حدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عبد الله بن ابي مليكة ، قال: توفيت ابنة لعثمان بن عفان بمكة، قال: فجئنا لنشهدها، قال: فحضرها ابن عمر، وابن عباس، قال: وإني لجالس بينهما، قال: جلست إلى احدهما، ثم جاء الآخر فجلس إلى جنبي، فقال عبد الله بن عمرلعمرو بن عثمان وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه "، فقال ابن عباس قد كان عمريقول بعض ذلك، ثم حدث، فقال: صدرت مع عمر من مكة حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو بركب تحت ظل شجرة، فقال: اذهب فانظر من هؤلاء الركب؟، فنظرت فإذا هو صهيب، قال: فاخبرته، فقال: ادعه لي، قال: فرجعت إلى صهيب، فقلت: ارتحل فالحق امير المؤمنين فلما ان اصيب عمر، دخل صهيب يبكي، يقول: وا اخاه وا صاحباه، فقال عمر: يا صهيب اتبكي علي؟، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الميت يعذب ببعض بكاء اهله عليه ". فقال ابن عباس: فلما مات عمر ذكرت ذلك لعائشة ، فقالت: يرحم الله عمر، لا والله ما حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله يعذب المؤمن ببكاء احد، ولكن قال: " إن الله يزيد الكافر عذابا ببكاء اهله عليه "، قال: وقالت عائشة: حسبكم القرآن ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164، قال: وقال ابن عباس عند ذلك: والله اضحك وابكى، قال ابن ابي مليكة: فوالله ما قال ابن عمر من شيء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: تُوُفِّيَتِ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا، قَالَ: فَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الْآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ كَانَ عُمَرُيَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، فَقَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ الرَّكْبُ؟، فَنَظَرْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ، قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ادْعُهُ لِي، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ، فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالْحَقْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا أَنْ أُصِيبَ عُمَرُ، دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي، يَقُولُ: وَا أَخَاهْ وَا صَاحِبَاهْ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ أَتَبْكِي عَلَيَّ؟، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ". فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ ، فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُمَرَ، لَا وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الْمُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَحَدٍ، وَلَكِنْ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، قَالَ: وَقَالَتْ عَائِشَةُ: حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ عِنْدَ ذَلِكَ: وَاللَّهُ أَضْحَكَ وَأَبْكَى، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: فَوَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ مِنْ شَيْءٍ.
ابن جریج نے کہا: مجھے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی مکہ میں فوت ہو گئی تو ہم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، میں ان میں سے ایک کے پاس بیٹھا تھا پھر دوسرا آکر میرے پہلو میں بیٹھ گیا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرو بن عثمان سے، اور وہ ان کے روبرو بیٹھے ہوئے تھے، کہا: ”تم رونے سے روکتے کیوں نہیں؟ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جاتا ہے۔‘“ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے بعض (طرح کے رونے سے) کہا کرتے تھے، پھر انہوں نے (مکمل) حدیث بیان کی، کہا: میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے لوٹا حتیٰ کہ جب ہم مقام بیداء پر پہنچے تو اچانک انہیں درخت کے سائے تلے کچھ اونٹ سوار دکھائی دیے، انہوں نے کہا: ”جا کر دیکھو یہ اونٹ سوار کون ہیں؟“ میں نے دیکھا تو وہ صہیب رضی اللہ عنہ تھے، میں نے (آکر) انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: ”انہیں میرے پاس بلاؤ۔“ میں لوٹ کر صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ میں نے کہا: ”چلیے، امیر المومنین کے ساتھ ہو جائیے۔“ اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیے گئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندر آئے کہہ رہے تھے: ”ہائے میرا بھائی! ہائے میرا ساتھی!“ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”صہیب! کیا تم مجھ پر رو رہے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’میت کو اس کے گھر والوں کے بعض (طرح کے) رونے سے عذاب دیا جاتا ہے۔‘“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو میں نے یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی، انہوں نے کہا: ”اللہ عمر پر رحم فرمائے! اللہ کی قسم! نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتا ہے بلکہ آپ نے فرمایا: ’اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے بڑھا دیتا ہے۔‘“ کہا: اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”اور تمہارے لیے قرآن کافی ہے (جس میں یہ ہے): «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى»(بوجھ اٹھانے والی کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی)۔“ اس کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ”اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔“ ابن ابی ملیکہ نے کہا: ”اللہ کی قسم! حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے (جواب میں) کچھ نہیں کہا۔“
عبد اللہ بن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی مکہ میں انتقال ہو گیا تو ہم ان کے جنا زے میں شرکت کے لیے آئے، ابن عمر اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی آ گئے۔ میں ان کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کیونکہ میں ان میں سے ایک (ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما)کے پاس بیٹھا تھا کہ دوسرا آ کر میرے پہلو میں بیٹھ گیا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن عثمان کو کہا اور وہ ان کے سامنے بیٹھے ہو ئے تھے کیا تم رونے سے نہیں رو کو گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایاہے ”میت کو اس کے گھروالوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جا تا ہے۔“