صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
55. باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها:
باب: قضا نماز کا بیان اور ان کو جلد پڑھنے کا استحباب۔
ترقیم عبدالباقی: 682 ترقیم شاملہ: -- 1563
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ الْعُطَارِدِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَدْلَجْنَا لَيْلَتَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ، عَرَّسْنَا فَغَلَبَتْنَا أَعْيُنُنَا، حَتَّى بَزَغَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَّا أَبُو بَكْرٍ، وَكُنَّا لَا نُوقِظُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ، إِذَا نَامَ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، فَقَامَ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ وَرَأَى الشَّمْسَ قَدْ بَزَغَتْ، قَالَ: ارْتَحِلُوا، فَسَارَ بِنَا حَتَّى إِذَا ابْيَضَّتِ الشَّمْسُ، نَزَلَ فَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا؟ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ عَجَّلَنِي فِي رَكْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ نَطْلُبُ الْمَاءَ، وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ، إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: أَيْهَاهْ، أَيْهَاهْ، لَا مَاءَ لَكُمْ، قُلْنَا: فَكَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ؟ قَالَتْ: مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ، فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا، حَتَّى انْطَلَقْنَا بِهَا، فَاسْتَقْبَلْنَا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَتْنَا، وَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا مُوتِمَةٌ لَهَا صِبْيَانٌ أَيْتَامٌ، فَأَمَرَ بِرَاوِيَتِهَ، فَأُنِيخَتْ، فَمَجَّ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ الْعُلْيَاوَيْنِ، ثُمَّ بَعَثَ بِرَاوِيَتِهَا، فَشَرِبْنَا وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا عِطَاشٌ، حَتَّى رَوِينَا وَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ وَغَسَّلْنَا صَاحِبَنَا، غَيْرَ أَنَّا لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا، وَهِيَ تَكَادُ تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ، يَعْنِي الْمَزَادَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَاتُوا مَا كَانَ عِنْدَكُمْ، فَجَمَعْنَا لَهَا مِنْ كِسَرٍ وَتَمْرٍ، وَصَرَّ لَهَا صُرَّةً، فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَأَطْعِمِي هَذَا عِيَالَكِ، وَاعْلَمِي أَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْ مَائِكِ، فَلَمَّا أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقَدْ لَقِيتُ أَسْحَرَ الْبَشَرِ، أَوْ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ كَمَا زَعَمَ، كَانَ مِنْ أَمْرِهِ ذَيْتَ وَذَيْتَ، فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا ".
سلم بن زریر عطاری نے کہا: میں نے ابورجاء عطاری سے سنا، وہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم (تھکاوٹ کے سبب) اتر پڑے، ہم پر (نیند میں ڈوبی) آنکھیں غالب آگئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا۔ ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار ہو جاتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ جاگے، وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوگئے اور «اللہ اکبر» پکارنے لگے اور (اس) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہے تو فرمایا: ”(آگے) چلو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج (روشن) ہو کر سفید ہو گیا، آپ اترے، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا، اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا، ہم سخت پیاسے تھے، جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکائے ہوئے تھے (بکری کی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے، اونٹ پر سوار تھی)، ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ کہنے لگی: افسوس! تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا: تمہارے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ اس نے کہا: ایک دن اور رات کی مسافت ہے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ کہنے لگی: اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اسے اس کے معاملے میں (فیصلے کا) کچھ اختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئے، اس کے ساتھ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے آپ کو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا، اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے، اس کے (زیر کفالت) بہت سے یتیم بچے ہیں۔ آپ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا، اسے بٹھایا گیا اور آپ نے کلی کر کے مشکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا، پھر آپ نے اس کی اونٹنی کو کھڑا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس (شدید) پیاسے افراد تھے (ان مشکوں سے) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہوگئے اور ہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرایا، البتہ ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہ پلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی (کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب) پھٹنے والی ہو گئیں، پھر آپ نے فرمایا: ”تمہارے پاس جو کچھ ہے، لے آؤ۔“ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں، اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ نے اس سے کہا: ”جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو! ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں کی۔“ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا: میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ وہ خود کو سمجھتا ہے، وہ نبی ہے، اور اس کا معاملہ اس طرح سے ہے۔ پھر (آخر کار) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی، وہ مسلمان ہوگئی اور (باقی) لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ (یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے۔) [صحيح مسلم/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 1563]
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ہم رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کا وقت ہو گیا تو ہم نے پڑاؤ کیا اور ہم پر نیند نے غلبہ پا لیا، حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ ہم میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ ہماری عادت تھی کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگاتے نہیں تھے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہو جاتے، پھر (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہو گئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو کر اللّٰہ اکبر کہنے لگے اور تکبیر بھی بلند آواز سے کہتے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور سورج کو دیکھا کہ وہ نکل چکا ہے تو فرمایا کوچ کرو ہمارے ساتھ آپ بھی چلتے رہے، حتیٰ کہ سورج سفید ہو گیا (یعنی سرخی ختم ہوگئی دھوپ پھیل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک آدمی لوگوں سے الگ رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو اس سے پوچھا: ”اے فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کےنبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی تھی (جنابت کی بنا پر جماعت میں شریک نہیں ہوا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیمّم کا حکم دیا اور اس نے مٹی سے تیمّم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ساتھیوں کے ساتھ مجھے آگے پانی کی تلاش میں دوڑایا۔ کیونکہ ہمیں سخت پیاس لگ چکی تھی۔ ہم جا رہے تھے کہ اچانک ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان پاؤں لٹکائے ہوئے تھی تو ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا: دور بہت ہی دور۔ تم پانی حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوچھا: تیرے گھر والوں سے پانی کتنی دور ہے؟ اس نے کہا ایک دن، رات کا فاصلہ ہے۔ ہم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اس کا معاملہ اس کے اختیار میں نہ رہنے دیا اور اس کو لے کر چل کر پڑے اور ہم اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کچھ بتایا جو ہمیں بتا چکی تھی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتایا وہ یتیموں والی ہے۔ اس کے کئی یتیم بچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پانی والے اونٹ کے بارے میں حکم دیا۔ اسے بٹھایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشکوں کے اوپر والے دہانوں میں کلی کی پھر اس کے اونٹ کو اٹھا دیا گیا تو ہم نے پانی پیا جبکہ ہم چالیس پیاسے آدمی تھے۔ ہم سیراب ہو گئے اور ہمارے پاس جو مشکیزہ اور برتن تھا اس کو ہم نے بھر لیا اور آپنے ساتھی کو غسل کروایا۔ ہاں ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہیں پلایا اور اس کی مشکیں پھٹنے کو تھیں یعنی اس کی مشکیں پہلے سے بھی زیادہ بھر گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ تمہارے پاس ہے لاؤ“ ہم نے اس کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تھیلی میں باندھ دیا اور اسے فرمایا: جاؤ، اسے اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو ہم نے تیرے پانی کو کچھ کم نہیں کیا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی تو کہنے لگی آج میں سب انسانوں سے بڑے جادوگر کو مل چکی ہوں یا وہ نبی ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے، اس نے یہ کام دکھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی وجہ ان بستی والوں کو ہدایت دی۔ وہ مسلمان ہوئی اور بستی والے بھی مسلمان ہو گئے۔ [صحيح مسلم/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 1563]
ترقیم فوادعبدالباقی: 682
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
348
| عليك بالصعيد فإنه يكفيك |
صحيح البخاري |
3571
| أمره أن يتيمم بالصعيد ثم صلى أمر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا أربعين رجلا حتى روينا فملأنا كل قربة معنا وإداوة غير أنه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى أتت أهلها قالت لقيت أسحر الناس أو هو نبي كما |
صحيح مسلم |
1563
| أمره رسول الله فتيمم بالصعيد فصلى |
سنن النسائى الصغرى |
322
| عليك بالصعيد فإنه يكفيك |
بلوغ المرام |
110
| إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
344
| ما رزئنا من مائك شيئا لكن الله هو الذي أسقانا |
بلوغ المرام |
20
| ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه توضئوا من مزادة امراة مشركة |
صحيح مسلم |
1563
| اذهبي فاطعمي هذا عيالك، واعلمي انا لم نرزا من مائك |
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1563 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1563
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَدْلَجْنَا:
ہم تقریباً رات بھر چلتے رہے۔
(2)
بَزَغَتِ الشَّمْسُ:
سورج نکل آیا۔
(3)
سَادِلَةٍ:
لٹکائے ہوئے۔
(4)
مَزَادَتَيْنِ:
مَزَادَۃ بڑی مشک،
مَزَادَتَيْنِ وہ مشکیں جو اونٹ کے اوپر لادی جاتی ہیں۔
أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ بہت دور جہاں پہنچنے کی جلد امید نہ ہو۔
(5)
فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا:
ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔
(6)
مُوتِمَةٌ:
یتیم بچوں والی جن کا باپ فوت ہوچکا ہے۔
(7)
رَاوِيَة:
پانی ڈھونے والے اونٹ۔
(8)
عَزْلَاوَيْنِ:
عَزْلَاء کی تثنیہ ہے،
پانی نکالنے والا منہ کبھی مشکیزے کے نچلے کی بجائے اوپر والے منہ کو بھی کہہ دیتے ہیں،
جس سے پانی ڈالا جاتا ہے۔
اس لیے یہاں اس کی صفت علیا لائی گئی ہے۔
(9)
تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ:
پانی کی زیادتی سے پھٹنا۔
(10)
كِسَرٍ:
كسرةکی جمع ہے،
ٹکڑے۔
(11)
صَرَّ لَهَا صُرَّةً:
اس کےلیےتھیلی باندھی۔
(12)
صُرَّةً:
تھیلی۔
(13)
لَمْ نَرْزَأْ:
ہم نے کچھ کم نہیں کیا۔
(14)
ذَيْتَ ذَيْتَ:
كيت وكيت ياكذا وكذا کے ہم معنی ہے۔
یعنی یہ کام کیے یا اس اس طرح کیا۔
(15)
صَرْمَ:
گھروں کا اجتماع،
جماعت اور گروہ۔
فوائد ومسائل:
1۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے بشری تقاضا کی بنا پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلبہ پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے مجبور ہو کر رات کےآخری حصے میں آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتظام کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاگ کر صبح کا انتظار کریں اور جب فجر طلوع ہو تو ساتھیوں کو جگا دیں لیکن سفر کی تھکاوٹ کیوجہ سے وہ بھی سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔
2۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب واحترام کی بنا پر جگاتے نہیں تھے اور یہ بات بھی ملحوظ ہوتی تھی کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند کی حالت میں وحی کا نزول ہو رہا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنا اس میں خلل اندازی کا سبب بنے اور سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مقصد کے لیے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست بیدار نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوا کسی بزرگ اور واجب الاحترام شخصیت کو نماز کے لیے بیدار کرنا بے ادبی یا گستاخی نہیں ہے۔
3۔
نیند کی وجہ سے اگر نماز قضا ہو جائے تو باعث افسوس تو ہے لیکن گناہ اور جرم نہیں ہے۔
4۔
جو شخص مسلمانوں کے ساتھ جماعت میں شریک نہ ہو۔
اس سے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے۔
اگر اس کا عذر شرعی ہو تو اسے قبول کر لینا چاہیے جیسا کہ جنبی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم واقفیت کی بنا پر تیمم نہ کیا۔
اس لیے نماز میں شریک نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کا سبب پوچھا بتانے پر مسئلہ اس کو سمجھا دیا جس سے ثابت ہوا پانی اگر نہ ملے تو جنبی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا اور بعد میں پانی جب مل جائےگا تو غسل کر لے گا۔
5۔
ضرورت کے تحت اجنبی عورت سے بات چیت کرنا جائز ہے اور کافر کی چیز سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کافر کے ساتھ احسان بھی کیا جا سکتا ہے۔
6۔
پیاس کی ضرورت غسل جنابت پرمقدم ہے۔
پانی پینے کی ضرورت سے زائد ہو تو اس سے غسل کیا جائے گا۔
7۔
اس واقعہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزہ کا منہ کھول کر اس میں کلی فرمائی۔
اس مشکیزہ سے چالیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے وضو کیا۔
پانی پیا اور اپنے پانی کے تمام برتن بھر لیے۔
جنبی صحابی کو غسل کروایا۔
بعض مشکیزہ کے پانی میں کسی قسم کی کمی نہ ہوئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بھرا معلوم ہوتا تھا۔
8۔
نیند کی حالت میں دل اگرچہ بیدار ہوتا تھا لیکن آنکھیں سو جاتی تھیں۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کے طلوع ہونے اور سورج کے نکلنے کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ سورج کا تعلق دیکھنے سے ہے جو آنکھوں کا فعل ہے،
دل کا نہیں۔
9۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کی نماز فوت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز سے پہلے صبح کی سنتیں پڑھیں،
جس سے معلوم ہوا کہ قضاء شدہ نماز کے ساتھ اس کی سنتیں پڑھنا بہتر ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے احناف کے نزدیک سنتوں کی قضائی نہیں ہے۔
بعض احناف کا خیال ہے اگر نماز کے ساتھ سنتیں قضا ہو جائیں تو پھر ان کی قضائی ہے۔
اگرصرف سنتیں رہ جائیں تو قضائی نہیں ہے۔
10۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضا ہونے والی نماز کے لیے اذان کہی جائے گی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول جدید کے مطابق تکبیر کہہ لینا ہی کافی ہے۔
مفردات الحدیث:
(1)
أَدْلَجْنَا:
ہم تقریباً رات بھر چلتے رہے۔
(2)
بَزَغَتِ الشَّمْسُ:
سورج نکل آیا۔
(3)
سَادِلَةٍ:
لٹکائے ہوئے۔
(4)
مَزَادَتَيْنِ:
مَزَادَۃ بڑی مشک،
مَزَادَتَيْنِ وہ مشکیں جو اونٹ کے اوپر لادی جاتی ہیں۔
أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ بہت دور جہاں پہنچنے کی جلد امید نہ ہو۔
(5)
فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا:
ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔
(6)
مُوتِمَةٌ:
یتیم بچوں والی جن کا باپ فوت ہوچکا ہے۔
(7)
رَاوِيَة:
پانی ڈھونے والے اونٹ۔
(8)
عَزْلَاوَيْنِ:
عَزْلَاء کی تثنیہ ہے،
پانی نکالنے والا منہ کبھی مشکیزے کے نچلے کی بجائے اوپر والے منہ کو بھی کہہ دیتے ہیں،
جس سے پانی ڈالا جاتا ہے۔
اس لیے یہاں اس کی صفت علیا لائی گئی ہے۔
(9)
تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ:
پانی کی زیادتی سے پھٹنا۔
(10)
كِسَرٍ:
كسرةکی جمع ہے،
ٹکڑے۔
(11)
صَرَّ لَهَا صُرَّةً:
اس کےلیےتھیلی باندھی۔
(12)
صُرَّةً:
تھیلی۔
(13)
لَمْ نَرْزَأْ:
ہم نے کچھ کم نہیں کیا۔
(14)
ذَيْتَ ذَيْتَ:
كيت وكيت ياكذا وكذا کے ہم معنی ہے۔
یعنی یہ کام کیے یا اس اس طرح کیا۔
(15)
صَرْمَ:
گھروں کا اجتماع،
جماعت اور گروہ۔
فوائد ومسائل:
1۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے بشری تقاضا کی بنا پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلبہ پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے مجبور ہو کر رات کےآخری حصے میں آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتظام کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاگ کر صبح کا انتظار کریں اور جب فجر طلوع ہو تو ساتھیوں کو جگا دیں لیکن سفر کی تھکاوٹ کیوجہ سے وہ بھی سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔
2۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب واحترام کی بنا پر جگاتے نہیں تھے اور یہ بات بھی ملحوظ ہوتی تھی کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند کی حالت میں وحی کا نزول ہو رہا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنا اس میں خلل اندازی کا سبب بنے اور سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مقصد کے لیے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست بیدار نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوا کسی بزرگ اور واجب الاحترام شخصیت کو نماز کے لیے بیدار کرنا بے ادبی یا گستاخی نہیں ہے۔
3۔
نیند کی وجہ سے اگر نماز قضا ہو جائے تو باعث افسوس تو ہے لیکن گناہ اور جرم نہیں ہے۔
4۔
جو شخص مسلمانوں کے ساتھ جماعت میں شریک نہ ہو۔
اس سے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے۔
اگر اس کا عذر شرعی ہو تو اسے قبول کر لینا چاہیے جیسا کہ جنبی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم واقفیت کی بنا پر تیمم نہ کیا۔
اس لیے نماز میں شریک نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کا سبب پوچھا بتانے پر مسئلہ اس کو سمجھا دیا جس سے ثابت ہوا پانی اگر نہ ملے تو جنبی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا اور بعد میں پانی جب مل جائےگا تو غسل کر لے گا۔
5۔
ضرورت کے تحت اجنبی عورت سے بات چیت کرنا جائز ہے اور کافر کی چیز سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کافر کے ساتھ احسان بھی کیا جا سکتا ہے۔
6۔
پیاس کی ضرورت غسل جنابت پرمقدم ہے۔
پانی پینے کی ضرورت سے زائد ہو تو اس سے غسل کیا جائے گا۔
7۔
اس واقعہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزہ کا منہ کھول کر اس میں کلی فرمائی۔
اس مشکیزہ سے چالیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے وضو کیا۔
پانی پیا اور اپنے پانی کے تمام برتن بھر لیے۔
جنبی صحابی کو غسل کروایا۔
بعض مشکیزہ کے پانی میں کسی قسم کی کمی نہ ہوئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بھرا معلوم ہوتا تھا۔
8۔
نیند کی حالت میں دل اگرچہ بیدار ہوتا تھا لیکن آنکھیں سو جاتی تھیں۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کے طلوع ہونے اور سورج کے نکلنے کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ سورج کا تعلق دیکھنے سے ہے جو آنکھوں کا فعل ہے،
دل کا نہیں۔
9۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کی نماز فوت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز سے پہلے صبح کی سنتیں پڑھیں،
جس سے معلوم ہوا کہ قضاء شدہ نماز کے ساتھ اس کی سنتیں پڑھنا بہتر ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے احناف کے نزدیک سنتوں کی قضائی نہیں ہے۔
بعض احناف کا خیال ہے اگر نماز کے ساتھ سنتیں قضا ہو جائیں تو پھر ان کی قضائی ہے۔
اگرصرف سنتیں رہ جائیں تو قضائی نہیں ہے۔
10۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضا ہونے والی نماز کے لیے اذان کہی جائے گی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول جدید کے مطابق تکبیر کہہ لینا ہی کافی ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1563]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 20
مشرکین کے زیر استعمال برتن
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه توضئوا من مزادة امراة مشركة . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک مشرکہ عورت کے مشکیزہ سے پانی لے کر اس سے وضو کیا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 20]
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه توضئوا من مزادة امراة مشركة . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک مشرکہ عورت کے مشکیزہ سے پانی لے کر اس سے وضو کیا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 20]
� لغوی تشریح:
«مَزَادَة» ”میم“ کے فتحہ اور زائے معجمہ کے ساتھ ہے۔ چمڑے کے مشکیزے کو کہتے ہیں جو دو چمڑوں سے بنایا جاتا ہے اور ان کے درمیان تیسرے کو بھی لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ وسیع ہو جائے۔
فائدہ:
اس حدیث سے اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے زیر استعمال برتنوں کے پاک ہونے کی رہنمائی ملتی ہے اور یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مردہ جانوروں کی کھال دباغت کے بعد پاک ہو جاتی ہے کیونکہ جس مشکیزے سے آپ نے پانی لیا وہ ایک مشرکہ عورت کے قبضے میں تھا اور مشرکین کے ذبح کردہ جانور کی کھال سے تیار کیا گیا تھا اور ان کے ذبائح تو مردار ہی ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کے ایسے برتن جن میں نجاست وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو، ان کا استعمال بغیر کسی تردد و تذبذب کے جائز اور درست ہے۔
راویٔ حدیث:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما: آپ خزاعی اور کعبی تھے۔ آپ کا شمار اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ آپ کی کنیت ابونجید تھی۔ غزوہ خیبر کے زمانے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور وہیں 52 یا 53 ہجری میں وفات پائی۔
«مَزَادَة» ”میم“ کے فتحہ اور زائے معجمہ کے ساتھ ہے۔ چمڑے کے مشکیزے کو کہتے ہیں جو دو چمڑوں سے بنایا جاتا ہے اور ان کے درمیان تیسرے کو بھی لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ وسیع ہو جائے۔
فائدہ:
اس حدیث سے اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے زیر استعمال برتنوں کے پاک ہونے کی رہنمائی ملتی ہے اور یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مردہ جانوروں کی کھال دباغت کے بعد پاک ہو جاتی ہے کیونکہ جس مشکیزے سے آپ نے پانی لیا وہ ایک مشرکہ عورت کے قبضے میں تھا اور مشرکین کے ذبح کردہ جانور کی کھال سے تیار کیا گیا تھا اور ان کے ذبائح تو مردار ہی ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کے ایسے برتن جن میں نجاست وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو، ان کا استعمال بغیر کسی تردد و تذبذب کے جائز اور درست ہے۔
راویٔ حدیث:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما: آپ خزاعی اور کعبی تھے۔ آپ کا شمار اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ آپ کی کنیت ابونجید تھی۔ غزوہ خیبر کے زمانے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور وہیں 52 یا 53 ہجری میں وفات پائی۔
[بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 20]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 344
344. حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے اور رات بھر چلتے رہے۔ جب آخر شب ہوئی تو ہم کچھ دیر کے لیے سو گئے، اور مسافر کے نزدیک اس وقت سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ ہم ایسے سوئے کہ آفتاب کی گرمی ہی سے بیدار ہوئے۔ سب سے پہلے جس کی آنکھ کھلی وہ فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص اور پھر فلاں شخص۔ ابو رجاء ان (فلاں، فلاں اور فلاں) کے نام لیتے تھے، لیکن عوف بھول گئے۔۔ پھر چوتھے حضرت عمر بن خطاب ؓ جاگے۔ اور (ہمارا دستور یہ تھا کہ) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم استراحت فرماتے تو کوئی آپ کو بیدار نہ کرتا تھا تا آنکہ آپ خود بیدار ہو جاتے کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کو خواب میں کیا پیش آ رہا ہے؟ جب حضرت عمر ؓ نے بیدار ہو کر وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی، اور وہ دلیر آدمی تھے، تو انھوں نے بآواز بلند تکبیر کہنا شروع کی۔ سو وہ برابر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:344]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ خدایا اگرتومجھے نہ بچائے گا تومیں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔
پس لفظ صابی اسی سے بنا ہے جس کے معنی دوسری طرف جھک جانے کے ہیں۔
سفر مذکور کون سا سفر تھا؟ بعض نے اسے سفرخبیر، بعض نے سفرحدیبیہ، بعض نے سفرتبوک اور بعض نے طریق مکہ کا سفر قراردیا ہے۔
بہرحال ایک سفر تھا جس میں یہ واقعہ پیش آیا۔
چونکہ تکان غالب تھی اور پچھلی رات، پھر اس وقت ریگستان عرب کی میٹھی ٹھنڈی ہوائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کو نیند آگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوگئے۔
حتیٰ کہ سورج نکل آیا، اور مجاہدین جاگے۔
حضرت عمر ؓ نے یہ حال دیکھا توزور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کیاتاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ بھی کھل جائے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تسلی دلائی کہ جو ہوا اللہ کے حکم سے ہوا فکر کی کوئی بات نہیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور تھوڑی دورآگے بڑھ کر پھر پڑاؤ کیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اذان کہلواکر جماعت سے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے ہوئے دیکھا تومعلوم ہواکہ اس کو غسل کی حاجت ہوگئی ہے اور وہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہے۔
اس پر آپ نے فرمایا کہ اس حالت میں تجھ کو مٹی پر تیمم کرلینا کافی تھا۔
ترجمۃ الباب اسی جگہ سے ثابت ہوتا ہے۔
بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی تلاش میں حضرت علی ؓ اور حضرت عمران بن حصین ؓ کومقرر فرمایا اور انھوں نے اس مسافرعورت کو دیکھا کہ پانی کی پکھالیں اونٹ پر لٹکائے ہوئے جارہی ہے، وہ اس کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، ان کی نیت ظلم وبرائی کی نہ تھی بلکہ عورت سے قیمت سے پانی حاصل کرنا یا اس سے پانی کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔
آپ نے اس کی پکھالوں کے منہ کھلوادیے اور ان میں اپنا ریق مبارک ڈالا جس کی برکت سے وہ پانی اس قدر زیادہ ہو گیا کہ مجاہدین اور ان کے جانورسب سیراب ہوگئے اور اس جنبی شخص کو غسل کے لیے بھی پانی دیا گیا۔
اس کے بعد آپ نے پکھالوں کے منہ بندکرادیے اور وہ پانی سے بالکل لبریز تھیں۔
ان میں ذرا بھی پانی کم نہیں ہوا تھا۔
آپ نے احسان کے بدلے احسان کے طور پر اس عورت کے لیے کھانا غلہ صحابہ کرام سے جمع کرایا اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردیا۔
جس کے نتیجہ میں آگے چل کر اس عورت اور اس کے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت امام المحدثین ؒ کا مقصد اس روایت کی نقل سے یہ ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی پر تیمم کرلینا وضو اور غسل ہر دو کی جگہ کافی ہے۔
یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ خدایا اگرتومجھے نہ بچائے گا تومیں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔
پس لفظ صابی اسی سے بنا ہے جس کے معنی دوسری طرف جھک جانے کے ہیں۔
سفر مذکور کون سا سفر تھا؟ بعض نے اسے سفرخبیر، بعض نے سفرحدیبیہ، بعض نے سفرتبوک اور بعض نے طریق مکہ کا سفر قراردیا ہے۔
بہرحال ایک سفر تھا جس میں یہ واقعہ پیش آیا۔
چونکہ تکان غالب تھی اور پچھلی رات، پھر اس وقت ریگستان عرب کی میٹھی ٹھنڈی ہوائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کو نیند آگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوگئے۔
حتیٰ کہ سورج نکل آیا، اور مجاہدین جاگے۔
حضرت عمر ؓ نے یہ حال دیکھا توزور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کیاتاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ بھی کھل جائے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تسلی دلائی کہ جو ہوا اللہ کے حکم سے ہوا فکر کی کوئی بات نہیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور تھوڑی دورآگے بڑھ کر پھر پڑاؤ کیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اذان کہلواکر جماعت سے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے ہوئے دیکھا تومعلوم ہواکہ اس کو غسل کی حاجت ہوگئی ہے اور وہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہے۔
اس پر آپ نے فرمایا کہ اس حالت میں تجھ کو مٹی پر تیمم کرلینا کافی تھا۔
ترجمۃ الباب اسی جگہ سے ثابت ہوتا ہے۔
بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی تلاش میں حضرت علی ؓ اور حضرت عمران بن حصین ؓ کومقرر فرمایا اور انھوں نے اس مسافرعورت کو دیکھا کہ پانی کی پکھالیں اونٹ پر لٹکائے ہوئے جارہی ہے، وہ اس کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، ان کی نیت ظلم وبرائی کی نہ تھی بلکہ عورت سے قیمت سے پانی حاصل کرنا یا اس سے پانی کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔
آپ نے اس کی پکھالوں کے منہ کھلوادیے اور ان میں اپنا ریق مبارک ڈالا جس کی برکت سے وہ پانی اس قدر زیادہ ہو گیا کہ مجاہدین اور ان کے جانورسب سیراب ہوگئے اور اس جنبی شخص کو غسل کے لیے بھی پانی دیا گیا۔
اس کے بعد آپ نے پکھالوں کے منہ بندکرادیے اور وہ پانی سے بالکل لبریز تھیں۔
ان میں ذرا بھی پانی کم نہیں ہوا تھا۔
آپ نے احسان کے بدلے احسان کے طور پر اس عورت کے لیے کھانا غلہ صحابہ کرام سے جمع کرایا اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردیا۔
جس کے نتیجہ میں آگے چل کر اس عورت اور اس کے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت امام المحدثین ؒ کا مقصد اس روایت کی نقل سے یہ ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی پر تیمم کرلینا وضو اور غسل ہر دو کی جگہ کافی ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 344]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:344
344. حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے اور رات بھر چلتے رہے۔ جب آخر شب ہوئی تو ہم کچھ دیر کے لیے سو گئے، اور مسافر کے نزدیک اس وقت سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ ہم ایسے سوئے کہ آفتاب کی گرمی ہی سے بیدار ہوئے۔ سب سے پہلے جس کی آنکھ کھلی وہ فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص اور پھر فلاں شخص۔ ابو رجاء ان (فلاں، فلاں اور فلاں) کے نام لیتے تھے، لیکن عوف بھول گئے۔۔ پھر چوتھے حضرت عمر بن خطاب ؓ جاگے۔ اور (ہمارا دستور یہ تھا کہ) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم استراحت فرماتے تو کوئی آپ کو بیدار نہ کرتا تھا تا آنکہ آپ خود بیدار ہو جاتے کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کو خواب میں کیا پیش آ رہا ہے؟ جب حضرت عمر ؓ نے بیدار ہو کر وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی، اور وہ دلیر آدمی تھے، تو انھوں نے بآواز بلند تکبیر کہنا شروع کی۔ سو وہ برابر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:344]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو مسئلے بیان کیے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
تیمم طہارت اصلیہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے نماز کے لیے طہارت کو ضروری قراردیا ہے اور طہارت دو الگ الگ صورتوں میں دو طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
اگر پانی میسر ہو اور اس کے استعمال پر قدرت نہ ہوتو پانی کے ذریعے سے طہارت حاصل کی جائے۔
اگر پانی نہ ہو یا اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو مٹی اس کا بدل ہے گویا حصول طہارت میں پانی اصل ہے اور مٹی اس کا بدل ہے اصل کے نہ ملنے سے بدل سے وہ تمام کام لیے جائیں گے جو اصل سے لیے جاتے ہیں۔
شریعت نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ دیا ہے جس طرح ایک وضو سے ہر قسم کی نمازیں:
فرائض، نوافل فوت شدہ نمازیں عیدین اور نماز جنازہ وغیرہ ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک تیمم سے بھی سب کام لیے جائیں گے اور یہ ہر وقت کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہو گا۔
البتہ نواقض تیمم میں ایک چیز نواقض وضو سے زائد ہے اور وہ ہے پانی کا دستیاب ہونا، یعنی پانی دستیاب ہوتے ہی تیمم ختم ہوجائے گا۔
بعض حضرات کے نزدیک تیمم طہارت ضروریہ ہے، یعنی تیمم کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنا مجبوری کے درجے کی چیز ہے جتنی ضرورت ہو، اتنے وقت تک تیمم سے کام لے سکتے ہیں، ضرورت پوری ہوتے ہی یہ طہارت ختم ہو جائے گی۔
ایک تیمم سے وقت کے دوران میں صرف وقتی فریضہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے، کسی دوسرے فریضے کی قضا بھی نہیں دے سکتے، اس کے لیے دوسرا تیمم کرنا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں تیمم رافع حدث نہیں بلکہ صرف استباحت صلاۃ کا کام دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ اس رائے سے متفق نہیں وہ فرماتے ہیں کہ پاک مٹی مومن کے حق میں وضو کی جگہ ہے، اگر پانی میسر نہ ہوتو یہ اس سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تیمم مطلق طور پر وجہ ارض سے جائز ہے، خواہ وہ زرخیز ہو یا بنجر بعض حضرات یہ فرق کرتے ہیں کہ تراب منبت (زرخیز مٹی)
سے جائز ہے، غیر منبت سے جائز نہیں، امام بخاری ؒ اس فرق کو قبول نہیں کرتے۔
وہ فرماتے ہیں:
زمین شور(بنجر زمین)
پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے، اس کی وضاحت بھی پہلے ہو چکی ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں امام ابن خزیمہ ؒ کے ایک وقیع استدلال کا بھی حوالہ دیا تھا۔
2۔
اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر نیند کی وجہ سے قضا ہو گئی تھی جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں دل بیدار رہتا تھا، بظاہر ان دونوں روایات میں تعارض ہے اس تعارض کو دو طرح سے دور کیا گیا ہے۔
دل کے بیدار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے محسوسات کا ادراک کرتا ہے جو اس سے براہ راست متعلق ہیں، جیسے حدث وغیرہ لیکن جو محسوسات آنکھ یا کسی اور چیز سے متعلق ہیں، ان کا ادراک دل نہیں کرتا، یہاں طلوع سحر کے ادراک کا تعلق دل سے نہیں آنکھ سے ہے جو اس وقت سو چکی تھی۔
دل کی دو حالتیں ہیں ایک بیداری جو عام طور پر رہتی تھی دوسری نیند جو کبھی کبھار پیش آتی تھی، اتفاق سے یہ واقعہ دل کی حالت نیند میں پیش آگیا۔
بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اوقات بیداری کی حالت میں بعض مصالح کے پیش نظر سہو ہوتا تھا۔
پھر جب بیداری میں سہو کی صورت پیش آسکتی ہے تو نیند کی حالت میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
(فتح الباري: 583/1)
2۔
آخر میں امام بخاری ؒ نے لفظ صابي کی لغوی تحقیق فرمائی ہے، اس مناسبت سے قرآن کریم میں جو صابئین آیا ہے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے ابو العالیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، جسے ابن ابی حاتم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے۔
ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے بإسناد حسن نقل کیا ہے کہ صابئین اہل کتاب نہیں تھے۔
امام بخاری ؓ نے یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ صابي کی وضاحت ہو جائے کہ اس سے مراد وہ طائفہ نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
(فتح الباري: 588/1)
1۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو مسئلے بیان کیے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے نماز کے لیے طہارت کو ضروری قراردیا ہے اور طہارت دو الگ الگ صورتوں میں دو طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
اگر پانی میسر ہو اور اس کے استعمال پر قدرت نہ ہوتو پانی کے ذریعے سے طہارت حاصل کی جائے۔
اگر پانی نہ ہو یا اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو مٹی اس کا بدل ہے گویا حصول طہارت میں پانی اصل ہے اور مٹی اس کا بدل ہے اصل کے نہ ملنے سے بدل سے وہ تمام کام لیے جائیں گے جو اصل سے لیے جاتے ہیں۔
شریعت نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ دیا ہے جس طرح ایک وضو سے ہر قسم کی نمازیں:
فرائض، نوافل فوت شدہ نمازیں عیدین اور نماز جنازہ وغیرہ ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک تیمم سے بھی سب کام لیے جائیں گے اور یہ ہر وقت کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہو گا۔
البتہ نواقض تیمم میں ایک چیز نواقض وضو سے زائد ہے اور وہ ہے پانی کا دستیاب ہونا، یعنی پانی دستیاب ہوتے ہی تیمم ختم ہوجائے گا۔
بعض حضرات کے نزدیک تیمم طہارت ضروریہ ہے، یعنی تیمم کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنا مجبوری کے درجے کی چیز ہے جتنی ضرورت ہو، اتنے وقت تک تیمم سے کام لے سکتے ہیں، ضرورت پوری ہوتے ہی یہ طہارت ختم ہو جائے گی۔
ایک تیمم سے وقت کے دوران میں صرف وقتی فریضہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے، کسی دوسرے فریضے کی قضا بھی نہیں دے سکتے، اس کے لیے دوسرا تیمم کرنا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں تیمم رافع حدث نہیں بلکہ صرف استباحت صلاۃ کا کام دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ اس رائے سے متفق نہیں وہ فرماتے ہیں کہ پاک مٹی مومن کے حق میں وضو کی جگہ ہے، اگر پانی میسر نہ ہوتو یہ اس سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
سے جائز ہے، غیر منبت سے جائز نہیں، امام بخاری ؒ اس فرق کو قبول نہیں کرتے۔
وہ فرماتے ہیں:
زمین شور(بنجر زمین)
پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے، اس کی وضاحت بھی پہلے ہو چکی ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں امام ابن خزیمہ ؒ کے ایک وقیع استدلال کا بھی حوالہ دیا تھا۔
2۔
اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر نیند کی وجہ سے قضا ہو گئی تھی جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں دل بیدار رہتا تھا، بظاہر ان دونوں روایات میں تعارض ہے اس تعارض کو دو طرح سے دور کیا گیا ہے۔
بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اوقات بیداری کی حالت میں بعض مصالح کے پیش نظر سہو ہوتا تھا۔
پھر جب بیداری میں سہو کی صورت پیش آسکتی ہے تو نیند کی حالت میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
(فتح الباري: 583/1)
2۔
آخر میں امام بخاری ؒ نے لفظ صابي کی لغوی تحقیق فرمائی ہے، اس مناسبت سے قرآن کریم میں جو صابئین آیا ہے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے ابو العالیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، جسے ابن ابی حاتم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے۔
ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے بإسناد حسن نقل کیا ہے کہ صابئین اہل کتاب نہیں تھے۔
امام بخاری ؓ نے یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ صابي کی وضاحت ہو جائے کہ اس سے مراد وہ طائفہ نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
(فتح الباري: 588/1)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 344]


عمران بن ملحان العطاردي ← عمران بن حصين الأزدي