الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer for the Two 'Eids
33. بَابُ : ضَرْبُ الدُّفِّ يَوْمَ الْعِيدِ
33. باب: عید کے دن دف بجانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1594
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا محمد بن جعفر، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , دخل عليها وعندها جاريتان تضربان بدفين , فانتهرهما ابو بكر , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" دعهن فإن لكل قوم عيدا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ تَضْرِبَانِ بِدُفَّيْنِ , فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُنَّ فَإِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، تو ان دونوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑو (بجانے دو) کیونکہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے (جس میں لوگ کھیلتے کودتے اور خوشی مناتے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16669)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العیدین 2 (949)، 3 (952)، 25 (987)، الجھاد 81 (2906)، المناقب 15 (3529)، مناقب الأنصار 46 (3931)، صحیح مسلم/العیدین 4 (892)، سنن ابن ماجہ/النکاح 21 (1898)، مسند احمد 6/33، 84، 99، 127، 134 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري3931عائشة بنت عبد اللهلكل قوم عيدا وإن عيدنا هذا اليوم
   صحيح البخاري952عائشة بنت عبد اللهيا أبا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا
   صحيح البخاري2906عائشة بنت عبد اللهدخل علي رسول الله وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث فاضطجع على الفراش وحول وجهه فدخل أبو بكر فانتهرني وقال مزمارة الشيطان عند رسول الله فأقبل عليه رسول الله فقال دعهما فلما غفل غمزتهما فخرجتا كان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب فإما سألت رسول الله وإما
   صحيح مسلم2063عائشة بنت عبد اللهدعهما يا أبا بكر فإنها أيام عيد
   صحيح مسلم2061عائشة بنت عبد اللهلكل قوم عيدا وهذا عيدنا
   سنن النسائى الصغرى1594عائشة بنت عبد اللهدعهن فإن لكل قوم عيدا
   سنن ابن ماجه1898عائشة بنت عبد اللهيا أبا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3931  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى , وَعِنْدَهَا قَيْنَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاذَفَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ مَرَّتَيْنِ"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا , وَإِنَّ عِيدَنَا هَذَا الْيَوْمُ. . .»
. . . ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عیدالفطر یا عید الاضحی کا دن تھا، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شیطانی گانے باجے! (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) دو مرتبہ انہوں نے یہ جملہ دہرایا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر! انہیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3931]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3931 کا باب: «بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ:»
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہجرت کا ذکر فرمایا ہے، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں ہجرت کے کوئی الفاظ موجود نہیں، لہٰذا ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جتنی بھی احادیث کا ذکر فرمایا ہے ان سب کا تعلق یا ترجمۃ الباب سے ہے یا پھر ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے وہ تمام احادیث کا تعلق اور مناسبت ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہے۔
ابویحیٰی ذکریا الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومطابقة للترجمة من محذوف ذكره فى الحديث السابق عقب قصة بعاث، وهو قوله: فقدم روسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة .» [منحة الباري، شرح صحيح البخاري: 194/7]
ترجمۃ الباب سے مطابقت سابق حدیث میں ہے، جس میں بعاث کے قصہ کا ذکر ہے، اور ان کا قول کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔
انہیں الفاظ میں ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ہو گی، کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث 3930 میں واضح طور پر جنگ بعاث کا ذکر ہے، گویا امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو لاکر سابقہ حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جس سے ترجمۃ الباب میں مناسب قائم ہو جاتی ہے اور مزید یہ ہے کہ سابقہ حدیث کے الفاظ «فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة» جو کہ واضح طور پر ترجمہ الباب کی حدیث سے مناسبت کی دلیل فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث إنه مطابق للحديث السابق فما ذكر يوم بعاث.» [عمدة القاري للعيني: 90/17]
ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت اس حدیث کے ساتھ ہے جو سابقہ ہے، جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے۔
یعنی حدیث 3931 کا تعلق سابق حدیث 3930 سے ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اشارۃً اس حدیث کا ذکر فرما رہے ہیں جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے، جس حدیث نمبر 3930 سے حدیث نمبر 3931 کی مناسبت جنگ بعاث کے الفاظ سے قائم ہوئی تو حدیث نمبر 3930 میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا ذکر موجود ہے، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 48   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1594  
´عید کے دن دف بجانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، تو ان دونوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑو (بجانے دو) کیونکہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے (جس میں لوگ کھیلتے کودتے اور خوشی مناتے ہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1594]
1594۔ اردو حاشیہ:
➊ دف بجانا غیرضروری کام تو ہے مگر حرام نہیں، لہٰذا خوشی کے موقع پر نابالغ و غیرمکلف بچیاں اگر یہ کام کر لیں تو عید کی وسعت چشم پوشی کا تقاضا کرتی ہے۔ اگرچہ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی مگر روکا بھی نہیں جائے گا، البتہ حرام کام، مثلاً: موسیقی یا ڈھول وغیرہ، کو روکا جائے گا۔ حوصلہ افزائی تو کسی صورت بھی نہ کی جائے گی۔ جبکہ دیگر احادیث میں ہے کہ آپ چہرہ انور ڈھانپ کرلیٹے ہوئے تھے۔ دیکھیے: (حدیث: 1598 اور اس کے فوائد ملاحظہ فرمائیے) گویا نہ ان کی طرف توجہ کی، نہ دیکھا، نہ ان سے پیار کیا، نہ شاباش دی بلکہ اعراض کیا اور چشم پوشی فرمائی۔
➋ عید اور شادی وغیرہ کے موقع پر اگر چھوٹی بچیاں اپنے طور پر دف بجالیں اور پاکیزہ گانے گالیں تو کوئی حرج نہیں، البتہ اس کام کا اہتمام نہ کیا جائے۔
➌ دف نصف ڈھول کو کہہ سکتے ہیں، یعنی ایک طرف سے بند اور دوسری طرف سے کھلا۔ اسے بجانے سے زیادہ آواز نہیں پیدا ہوتی۔ گھڑا یا پرات وغیرہ بجانا بھی دف کی ذیل میں آسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بجانے والیں نابالغ بچیاں ہوں، البتہ ڈھول کی آواز بہت بلند اور مکروہ ہوتی ہے، لہٰذا وہ منع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1594   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1898  
´(شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں ایسے اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے دن کہے تھے، اور وہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کا باجا ہو رہا ہے، اور یہ عید الفطر کا دن تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری عید ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1898]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جنگ بعاث ایک جنگ کا نام ہے جو اہل مدینہ میں اس وقت ہوئی تھی جب اہل مدینہ کو ابھی قبول اسلام کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔
اس مناسبت سے ہر قبیلے کے شعراء نے جو شیلے شعر کہے تھے۔

(2)
شعر کہنا سننا جائز ہیں بشرطیکہ شرعی حدود کے اندر ہوں۔

(3)
گانے کا پیشہ اختیار کرنا اسلامی معاشرے میں ایک مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔
اور ایسے افراد قابل احترام نہیں بلکہ قابل نفرت ہیں۔

(4)
غلط کام ہوتا دیکھ کر سختی سے ڈانٹا جا سکتا ہے جبکہ ڈانٹنے والا اس مقام کا حامل ہو کہ غلطی کرنے والا اس کا احترام کرتا ہو اور اس کی ناراضی سے ڈرتا ہو۔

(5)
عید اور شادی وغیرہ کے موقع پر تفریحی پروگرام جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو تاہم اس واقعہ سے راگ رنگ کی مخلوط محفلوں اور بے ہودہ گاہوں کا جواز نکالنے کی کوشش کرنا غلط ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1898   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.