عبداللہ بن نمیر نے کہا: اسماعیل بن ابی خالد نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن عیسیٰ بن عبدالرحمان بن ابی یعلیٰ سے، انھوں نے اپنے دادا (عبدالرحمان) سے اور انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی داخل ہوا، نماز پڑھنے لگا اور اس نے جس طرح قراءت کی اس کو میں نے اس کے سامنے ناقابل مقبول قرار دے دیا۔پھر ایک اور آدمی آیا، پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے ایسی قراءت کی جو اس کے ساتھی (پہلے آدمی) کی قراءت سے مختلف تھی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت کی جو میں نے اس کے سامنے رد کردی اور دوسرا آیا تو اس نے اپنے ساتھی سے بھی الگ قراءت کی۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا، ان دونوں نے قراءت کی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے انداز کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں آپ کی تکذیب (جھٹلانے) کا داعیہ اس زور سے ڈالا گیا جتنا اس وقت بھی نہ تھا جب میں جاہلیت میں تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر طاری ہونے والی اس کیفیت کو دیکھا تو میرے سینے میں مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا، جیسے میں ڈر کے عالم میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "میرے پاس حکم بھیجا گیا کہ میں قرآن ایک حرف (قراءت کی ایک صورت) پر پڑھوں۔تو میں نے جواباً درخواست کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیں۔تو میرے پاس دوبارہ جواب بھیجا کہ میں اسے دو حرفوں پر پڑھوں۔میں نے پھر عرض کی کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیں۔تو میرئے پاس تیسری بار جواب بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھیے، نیز آپ کے لئے ہر جواب کے بدلے جو میں نے دیا ایک دعا ہے جو آپ مجھ سے مانگیں۔میں نے عرض کی: اے میرے اللہ!میری امت کو بخش دے۔اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کرلی ہے جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف راغب ہوں گے۔"
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آ کر نماز پڑھنے لگا اور اس نے ایسی قراءت کی جو میرے لئے غیر مانوس اور اجنبی تھی۔ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے ایسے انداز سے قراءت کی جو پہلے آدمی سے جدا تھی، جب ہم سب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے عرض کیا، اس نے ایسے لہجے اور انداز سے قراءت کی جو میرے لئے غیر مانوس اور اجنبی تھی، اور دوسرا آیا تو اس نے اپنے ساتھی سے الگ انداز میں قراءت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا، ان دونوں نے قراءت کی۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاملہ اور حالت کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب (جھٹلانا) کا داعیہ (شک و شبہ کی صورت میں) اس زور سے پیدا ہوا کہ اتنا شدید داعیہ جاہلیت کے دور میں بھی میرے اندر نہ تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس کیفیت وحالت کو دیکھا جو مجھ پر طاری تھی، تو میرے سینے پر ہاتھ مارا، جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا،اور مجھے محسوس ہوا کہ میں ڈر کے ڈر کے مارے گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں، اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”مجھے حکم بھیجا گیا، کہ میں قرآن ایک حرف پر پڑھوں۔ تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور گزارش کی کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیے۔تو مجھے دوبارہ حکم ملا، اسے دو حروف پر پڑھئے، میں نے پھراس کے سامنے عرض کیا کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیے تو مجھے سہ بارہ حکم ملا کہ اسے سات حروف پر پڑھیے،اور تیرے لئے تیری ہر گذارش پر، جس کا تمہیں جواب ملا ہے، ایک دعا مانگنے کی اجازت ہے تو میں نے عرض کیا: ”اے میرے اللہ! میری امت کو بخش دے، اے میرے اللہ میری امت کو بخش دے، اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کرلی ہے، جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف راغب ہوں گے۔“