الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز عیدین کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Two Eids
4. باب الرُّخْصَةِ فِي اللَّعِبِ الَّذِي لاَ مَعْصِيَةَ فِيهِ فِي أَيَّامِ الْعِيدِ:
4. باب: عید کے روز جن کھیلوں میں گناہ نہیں ان کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2063
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو ، ان ابن شهاب ، حدثه، عن عروة ، عن عائشة ، ان ابا بكر دخل عليها وعندها جاريتان في ايام منى تغنيان وتضربان، ورسول الله صلى الله عليه وسلم مسجى بثوبه، فانتهرهما ابو بكر، فكشف رسول الله عنه، وقال: " دعهما يا ابا بكر فإنها ايام عيد ". وقالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسترني بردائه، وانا انظر إلى الحبشة وهم يلعبون وانا جارية، فاقدروا قدر الجارية العربة الحديثة السن.حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ ، حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنًى تُغَنِّيَانِ وَتَضْرِبَانِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَكَشَف رَسُولُ اللَّهِ عَنْهُ، وَقَالَ: " دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ ". وَقَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ وَأَنَا جَارِيَةٌ، فَاقْدِرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْعَرِبَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ.
عمرو نے کہا کہ ابن شہاب نے انھیں عروہ سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی (انھوں نے کہا) کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ منیٰ کے ایام میں میرے پاس دو بچیاں گارہی تھیں۔اور دف بجا رہی تھیں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ ان دونوں کو ڈانٹا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: "ابو بکر!انھیں چھوڑیئے کہ یہ عید کے دن ہیں۔"اور (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مجھےاپنی چادر سے چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی کہ وہ کھیل رہے تھے اور میں کم سن لڑکی تھی، ذرا اندازہ لگاؤ اس لڑکی کو شوق کس قدر ہوگا جو کھیل کی شوقین، نو عمر تھی (وہ کتنی دیر کھیل دیکھے گی؟)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ ایام منیٰ (عید کے دن) میں میرے پاس دو بچیاں گارہی تھیں۔اور دف بجا رہی تھیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا اوڑھے لیٹے ہوئے تھے،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو ڈانٹا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا ہٹا کر فرمایا: ابو بکر! انھیں چھوڑیئے کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔ اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھےاپنی چادر سے چھپائے ہوئے ہیں اور میں حبشیوں کو کھیلتا دیکھ رہی اور میں کم سن تھی، ذرا اندازہ لگاؤ اس بچی کا جو کھیل کی شوقین، کم سن اور نو عمر تھی (وہ کس قدر کھیل دیکھے گی؟)
ترقیم فوادعبدالباقی: 892

   صحيح البخاري3931عائشة بنت عبد اللهلكل قوم عيدا وإن عيدنا هذا اليوم
   صحيح البخاري952عائشة بنت عبد اللهيا أبا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا
   صحيح البخاري2906عائشة بنت عبد اللهدخل علي رسول الله وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث فاضطجع على الفراش وحول وجهه فدخل أبو بكر فانتهرني وقال مزمارة الشيطان عند رسول الله فأقبل عليه رسول الله فقال دعهما فلما غفل غمزتهما فخرجتا كان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب فإما سألت رسول الله وإما
   صحيح مسلم2063عائشة بنت عبد اللهدعهما يا أبا بكر فإنها أيام عيد
   صحيح مسلم2061عائشة بنت عبد اللهلكل قوم عيدا وهذا عيدنا
   سنن النسائى الصغرى1594عائشة بنت عبد اللهدعهن فإن لكل قوم عيدا
   سنن ابن ماجه1898عائشة بنت عبد اللهيا أبا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3931  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى , وَعِنْدَهَا قَيْنَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاذَفَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ مَرَّتَيْنِ"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا , وَإِنَّ عِيدَنَا هَذَا الْيَوْمُ. . .»
. . . ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عیدالفطر یا عید الاضحی کا دن تھا، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شیطانی گانے باجے! (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) دو مرتبہ انہوں نے یہ جملہ دہرایا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر! انہیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3931]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3931 کا باب: «بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ:»
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہجرت کا ذکر فرمایا ہے، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں ہجرت کے کوئی الفاظ موجود نہیں، لہٰذا ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جتنی بھی احادیث کا ذکر فرمایا ہے ان سب کا تعلق یا ترجمۃ الباب سے ہے یا پھر ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے وہ تمام احادیث کا تعلق اور مناسبت ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہے۔
ابویحیٰی ذکریا الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومطابقة للترجمة من محذوف ذكره فى الحديث السابق عقب قصة بعاث، وهو قوله: فقدم روسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة .» [منحة الباري، شرح صحيح البخاري: 194/7]
ترجمۃ الباب سے مطابقت سابق حدیث میں ہے، جس میں بعاث کے قصہ کا ذکر ہے، اور ان کا قول کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔
انہیں الفاظ میں ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ہو گی، کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث 3930 میں واضح طور پر جنگ بعاث کا ذکر ہے، گویا امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو لاکر سابقہ حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جس سے ترجمۃ الباب میں مناسب قائم ہو جاتی ہے اور مزید یہ ہے کہ سابقہ حدیث کے الفاظ «فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة» جو کہ واضح طور پر ترجمہ الباب کی حدیث سے مناسبت کی دلیل فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث إنه مطابق للحديث السابق فما ذكر يوم بعاث.» [عمدة القاري للعيني: 90/17]
ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت اس حدیث کے ساتھ ہے جو سابقہ ہے، جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے۔
یعنی حدیث 3931 کا تعلق سابق حدیث 3930 سے ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اشارۃً اس حدیث کا ذکر فرما رہے ہیں جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے، جس حدیث نمبر 3930 سے حدیث نمبر 3931 کی مناسبت جنگ بعاث کے الفاظ سے قائم ہوئی تو حدیث نمبر 3930 میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا ذکر موجود ہے، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 48   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1898  
´(شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں ایسے اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے دن کہے تھے، اور وہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کا باجا ہو رہا ہے، اور یہ عید الفطر کا دن تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری عید ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1898]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جنگ بعاث ایک جنگ کا نام ہے جو اہل مدینہ میں اس وقت ہوئی تھی جب اہل مدینہ کو ابھی قبول اسلام کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔
اس مناسبت سے ہر قبیلے کے شعراء نے جو شیلے شعر کہے تھے۔

(2)
شعر کہنا سننا جائز ہیں بشرطیکہ شرعی حدود کے اندر ہوں۔

(3)
گانے کا پیشہ اختیار کرنا اسلامی معاشرے میں ایک مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔
اور ایسے افراد قابل احترام نہیں بلکہ قابل نفرت ہیں۔

(4)
غلط کام ہوتا دیکھ کر سختی سے ڈانٹا جا سکتا ہے جبکہ ڈانٹنے والا اس مقام کا حامل ہو کہ غلطی کرنے والا اس کا احترام کرتا ہو اور اس کی ناراضی سے ڈرتا ہو۔

(5)
عید اور شادی وغیرہ کے موقع پر تفریحی پروگرام جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو تاہم اس واقعہ سے راگ رنگ کی مخلوط محفلوں اور بے ہودہ گاہوں کا جواز نکالنے کی کوشش کرنا غلط ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1898   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2063  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جارية:
نوخیز لڑکی۔
(2)
تقاولت الانصار:
وہ اشعار جو اوس اور خزرج نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں اپنی جراءت و بسالت اور تفوق و برتری کے اظہار کے لیے کہے تھے۔
بعاث،
اوس کے قلعہ کا نام ہے اور یوم بعاث سے مراد وہ وقت ہے جبکہ انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج کے درمیان جاہلیت کے دور میں معرکہ برپا ہوا تھا اور اس میں قبیلہ اوس غالب رہا تھا۔
(3)
ليست بمغنتين:
گانا بجانا ان کا فن یا عادت نہ تھی کہ وہ نفسانی خواہشات و جذبات کو بھڑکاتیں،
اور شہوت انگیز اشعار اور عورتوں کے حسن و جمال کے تذکرہ سے خواہشات کو مشتعل کرتیں اور حرام کاری کی تحریک پیدا کرتیں۔
(4)
مزمور:
زمیر سے ماخوذ ہے۔
حسن صوت سریلی آواز اور خوش الحانی کو کہتے ہیں۔
اور عربی زبان میں خوش الحانی سے شعر پڑھنے کو بھی غنا گانا سے تعبیر کرتے ہیں۔
دف،
ڈفلی:
جو چمڑے سے بنائی جاتی ہے اور ڈھولکی کی طرح اس کو بجاتے ہیں،
لیکن وہ ایک طرف سے کھلی ہوتی ہے۔
اس لیے اس سے زیادہ آواز پیدا نہیں ہوتی۔
ایام منیٰ:
اس سے مراد ایام تشریق گیارہ،
بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن ہیں۔
(5)
فاقدروا:
اندازہ لگاؤ،
قیاس کرو۔
(6)
العربة:
کھیل کی شوقین اور اس میں انتہائی دلچسپی لینے والی۔
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خوشی اور مسرت وشادمانی کے موقع پر بچیاں جو پیشہ ور مغنیہ نہ ہوں اور وہ جسم کے مختلف پوز بنا کر اپنے جسمانی شہوت انگیز اعضاء کو عریاں نہ کر رہی ہوں اور وہ نفس میں ہیجان پیدا کرنے والے اور جذبات کو بھڑکانے والے فحش اشعار نہ پڑھ رہی ہوں۔
تو ایسے اشعار جو کسی کی مدح وتوصف پر مشتمل ہوں ان میں کوئی گناہ نہیں ہیں۔
کیونکہ یہ بچیاں جنگی اشعار جن میں اپنے قومی مفاخر اور کارنامے بیان کیے گئے تھے یا اپنی قوم کی شجاعت وبہادری اور ان کے ظہور وغلبہ کا تذکرہ تھا پڑھ رہی تھیں۔
اور اس کے باجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ دوسری طرف کر کے چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے۔
جس سے معلوم ہوتا تھا یہ کام جائز تو ہے پسندیدہ نہیں ہے وگرنہ آپﷺ اس میں دلچسپی اور رغبت کا اظہار کرتے۔
اس لیے ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق گانے گانا ناجائز ہے۔
اس طرح آلات موسیقی معازف کی صورت میں ہوں جن کو ہاتھ سے بجایا جاتا ہے یا مزامیر کی شکل میں جن کو منہ سے بجانا ہے کا سننا حرام ہے۔
ہاں نکاح،
عید اور ولیمہ کے وقت دف بجانے کی اجازت ہے۔
اس لیے ائمہ اربعہ دف کو ان تین مواقع پر ہی بجانے کی اجازت دیتے ہیں یہ اجازت عام نہیں ہے۔
اور اس سے یہ بات خود بخود ثابت ہوتی ہے۔
جہاں جہاں آلات موسیقی کا عمل دخل ہے وہ سب کام حرام ہیں مثلاً ریڈیو۔
ٹی وی۔
وی سی آر اوراس قسم کے دوسرے آلات۔
خاص کر جب کہ یہ پروگرام عورتیں ننگے منہ اورننگے سر کرتی ہیں اور یہ پروگرام عموماً مغرب اخلاق اور عریانی وفحاشی۔
رہزنی اور دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں اور نوجوانوں کے اخلاق اور ان کی سیرت وکردار کو تباہ کررہے ہیں۔
اس لیے ان میں آلات کا کاروبارکرنا خریدوفروخت کرنا اور ان کا سننا سب شرعاً حرام ہیں۔

حبشیوں کے کھیل کا واقعہ 7 ہجری میں پیش آیا جبکہ حبشہ سے وفد آیا تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آلات جنگ کے ساتھ کھیلنا اور جنگی آلات کے کرتب دکھانا جائز ہے۔
کیونکہ یہ ہتھیاراور آلات جنگ میں کام آتے ہیں اور ان کے کھیل اور کرتب سے ان کے استعمال میں مہارت اور ٹریننگ حاصل ہوتی ہے اس لیے فوج اور مجاہدین کا فوجی اور جہادی مظاہرے کرنا درست ہے تاکہ دوسروں کے دلوں میں بھی ان کی تربیت لینے کا شوق اور ولولہ پیدا ہو۔
فوج اور مجاہدین کی تربیت میں بھی کمال اور ہنر مندی پیدا ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2063   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.