ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے علقمہ بن مرثد نے، ان سے ابو عبیدالرحمن سلمی نے، ان سے عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب میں بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5028
حدیث حاشیہ: 1۔ اگر کوئی شخص رات بھر عبادت کرتا رہے وہ اس شخص کے برابر نہیں ہو سکتا۔ جو رات کے وقت صرف ایک گھنٹہ فہم قرآن میں صرف کردے اور قرآن کریم کے مطالب و معانی کی تحقیق میں کچھ وقت گزارے۔ 2۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ جہاد اور تعلیم قرآن میں سے کون سا عمل افضل ہےتو انھوں نے قرآنی تعلیم کو ترجیح دی اور بطور دلیل یہی حدیث بیان فرمائی۔ (فتح الباري: 97/9) اللہ تعالیٰ نے کسی جاہل کو کبھی اپنا ولی قرار نہیں دیا اور جاہل سے مراد وہ شخص ہے جسے بقدر ضرورت بھی قرآن کریم سے آشنائی نہ ہو بلکہ وہ اس سے بالکل بے بہرہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5028
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1452
´قرآن پڑھنے کے ثواب کا بیان۔` عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1452]
1452. اردو حاشیہ: تعلیم قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی بھی ضمناً اس شرف میں شامل ہے۔ کیونکہ یہ قرآن کی تفسیر اور اس کا نبوی بیان ہے۔اور بالتبع دیگر علوم شرعیہ بھی۔ اور یہ حدیث معلمین قرآن وسنت کے لئے فخر وانبساط کا باعث ہے۔ اہل دنیا خواہ انہیں کسی نظر سے دیکھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1452
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث211
´قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل و مناقب۔` عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(شعبہ کہتے ہیں:) تم میں سب سے بہتر (کہا)، (اور سفیان نے کہا:) تم میں سب سے افضل (کہا) وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 211]
اردو حاشہ: (1) قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، لہذا اس کا علم حاصل کرنا بھی دوسرے علوم سے افضل ہے اور اس کی تعلیم دینا بھی دوسرے علوم پڑھانے سے افضل ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں کی افضیلت کا دارومدار اعمال پر ہے جب کہ دنیا میں عام طور پر مال و دولت، حسن و جمال، یا عہدہ و منصب کو افضیلت کا معیار سمجھا جاتا ہے جو درست نہیں۔
(3) اس حدیث میں قرآن مجید کا علم حاصل کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی ترغیب ہے۔
(4) قرآن مجید کے علم میں قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت و تجوید سیکھنا اور سکھانا بھی شامل ہے اور اس کا ترجمہ و تفسیر بھی، چونکہ حدیث نبوی بھی قرآن کی وضاحت ہے، اس لیے حدیث کا علم حاصل کرنے والا اور اس کی تعلیم دینے والا بھی اس شرف میں شریک ہے۔
(5) قرآن پر عمل نہ کرنے والا اس شرف میں شریک نہیں جیسے کہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 211
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5027
5027. سیدنا عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔“ سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ سیدنا ابو عبدالرحمن سلمی نے سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ خلافت سے لے کر حجاج بن یوسف کے زمانہ امارت تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی وہ کہا کرتے تھے: یہی حدیث ہے جس نے مجھے اس جگہ تعلیم قرآن کے لیے بٹھا رکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5027]
حدیث حاشیہ: آج بھی کتنے خوش قسمت بزرگ ایسے ملیں گے جنہوں نے تعلیم قرآن میں اپنی ساری عمروں کو ختم کر دیا ہے بلکہ اسی حال میں وہ اللہ سے جاملے ہیں۔ رحم اللہ أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5027
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5027
5027. سیدنا عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔“ سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ سیدنا ابو عبدالرحمن سلمی نے سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ خلافت سے لے کر حجاج بن یوسف کے زمانہ امارت تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی وہ کہا کرتے تھے: یہی حدیث ہے جس نے مجھے اس جگہ تعلیم قرآن کے لیے بٹھا رکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5027]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابتدائے خلافت سے حجاج بن یوسف کی امارت کے انتہا تک تقریباً بہتر(72) سال کی مدت ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخر سے حجاج بن یوسف کی امارت کے آغاز تک تقریباً اڑتیس (38) سال کا وقفہ ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھوں نے کب پڑھانا شروع کی اور کب اس کی انتہا ہوئی۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا پڑھنا پڑھانا تمام نیک اعمال سے افضل ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق قرآن مجید پڑھنے پڑھانے والا تمام لوگوں سے بہترہے قرآن پڑھنا اور پڑھانا لازمی طور پر سب نیک اعمال سے افضل ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کا قاری قرآن کریم کے فقیہ سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا قاری بہت بڑا فقیہ ہوتا تھا نماز کی جماعت کے لیے قاری کو اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ وہ قاری ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ بھی ہوتا تھا۔ (فتح الباري: 97/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5027