الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
Chapters on Etiquette
1. بَابُ : بِرِّ الْوَالِدَيْنِ
1. باب: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔
حدیث نمبر: 3658
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن ميمون المكي , حدثنا سفيان بن عيينة , عن عمارة بن القعقاع , عن ابي زرعة , عن ابي هريرة , قال: قالوا: يا رسول الله , من ابر؟ قال:" امك" , قال: ثم من؟ قال:" امك" , قال: ثم من؟ قال:" اباك" , قال: ثم من؟ قال:" الادنى فالادنى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ , عَنْ أَبِي زُرْعَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ:" أُمَّكَ" , قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" أُمَّكَ" , قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" أَبَاكَ" , قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" الْأَدْنَى فَالْأَدْنَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ، پھر پوچھا: اس کے بعد کون حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14920، ومصباح الزجاجة: 1270)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 2 (5971 تعلیقاً)، صحیح مسلم/البر والصلة 1 (2548)، مسند احمد (2/391) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
ح

   صحيح البخاري5971عبد الرحمن بن صخرأمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أبوك
   صحيح مسلم6501عبد الرحمن بن صخرمن أحق الناس بحسن صحابتي قال أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أبوك
   صحيح مسلم6501عبد الرحمن بن صخرمن أحق الناس بحسن الصحبة قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أبوك ثم أدناك أدناك
   سنن ابن ماجه3658عبد الرحمن بن صخرأمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال أباك قال ثم من قال الأدنى فالأدنى
   سنن ابن ماجه2706عبد الرحمن بن صخرنعم وأبيك لتنبأن أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أبوك تصدق وأنت صحيح شحيح تأمل العيش وتخاف الفقر لا تمهل حتى إذا بلغت نفسك ها هنا قلت مالي لفلان ومالي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3658  
´ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ، پھر پوچھا: اس کے بعد کون حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3658]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
والدین حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
جب اولاد کمزور ہوتی ہے تو والدین اس کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں اسی طرح جب والدین بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں تو اولاد کا فرض بنتا ہے کہ ان کی خدمت کرے اور ان کی ہر ضرورت پوری کرے۔

(2)
  والد کی نسبت والدہ حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے کیونکہ اس نے بچے کی پرورش میں زیادہ مشقت برداشت کی ہوتی ہے اور نرم دل ہونے کی وجہ سے اولاد سے اپنا مطالبہ زور دے کر تسلیم نہیں کرا سکتی اس لیے اس کی ضروریات بلا مطالبہ پوری ہونی چاہییں۔

(3)
بعض لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ والدین کا حق ادا ہو گیا۔
یہ درست نہیں اگر رہائش ان سے دور ہے تب بھی خط و کتابت کے ذریعے سے ان سے رابطہ رکھنا ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا، انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا اور اس طرح کے دوسرے معاملات ضروری ہیں۔
یہ والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات پورا کرنے سے بھی زیادہ اہم ہے۔

(4)
جتنا زیادہ قریبی تعلق ہو اتنا اس کا حق زیادہ ہوتا ہے مثلاً:
سگے بہن بھائیوں کا حق چچا زاد اور ماموں زاد وغیرہ سے زیادہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3658   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2706  
´زندگی میں بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2706]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔

(2)
جواب دینے سے پہلے تمہید کے طور پر کوئی بات کہنے سے سائل جواب کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتا ہے، جیسے آپ کا یہ فرمانا:
میں تجھے ضرور بتاؤں گا۔

(3)
قسم صرف اللہ کی ذات کی کھانا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔
ارشاد نبوى  ہے:
اللہ تعالی تمہیں باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، پس جو شخص قسم کھائے، وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، باب من لم یر إکفار من قال ذلک متأولا أوجاہلاً، حدیث: 6108)
اس لیے اس حدیث میں’باپ کی قسم‘ سے مراد’باپ کے رب کی قسم ہے۔
عربی زبان میں قرینے کی موجودگی میں الفاظ حذف کردینا عام ہے۔
  جیسے(واسئال القریة)
 بستی سے پوچھیے۔
 (یوسف12؍82)
، یعنی (واسئال اهل القریة)
 بستی کے باشندوں سے پوچھیے۔

(4)
تاہم ماں اگر کسی ایسے کام کا حکم دے جو شرعاً ممنوع یا مکروہ ہو اور باپ اس غلط کام سے منع کررے تو باپ کا حکم ماننا ضروری ہے اور یہ ماں سے حسن سلوک کے منافی نہیں۔

(5)
صحت کی حالت میں صدقہ زیادہ افضل ہے کیونکہ اس وقت دل میں مال کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے اور اسے خرچ کرنا اس لیے مشکل بھی محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں حالات خراب ہونے کاخطرہ محسوس ہوتا ہے جبکہ موت کے وقت یہ خیال ہوتا ہےکہ اب میں اسے استعمال تو نہیں کرسکوں گا، لہٰذا صدقہ کرکے فائدہ حاصل کرلوں۔
اس وقت دل میں مال کی محبت نہیں رہتی۔

(6)
زندگی کے آخری ایا م میں صدقہ کرنا شرعاً درست ہے۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں بھی صدقے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2706   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.