الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: کھانے کے احکام و مسائل
The Book on Food
21. باب مَا جَاءَ فِي طَعَامِ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاِثْنَيْنِ
21. باب: ایک آدمی کا کھانا تین آدمی کے لیے کافی ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 1820
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " طعام الاثنين كافي الثلاثة، وطعام الثلاثة كافي الاربعة "، قال: وفي الباب عن جابر، وابن عمر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. (حديث مرفوع) وروى جابر، وابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " طعام الواحد يكفي الاثنين وطعام الاثنين يكفي الاربعة وطعام الاربعة يكفي الثمانية ".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةَ، وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةَ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (حديث مرفوع) وَرَوَى جَابِرٌ، وَابْنُ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو کفایت کر جائے گا، دو آدمی کا کھانا چار آدمیوں کو کفایت کر جائے گا اور چار آدمی کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کفایت کر جائے گا،
۳- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 11 (5392)، صحیح مسلم/الأشربة 33 (2058)، و مسند احمد (2/407) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1686)

   صحيح البخاري5392عبد الرحمن بن صخرطعام الاثنين كافي الثلاثة وطعام الثلاثة كافي الأربعة
   صحيح مسلم5367عبد الرحمن بن صخرطعام الاثنين كافي الثلاثة وطعام الثلاثة كافي الأربعة
   جامع الترمذي1820عبد الرحمن بن صخرطعام الاثنين كافي الثلاثة وطعام الثلاثة كافي الأربعة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم411عبد الرحمن بن صخرطعام الاثنين كافي الثلاثة وطعام الثلاثة، كافي الاربعة
   مسندالحميدي1099عبد الرحمن بن صخرطعام الاثنين كافي الثلاثة، وطعام الثلاثة كافي الأربعة
   صحيح مسلم5371جابر بن عبد اللهطعام الرجل يكفي رجلين وطعام رجلين يكفي أربعة وطعام أربعة يكفي ثمانية
   صحيح مسلم5368جابر بن عبد اللهطعام الواحد يكفي الاثنين وطعام الاثنين يكفي الأربعة وطعام الأربعة يكفي الثمانية
   صحيح مسلم5370جابر بن عبد اللهطعام الواحد يكفي الاثنين وطعام الاثنين يكفي الأربعة
   جامع الترمذي1820جابر بن عبد اللهطعام الواحد يكفي الاثنين وطعام الاثنين يكفي الأربعة وطعام الأربعة يكفي الثمانية
   سنن ابن ماجه3254جابر بن عبد اللهطعام الواحد يكفي الاثنين وطعام الاثنين يكفي الأربعة وطعام الأربعة يكفي الثمانية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 411  
´دو آدمیوں کا کھانا تین کو کفایت کرتا ہے`
«. . . 368- وبه: أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: طعام الاثنين كافي الثلاثة وطعام الثلاثة، كافي الأربعة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے کئے کافی ہوتا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 411]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5392، ومسلم 178/2058، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ کھانا تھوڑا کھانا چاہئے۔ کھانا تھوڑا ہو تب بھی فراخدلی سے دوسروں کو اس میں شریک کرنا چاہئے۔
➋ اس حدیث میں اخلاص اور اتحاد واتفاق کی طرف بھی اشارہ ہے یعنی مسلمانوں کو باہم متفق رہنا چاہئے۔
➌ سخاوت موجبِ برکت ہوتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 368   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5392  
´ایک آدمی کا پورا کھانا دو کے لیے کافی ہو سکتا ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةِ وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5392]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5392کا باب: «بَابُ طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاِثْنَيْنِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے، کو واضح فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب آپ نے جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس کا تعلق دو کا کھانا تین آدمیوں کو کفایت کرتا ہے پر دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کو حل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«واستشكل الجمع بين الترجمة والحديث، فان قضية الترجمة مرجعها النصف وقضية الحديث مرجعها الثلث ثم الربع وأجيب بأن أشار بالترجمة الى لفظ حديث اٰخر ورد ليس على شرطه .» [فتح الباري لابن حجر: 457/10]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کو مشکل خیال کیا گیا ہے کیوں کہ قضیہ ترجمۃ کا مرجع نصف ہے، (یعنی ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے) جبکہ حدیث کا قضیہ ثلث پر ربع ہے، (یعنی دو کا کھانا تین اور تین کا کھانا چار کے لیے کافی ہے) تو اس کا جواب دیا گیا ہے کہ ترجمۃ الباب کے ذریعے ایک اور حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے، (جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے نکالا ہے، اس میں واضح الفاظ ہیں کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے۔)

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ورد حديث بلفظ الترجمة، لكنه لم يوافق بشرط البخاري، فاستقرأ معناه من حديث الباب .» [لب اللباب: 271/4]
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث کے الفاظ تھے انہیں ترجمۃ الباب میں شامل کر دیا لیکن وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہ تھی پس اسی لیے اس کے معنی کو ترجمۃ الباب میں برقرار رکھا۔
امام ابن المنیر رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جو الفاظ نقل فرمائے وہ حدیث کے الفاظ ہیں، مگر تحت الباب اس حدیث کو ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ وہ آپ کی شرط پر نہیں تھی۔

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«وأخرجه مسلم والترمذي وقال: حسن، صحيح، والنسائي ولفظ الترجمة أخرجه الترمذي من حديث جابر مرفوعاً: طعام الواحد يكفي الاثنين، وطعام الاثنين يكفي الأربعة، وطعام الأربعة يكفي الثمانين .» [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 26]
(امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے، اس حدیث کو) امام مسلم رحمہ اللہ نے اور ترمذی رحمہ اللہ نے نکالا ہے اور کہا ہے کہ حسن، صحیح اور نسائی میں اور ترمذی میں الفاظ ہیں، (جو ترجمۃ الباب میں ہیں) جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً کہ ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے اور چار کا کھانا آٹھ لوگوں کے لیے کافی ہے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذه الترجمة لفظ حديث أخرجه ابن ماجة باسناده من حديث عمر مرفوعاً وروى الطبراني من حديث ابن عمر رضى الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كلوا جميعا ولا تفرقوا، فان طعام الواحد يكفي الاثنين .» [عمدة القاري للعيني: 63/21]
یعنی یہ ترجمۃ الباب جس حدیث پر قائم ہے، اس کو ابن ماجہ نے اپنی سند سے مرفوعاً نکالے ہیں اور امام طبرانی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ سب مل کر جدا جدا نہ رہو پس یقیناً ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو کفایت کرتا ہے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اشارہ اس حدیث کی طرف فرمایا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے نکالا ہے۔ [ارشاد الساري: 187/92]

ان اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں وارد شدہ الفاظ دراصل حدیث کے ہیں اور وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں تھی، اس لیے آپ رحمہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے، لیکن ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کو قلیل طعام کثیر لوگوں کو کفایت کر جائے گا یہی مراد ہے ترجمۃ الباب کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 127   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3254  
´ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر کھانا کم ہو تو مسلمان کوچاہیے کہ دوسرے ساتھیوں کا خیال رکھ کر کھائے۔

(2)
مل کر کھانا کھانے سے تھوڑا زیادہ افراد کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور کھانے میں برکت ہوتی ہے۔

(3)
باہمی ہمدردی اور خیر خواہی مسلمانوں کی امتیازی خوبی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3254   
حدیث نمبر: 1820M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
اس سند سے جابر رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 33 (2059)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 2 (3254)، (تحفة الأشراف: 2301)، و مسند احمد (3/301، 382)، سنن الدارمی/الأطعمة 13 (2086) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1686)


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.