الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
15. باب مَا جَاءَ فِي الثَّبَاتِ عِنْدَ الْقِتَالِ
15. باب: جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1688
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان الثوري، حدثنا ابو إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: قال لنا رجل: افررتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يا ابا عمارة؟ قال: لا والله، ما ولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكن ولى سرعان الناس تلقتهم هوازن بالنبل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته، وابو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب آخذ بلجامها، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " انا النبي لا كذب، انا ابن عبد المطلب "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، وابن عمر، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ بِنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَجُلٌ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا عُمَارَةَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ وَلَّى سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 61 (2884)، و97 (2930)، والمغازي 54 (4315-4317)، صحیح مسلم/الجہاد 28 (1776)، (تحفة الأشراف: 1848)، و مسند احمد (4/289) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ براء بن عازب رضی الله عنہما کی کنیت ہے۔
۲؎: ابوسفیان بن حارث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے، اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ ہی میں جا ملے، اور اسلام قبول کر لیا، پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔
۳؎: اس طرح کے موزون کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بلاقصد و ارادہ نکلے تھے، اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں، عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہور شخصیت تھی، یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی، چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی الله عنہ نے جب آپ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: «أيكم ابن عبدالمطلب؟» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (209)

   صحيح البخاري2864براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب
   صحيح البخاري3042براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ما رئي من الناس يومئذ أشد منه
   صحيح البخاري2874براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب
   صحيح البخاري2930براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ثم صف أصحابه
   صحيح البخاري4317براء بن عازبأنا النبي لا كذب
   صحيح البخاري4316براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب
   صحيح البخاري4315براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب
   صحيح مسلم4616براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب اللهم نزل نصرك
   صحيح مسلم4615براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ثم صفهم
   صحيح مسلم4617براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب
   جامع الترمذي1688براء بن عازبأنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1688   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.