3. باب النَّهْيِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِيهَا وَالنَّهْيِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ.
3. باب: قبروں پر مسجد بنانے اور ان میں مورتیں رکھنے کی ممانعت، قبروں کو مسجد بنانے کی ممانعت۔
Chapter: The prohibition of building masajid over graves and placing images therein; and the prohibition of taking graves as masajid
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2048
´قبروں کو مسجد بنانے پر وارد وعید کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2048]
اردو حاشہ:
یعنی ان کی طرف نماز پڑھی یا ان پر عبادت گاہ بنائی کیونکہ یہ یا تو قبر کی عبادت ہے یا قبر کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ممکن ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ قبر ہی کی پوجا شروع ہو جائے جیسے آج کل قبور صالحین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: 2045)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2048
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1330
1330. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:”اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1330]
حدیث حاشیہ:
یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔
توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔
امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا، یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔
جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت ﷺ نے لعنت فرمائی۔
افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔
حالانکہ آنحضرت ﷺ نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔
حضرت علی ؓ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا:
أبعثك علی ما بعثني علیه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا تدع تمثالا إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلاسویته۔
رواہ الجماعة إلا البخاري وابن ماجة۔
یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔
وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں۔
فیه أن السنة أن القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاهر أن رفع القبور زیادة علی القدر المأذون حرام۔
یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔
آگے علامہ فرماتے ہیں:
وَمِنْ رَفْعِ الْقُبُورِ الدَّاخِلِ تَحْتَ الْحَدِيثِ دُخُولًا أَوَّلِيَّا الْقُبَبُ وَالْمَشَاهِدُ الْمَعْمُورَةُ عَلَى الْقُبُورِ، وَأَيْضًا هُوَ مِنْ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ، وَقَدْ لَعَنَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاعِلَ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي، وَكَمْ قَدْ سَرَى عَنْ تَشْيِيدِ أَبْنِيَةِ الْقُبُورِ وَتَحْسِينِهَا مِنْ مَفَاسِدَ يَبْكِي لَهَا الْإِسْلَامُ، مِنْهَا اعْتِقَادُ الْجَهَلَةِ لَهَا كَاعْتِقَادِ الْكُفَّارِ لِلْأَصْنَامِ:
وَعَظُمَ ذَلِكَ فَظَنُّوا أَنَّهَا قَادِرَةٌ عَلَى جَلْبِ النَّفْعِ وَدَفْعِ الضَّرَرِ فَجَعَلُوهَا مَقْصِدًا لِطَلَبِ قَضَاءِ الْحَوَائِجِ وَمَلْجَأً لِنَجَاحِ الْمَطَالِبِ وَسَأَلُوا مِنْهَا مَا يَسْأَلُهُ الْعِبَادُ مِنْ رَبِّهِمْ، وَشَدُّوا إلَيْهَا الرِّحَالَ وَتَمَسَّحُوا بِهَا وَاسْتَغَاثُوا وَبِالْجُمْلَةِ إنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا شَيْئًا مِمَّا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّةُ تَفْعَلُهُ بِالْأَصْنَامِ إلَّا فَعَلُوهُ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ. وَمَعَ هَذَا الْمُنْكَرِ الشَّنِيعِ وَالْكُفْرِ الْفَظِيعِ لَا تَجِدُ مَنْ يَغْضَبُ لِلَّهِ وَيَغَارُ حَمِيَّةً لِلدِّينِ الْحَنِيفِ لَا عَالِمًا وَلَا مُتَعَلِّمًا وَلَا أَمِيرًا وَلَا وَزِيرًا وَلَا مَلِكًا، وَقَدْ تَوَارَدَ إلَيْنَا مِنْ الْأَخْبَارِ مَا لَا يُشَكُّ مَعَهُ أَنَّ كَثِيرًا مِنْ هَؤُلَاءِ الْمَقْبُورِينَ أَوْ أَكْثَرِهِمْ إذَا تَوَجَّهَتْ عَلَيْهِ يَمِينٌ مِنْ جِهَةِ خَصْمِهِ حَلَفَ بِاَللَّهِ فَاجِرًا، فَإِذَا قِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ:
احْلِفْ بِشَيْخِك وَمُعْتَقَدِكَ الْوَلِيِّ الْفُلَانِيِّ تَلَعْثَمَ وَتَلَكَّأَ وَأَبَى وَاعْتَرَفَ بِالْحَقِّ. وَهَذَا مِنْ أَبْيَنِ الْأَدِلَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ شِرْكَهُمْ قَدْ بَلَغَ فَوْقَ شِرْكِ مَنْ قَالَ:
إنَّهُ تَعَالَى ثَانِيَ اثْنَيْنِ أَوْ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ، فَيَا عُلَمَاءَ الدِّينِ وَيَا مُلُوكَ الْمُسْلِمِينَ، أَيُّ رُزْءٍ لِلْإِسْلَامِ أَشَدُّ مِنْ الْكُفْرِ، وَأَيُّ بَلَاءٍ لِهَذَا الدِّينِ أَضَرُّ عَلَيْهِ مِنْ عِبَادَةِ غَيْرِ اللَّهِ؟ وَأَيُّ مُصِيبَةٍ يُصَابُ بِهَا الْمُسْلِمُونَ تَعْدِلُ هَذِهِ الْمُصِيبَةَ؟ وَأَيُّ مُنْكَرٍ يَجِبُ إنْكَارُهُ إنْ لَمْ يَكُنْ إنْكَارُ هَذَا الشِّرْكِ الْبَيِّنِ وَاجِبًا:
لَقَدْ أَسْمَعْت لَوْ نَادَيْتَ حَيًّا ... وَلَكِنْ لَا حَيَاةَ لِمَنْ تُنَادِيوَلَوْ نَارًا نَفَخْت بِهَا أَضَاءَتْ ... وَلَكِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي رَمَادِ. (نیل الأوطار، ج: 4ص: 90)
یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔
یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔
ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔
ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔
اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔
اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔
ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔
إنا للہ وإناإلیه راجعون۔
اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔
عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔
مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔
اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔
پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔
کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔
”اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔
مگر جن (مردوں)
کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔
اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔
“ خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔
اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔
آمین حدیث علی ؓ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں:
ونهي أن یجصص القبر وأن یبنی علیه وأن یقعد علیه وقال لا تصلوا إلیها لأن ذلك ذریعة أن یتخذها الناس معبودا وأن یفرطوا في تعظمها بما لیس بحق فیحرفوا دینهم کما فعل أهل الکتاب وهو قوله صلی اللہ علیه وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور أنبیاءهم مساجد الخ۔
(حجة اللہ البالغة، ج: 2ص: 126 کراتشي)
اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔
پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں، جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔
انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔
نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1330
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4441
4441. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے دوبارہ نہ اٹھ سکے: ”اللہ تعالٰی یہود پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا تو آپ کی قبر کو برسر عام ظاہر کر دیا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4441]
حدیث حاشیہ:
غالبا آپ کی اس مبارک دعا کی برکت تھی کہ قبر مبارک کو اب بالکل مسقف کر کے بند کردیا گیا ہے۔
یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ آج ساری دنیا میں صرف ایک ہی سچے آخری رسول اللہ ﷺ کی قبر محفوظ ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ وہاں کوئی کسی بھی قسم کی پوجا پاٹ نہیں۔
(ﷺ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4441
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1330
1330. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:”اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1330]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا منع ہے جبکہ عنوان کا حاصل یہ ہے کہ قبر پر مسجد بنانا حرام ہے۔
ان دونوں کے درمیان تغایر ہے، لیکن یہ دونوں مفہوم لازم و ملزوم ہیں، اس لیے ان میں تغایر کی کوئی حیثیت نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 2042)
عید بنانے سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا اور وہاں جشن کا سا سماں پیدا کرنا۔
اس خطرے کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں دفن کیا گیا ہے اور آپ کی قبر کو کھلا نہیں رکھا گیا۔
جب مسجد کی توسیع کی گئی اور حجرہ شریف کو مسجد میں شامل کر دیا گیا تو حجرہ شریف کو مثلث، یعنی تکونی شکل میں بنا دیا گیا تاکہ استقبال کی صورت میں قبر کی طرف سجدہ نہ ہو۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے، جب اسے عید بنانے سے منع کر دیا گیا ہے تو دوسری کسی بھی قبر کو عید بنانا بالاولی ممنوع ہوا، لیکن افسوس کہ آج کا نام نہاد مسلمان اس فرمان نبوی کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔
أعاذنا الله منه۔
اللہ کا شکر ہے کہ حکومت سعودیہ نے ابھی تک اس پر کنٹرول کر رکھا ہے۔
زادها الله عزا و شرفا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1330
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1390
1390. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس مرض میں جس سے آپ صحت یاب نہ ہوئے تھے،فرمایا:”اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو مساجد بنالیا۔“ اگر آپ کی قبر کو مسجد بنالینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اسے ضرور ظاہر کردیاجاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1390]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے متعلق معلومات مہیا کی جائیں کہ وہ مسنم، یعنی زمین پر کوہان شتر کی طرح ابھری ہوئی تھی یا مسطح، یعنی زمین کے برابر تھی، اسی طرح وہ نمایاں تھی یا غیر نمایاں، نیز گھر میں قبر بنانا کیسا ہے؟ اس سلسلے میں چند اصولی باتیں حسب ذیل ہیں:
مسلمانوں میں سے جو فوت ہو جائیں انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تاکہ زائرین کی دعاؤں سے انہیں فائدہ پہنچے، گھروں میں دفن کرنا شریعت کے ہاں پسندیدہ نہیں، کیونکہ گھروں میں نوافل وغیرہ پڑھنے کا حکم ہے جبکہ قبروں کے مقامات پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو جو گھر میں دفن کیا گیا یہ آپ کی خصوصیت تھی، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کے دفن کے متعلق اختلاف ہوا۔
کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے۔
کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا جائے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، پھر آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کیا گیا۔
(سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1628)
ترمذی کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اسی جگہ فوت کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کو اس کا دفن کرنا منظور ہوتا ہے۔
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 1018)
چنانچہ امام بخاری ؒ نے پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دفن ہونے کی جگہ کا تعین کیا ہے۔
دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت کی ہے جس کے پیش نظر آپ کو گھر کی چار دیواری میں دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مبارک کو برسرعام نہیں بنایا گیا۔
وہ اندیشہ یہ تھا کہ مبادا یہودونصاریٰ کی طرح اہل اسلام بھی آپ کی قبر مبارک کو عبادت گاہ بنا لیں۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔
(مسندأحمد: 367/2)
عید سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا۔
ان خطرات کے سدباب کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کو گھر کی چار دیواری کے اندر بنایا گیا۔
دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت مقصود ہے۔
تیسری حدیث میں آپ کی قبر کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ کوہان نما تھی، زمین پر بچھی ہوئی نہ تھی۔
ایک اور روایت میں امام قاسم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور عمر ؓ کی قبروں کو دیکھا وہ نہ بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ ہی ملی ہوئی تھیں۔
(المستدرك للحاکم: 369/1)
رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی گئی تھی، (السنن الکبریٰ للبیھقي: 410/3)
اس لیے قبر سے جتنی مٹی نکلے وہی قبر پر ڈال دی جائے، اضافی مٹی ڈالنے سے قبر اونچی ہو جائے گی، چنانچہ حدیث میں بھی اس کی ممانعت ہے۔
(السنن النسائي، الجنائز، حدیث: 2030) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے دیوار گرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 ہجری میں مسجد نبوی کی توسیع کا پروگرام بنایا۔
اس سلسلے میں انہوں نے امہات المومنین کے حجروں کو خریدا تاکہ انہیں مسجد میں شامل کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو لکھا کہ ان حجروں کو گرا کر مسجد کو وسیع کر دیا جائے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی نگرانی میں انہیں گرانے کا حکم دیا۔
جب حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے اردگرد عمارت مکمل ہو گئی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کو گرانے کا حکم دیا جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ مدفون تھے۔
حجرہ گرنے کے بعد قبریں نمایاں ہو گئیں اور ان پر جو کنکریاں اور ریت ڈالی گئی تھی وہ ایک طرف ہو گئی۔
اس دوران میں پاؤں ننگے ہونے کا واقعہ پیش آیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
آپ نے اپنے غلام حضرت مزاحم کو قبریں درست کرنے کا حکم دیا۔
رجاء بن حیوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں حضرت عمر ؓ کی قبر ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓ آپ کے بائیں جانب ہیں۔
اس روایت کی سند انتہائی کمزور ہے۔
اس کی تاویل تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں۔
(فتح الباري: 326/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1390
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4441
4441. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے دوبارہ نہ اٹھ سکے: ”اللہ تعالٰی یہود پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا تو آپ کی قبر کو برسر عام ظاہر کر دیا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4441]
حدیث حاشیہ: قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی دوصورتیں ہیں۔
۔
قبروں کو براہ راست سجدہ کیا جائے۔
۔
نماز پڑھتے وقت قبر کو اپنے اور قبلے کے درمیان کیا جائے۔
یہودی لوگ یہ دونوں صورتیں اختیار کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔
اسی اندیشے کی برکت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر کو چھت کے زریعے سے بند کردیا گیا ہے۔
یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ آج تمام کائنات میں صرف ایک ہی سچے آخری رسول اللہ ﷺ کی قبر محفوظ ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ وہاں کسی بھی قسم کی پوجا پاٹ نہیں کی جاتی۔
والله المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4441