حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو مسئلے بیان کیے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
تیمم طہارت اصلیہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے نماز کے لیے طہارت کو ضروری قراردیا ہے اور طہارت دو الگ الگ صورتوں میں دو طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
اگر پانی میسر ہو اور اس کے استعمال پر قدرت نہ ہوتو پانی کے ذریعے سے طہارت حاصل کی جائے۔
اگر پانی نہ ہو یا اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو مٹی اس کا بدل ہے گویا حصول طہارت میں پانی اصل ہے اور مٹی اس کا بدل ہے اصل کے نہ ملنے سے بدل سے وہ تمام کام لیے جائیں گے جو اصل سے لیے جاتے ہیں۔
شریعت نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ دیا ہے جس طرح ایک وضو سے ہر قسم کی نمازیں:
فرائض، نوافل فوت شدہ نمازیں عیدین اور نماز جنازہ وغیرہ ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک تیمم سے بھی سب کام لیے جائیں گے اور یہ ہر وقت کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہو گا۔
البتہ نواقض تیمم میں ایک چیز نواقض وضو سے زائد ہے اور وہ ہے پانی کا دستیاب ہونا، یعنی پانی دستیاب ہوتے ہی تیمم ختم ہوجائے گا۔
بعض حضرات کے نزدیک تیمم طہارت ضروریہ ہے، یعنی تیمم کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنا مجبوری کے درجے کی چیز ہے جتنی ضرورت ہو، اتنے وقت تک تیمم سے کام لے سکتے ہیں، ضرورت پوری ہوتے ہی یہ طہارت ختم ہو جائے گی۔
ایک تیمم سے وقت کے دوران میں صرف وقتی فریضہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے، کسی دوسرے فریضے کی قضا بھی نہیں دے سکتے، اس کے لیے دوسرا تیمم کرنا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں تیمم رافع حدث نہیں بلکہ صرف استباحت صلاۃ کا کام دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ اس رائے سے متفق نہیں وہ فرماتے ہیں کہ پاک مٹی مومن کے حق میں وضو کی جگہ ہے، اگر پانی میسر نہ ہوتو یہ اس سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تیمم مطلق طور پر وجہ ارض سے جائز ہے، خواہ وہ زرخیز ہو یا بنجر بعض حضرات یہ فرق کرتے ہیں کہ تراب منبت
(زرخیز مٹی) سے جائز ہے، غیر منبت سے جائز نہیں، امام بخاری ؒ اس فرق کو قبول نہیں کرتے۔
وہ فرماتے ہیں:
زمین شور
(بنجر زمین) پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے، اس کی وضاحت بھی پہلے ہو چکی ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں امام ابن خزیمہ ؒ کے ایک وقیع استدلال کا بھی حوالہ دیا تھا۔
2۔
اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز فجر نیند کی وجہ سے قضا ہو گئی تھی جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں دل بیدار رہتا تھا، بظاہر ان دونوں روایات میں تعارض ہے اس تعارض کو دو طرح سے دور کیا گیا ہے۔
دل کے بیدار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے محسوسات کا ادراک کرتا ہے جو اس سے براہ راست متعلق ہیں، جیسے حدث وغیرہ لیکن جو محسوسات آنکھ یا کسی اور چیز سے متعلق ہیں، ان کا ادراک دل نہیں کرتا، یہاں طلوع سحر کے ادراک کا تعلق دل سے نہیں آنکھ سے ہے جو اس وقت سو چکی تھی۔
دل کی دو حالتیں ہیں ایک بیداری جو عام طور پر رہتی تھی دوسری نیند جو کبھی کبھار پیش آتی تھی، اتفاق سے یہ واقعہ دل کی حالت نیند میں پیش آگیا۔
بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بعض اوقات بیداری کی حالت میں بعض مصالح کے پیش نظر سہو ہوتا تھا۔
پھر جب بیداری میں سہو کی صورت پیش آسکتی ہے تو نیند کی حالت میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
(فتح الباري: 583/1) 2۔
آخر میں امام بخاری ؒ نے لفظ صابي کی لغوی تحقیق فرمائی ہے، اس مناسبت سے قرآن کریم میں جو صابئین آیا ہے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے ابو العالیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، جسے ابن ابی حاتم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے۔
ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے بإسناد حسن نقل کیا ہے کہ صابئین اہل کتاب نہیں تھے۔
امام بخاری ؓ نے یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ صابي کی وضاحت ہو جائے کہ اس سے مراد وہ طائفہ نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
(فتح الباري: 588/1)