخشتا اور روزی دیتا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 23]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 7378]،
[صحیح مسلم 7080]

فقہ الحدیث
➊ اللہ کے صبر کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہونے کے باوجود کافروں اور مشرکوں کو ڈھیل دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو سب کافروں اور مشرکوں کو آن واحد میں تہس نہس کر دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ»
اور وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے تو وہ اپنی سرکشی میں سرگردان پھرتے ہیں۔ [سورة البقره 15]
➋ اللہ کو ایذا اور تکلیف دینے سے مراد مشرکین کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا کی اولاد ہے۔ یعنی مشرکین اپنے شرک کی وجہ سے اپنے رب کو ناراض کر دیتے ہیں۔
➌ دنیا میں اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کو بھی رزق و خوشیاں دیتا ہے، لیکن مرنے کے بعد ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔ مرنے کے بعد رزق اور خوشیاں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان لاتے ہیں، شرک و کفر نہیں کرتے، قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
➍ صبر کرنا بہترین عمل ہے۔ رب کریم فرماتا ہے:
«إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ»
صرف صبر کرنے والوں کو ان کا اجر (بہترین بدلہ) بےحد و حساب دیا جائے گا۔ [سوره الزمر: 10]
➎ سب گناہوں سے بڑا گناہ شرک ہے۔ مشرک اگر بغیر توبہ کے مر گیا تو ابدی جہنمی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
«إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ»
بےشک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو یقیناً اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا (جہنم کی) آگ ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ [سورة المائده: 72]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 23   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.