Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle arrived at Medina with Abu Bakr, riding behind him on the same camel. Abu Bakr was an elderly man known to the people, while Allah's Apostle was a youth that was unknown. Thus, if a man met Abu Bakr, he would day, "O Abu Bakr! Who is this man in front of you?" Abu Bakr would say, "This man shows me the Way," One would think that Abu Bakr meant the road, while in fact, Abu Bakr meant the way of virtue and good. Then Abu Bakr looked behind and saw a horse-rider persuing them. He said, "O Allah's Apostle! This is a horse-rider persuing us." The Prophet looked behind and said, "O Allah! Cause him to fall down." So the horse threw him down and got up neighing. After that the rider, Suraqa said, "O Allah's Prophet! Order me whatever you want." The Prophet said, "Stay where you are and do not allow anybody to reach us." So, in the first part of the day Suraqa was an enemy of Allah's Prophet and in the last part of it, he was a protector. Then Allah's Apostle alighted by the side of the Al-Harra and sent a message to the Ansar, and they came to Allah's Prophet and Abu Bakr, and having greeted them, they said, "Ride (your she-camels) safe and obeyed." Allah's Apostle and Abu Bakr rode and the Ansar, carrying their arms, surrounded them. The news that Allah's Prophet had come circulated in Medina. The people came out and were eagerly looking and saying "Allah's Prophet has come! Allah's Prophet has come! So the Prophet went on till he alighted near the house of Abu Aiyub. While the Prophet was speaking with the family members of Abu Aiyub, `Abdullah bin Salam heard the news of his arrival while he himself was picking the dates for his family from his family garden. He hurried to the Prophet carrying the dates which he had collected for his family from the garden. He listened to Allah's Prophet and then went home. Then Allah's Prophet said, "Which is the nearest of the houses of our Kith and kin?" Abu Aiyub replied, "Mine, O Allah's Prophet! This is my house and this is my gate." The Prophet said, "Go and prepare a place for our midday rest." Abu Aiyub said, "Get up (both of you) with Allah's Blessings." So when Allah's Prophet went into the house, `Abdullah bin Salaim came and said "I testify that you (i.e. Muhammad) are Apostle of Allah and that you have come with the Truth. The Jews know well that I am their chief and the son of their chief and the most learned amongst them and the son of the most learned amongst them. So send for them (i.e. Jews) and ask them about me before they know that I have embraced Islam, for if they know that they will say about me things which are not correct." So Allah's Apostle sent for them, and they came and entered. Allah's Apostle said to them, "O (the group of) Jews! Woe to you: be afraid of Allah. By Allah except Whom none has the right to be worshipped, you people know for certain, that I am Apostle of Allah and that I have come to you with the Truth, so embrace Islam." The Jews replied, "We do not know this." So they said this to the Prophet and he repeated it thrice. Then he said, "What sort of a man is `Abdullah bin Salam amongst you?" They said, "He is our chief and the son of our chief and the most learned man, and the son of the most learned amongst us." He said, "What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, " What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, "What would you think if he should embrace Islam?" They said, "Allah forbid! He can not embrace Islam." He said, "O Ibn Salaim! Come out to them." He came out and said, "O (the group of) Jews! Be afraid of Allah except Whom none has the right to be worshipped. You know for certain that he is Apostle of Allah and that he has brought a True Religion!' They said, "You tell a lie." On that Allah's Apostle turned them out.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 250
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3911
3911. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: ”اے اللہ! اسے گرا دے۔“ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3911]
حدیث حاشیہ:
نوٹ:
حضور اکرم ﷺ ابوبکر ؓ سے دو سال کئی مہینے عمر میں بڑے تھے لیکن اس وقت تک آپ کے بال سیاہ تھے اس لئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ نوجوان ہیں لیکن ابوبکر ؓ کی داڑھی کے بال کافی سفید ہو چکے تھے۔
راوی نے اسی کی تعبیر بیان کی ہے ابوبکر ؓ چونکہ تاجر تھے اوراکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے اس لئے لوگ آپ ؓ کو پہچانتے تھے۔
حدیث مذکور میں واقعہ ہجرت سے متعلق چند امور بیان کئے گئے ہیں آنحضرت ﷺ نے 27 صفر13 نبوی روز پنج شنبہ مطابق12 ستمبر622ء مکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے سفر شروع فرمایا مکہ سے چند میل فاصلہ پر کوہ ثور ہے ابتدا ء میں آپ نے اپنے سفر میں قیام کے لئے اسی پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا جہاں تین راتوں تک آپ نے قیام فرمایا۔
اس کے بعد یکم ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 16 ستمبر622 ء میں آپ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے راستے میں بہت سے موا فق اور نا موافق حالات پیش آئے مگر آپ بفضلہ تعالیٰ ایک ہفتہ کے سفر کے بعد خیریت وعافیت کے ساتھ8 ربیع الاول13نبوی روز دوشنبہ مطابق 23 ستمبر622 ء مدینہ کے متصل ایک بستی قبا نامی میں پہنچ گئے اور پنج شنبہ تک یہاں آرام فرمایا اس دوران میں آپ نے یہاں مسجد قبا کی بنیاد ڈالی12ربیع الاول 1 ھ جمعہ کے دن آپ قبا سے روانہ ہو کر بنو سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا اور آپ نے یہاں سو مسلمانوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا جمعہ سے فارغ ہو کر آپ یثرب کے جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج شہر یثرب مدینہ النبی کے نا م سے موسوم ہو گیا۔
آنحضرت ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو توراۃ میں موجود تھیں چنانچہ حبقوق نبی کی کتاب باب 3درس 3 میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ جنوب سے اور وہ جوقدوس ہے کوہ فاراں سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی یہاں مدینہ کے داخلہ پر یہ اشارے ہیں۔
کتاب بسویا 42 باب 11 میں ہے کہ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے۔
یہ گیت آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری پر گایا گیا۔
مدینہ کا نام پہلے انبیاءکی کتابوں میں سلع ہے۔
جنگ خندق میں مسلمانوں نے جس جگہ خندق کھودی تھی وہاں ایک پہاڑی کا نام جبل سلع مدینہ والوں کی زبان پر عام مروج تھا۔
ان ہی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول فرما لیا۔
ترمذی کی روایت کے مطابق عبد اللہ بن سلام ؓ نے رسول کریم ﷺ کا کلام پاک آپ کے لفظوں میں سنا تھا جس کے سنتے ہی وہ اسلام کے شید ا بن گئے۔
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ» یعنی ”اے لوگو! امن وسلامتی پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھو۔
ان عملوں کے نتیجہ میں تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔
“ اولین میزبان رسول کریم ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جن کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا۔
عمر میں حضرت رسول کریم ﷺسے حضرت ابو بکر ؓ دو سال چھوٹے تھے مگر ان پربڑھاپا غالب آگیا تھا۔
بال سفید ہو گئے تھے۔
وہ اکثر اطراف عرب میں بہ سلسلہ تجارت سفر بھی کیا کرتے تھے اس لئے لوگ ان سے زیادہ واقف تھے۔
ابو ایوب انصاری ؓ بنو نجار میں سے تھے۔
آنحضرت ﷺ کے دادا کی ماں اسی خاندان سے تھیں اس لئے یہ قبیلہ آپ کا نانہال قرار پایا۔
حضرت ابو ایوب ؓ کا نام خالد بن زید بن کلیب انصاری ہے۔
آپ کی وفات 51ھ میں قسطنطنیہ میں ہوئی اور یہ اس وقت یزید بن معاویہ کے ساتھ تھے۔
جب کہ ان کے والد حضرت امیر معاویہ ؓ قسطنطنیہ میں جہاد کر رہے تھے تو ان کے ساتھ نکلے اور بیمار ہو گئے۔
جب بیماری نے زور پکڑا تو اپنے ساتھیوں کو وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کو اٹھا لینا پھر جب تم دشمن کے سامنے صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے نیچے دفن کر دینا۔
لوگوں نے ایسا ہی کیا۔
آپ کی قبر قسطنطنیہ کی چار دیواری کے قریب ہے جو آج تک مشہور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3911
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3911
3911. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: ”اے اللہ! اسے گرا دے۔“ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3911]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ، سیدنا ابوبکر ؓ سے دوسال اور چند ماہ بڑے تھے۔
لیکن دیکھنے میں ابوبکر بوڑھے معلوم ہوتے تھے کیونکہ ان کے بال کافی سفید ہوچکے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے تمام بال سیاہ تھے۔
اس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ جوان آدمی ہیں۔
2۔
حضرت ابوبکرچونکہ تجارت پیشہ تھے اور اکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے، اس لیے لوگ آپ کو جانتے پہچانتے تھے۔
3۔
ا س حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی آمد کا سن کر آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تین سوالات کیے اور کہا:
ان کا جواب صرف نبی جانتا ہے اول یہ کہ قیامت کب آئے گی اور اس کی علامات کیا ہیں؟ دوسرا یہ کہ اہل جنت کو سب سے پہلے کون سا کھانا کھلایا جائے گا؟ تیسرا یہ کہ بچہ کبھی اپنے باپ اور کبھی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جب ان تینوں سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔
4۔
اس کے بعد یہودیوں کا کردار بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو اس وقت تورات میں موجود تھیں۔
انھی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول کیا۔
(فتح الباري: 315/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3911