صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
1. باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ:
1. باب: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان دونوں سے کون زیادہ حقدار ہے۔
Chapter: Being Dutiful To One's Parents, And Which Of Them Is More Entitled To It
حدیث نمبر: 6507
Save to word اعراب
حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، ان ناعما مولى ام سلمة حدثه، ان عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: " اقبل رجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ابايعك على الهجرة والجهاد ابتغي الاجر من الله، قال: فهل من والديك احد حي؟ قال: نعم، بل كلاهما، قال: فتبتغي الاجر من الله؟ قال: نعم، قال: فارجع إلى والديك فاحسن صحبتهما ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ نَاعِمًا مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: " أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْكَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ كِلَاهُمَا، قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَيْكَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا ".
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟" اس نے کہا: جی ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟" اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "اپنے والدین کے پاس جاؤ اور اچھے برتاؤ سے ان کے ساتھ رہو۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا اور آپ سے عرض کیا،میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں،اس پر اللہ سےاجر کا طالب ہوں،آپ نے پوچھا،"کیا تیرے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟"اس نے کہا،جی ہاں،بلکہ دونوں زندہ ہیں،آپ نے پوچھا،"تم اللہ سے اجر کے خواہاں ہو؟"اس نے کہا،جی ہاں،آپ نے فرمایا:"تو پھر اپنے والدین کی طرف لوٹ جاؤ۔"اور ان دونوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2549

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
   صحيح البخاري3004عبد الله بن عمروجاء رجل إلى النبي فاستأذنه في الجهاد فقال أحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   صحيح البخاري5972عبد الله بن عمرولك أبوان قال نعم قال ففيهما فجاهد
   صحيح مسلم6507عبد الله بن عمروارجع إلى والديك فأحسن صحبتهما
   صحيح مسلم6504عبد الله بن عمروأحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   جامع الترمذي1671عبد الله بن عمروألك والدان قال نعم قال ففيهما فجاهد
   سنن أبي داود2529عبد الله بن عمروفيهما فجاهد
   سنن أبي داود2528عبد الله بن عمروارجع عليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   سنن النسائى الصغرى3105عبد الله بن عمروأحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   سنن النسائى الصغرى4168عبد الله بن عمروارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   سنن ابن ماجه2782عبد الله بن عمروارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   بلوغ المرام1083عبد الله بن عمرو أحي والداك ؟
   مسندالحميدي595عبد الله بن عمروفارجع إليهما وأضحكهما كما أبكيتهما
   مسندالحميدي596عبد الله بن عمروففيهما فجاهد

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6507 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6507  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
جب ماں باپ خدمت کے سخت محتاج ہوں،
کوئی دوسرا ان کی خبرگیری اور نگہداشت کرنے والا نہ ہو اور اس بنا پر وہ اجازت نہ دیں تو پھر ان کی خدمت و خبر گیری ہجرت اور جہاد سے مقدم ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6507   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1083  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین بقید حیات ہیں؟ وہ بولا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ان دونوں (کی خدمت) میں جدوجہد کرو۔ (بخاری و مسلم) مسند احمد اور ابوداؤد میں ابوسعید کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پھر اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو درست ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1083»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، بإذن الأبوين، حديث:3004، ومسلم، البر والصلة، باب برالوالدين وأيهما أحق به، حديث:2549، وحديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2530، وأحمد:3 /75.»
تشریح:
1. اس حدیث سے والدین کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں جہاد جیسا فریضہ بھی والدین کی رضامندی کے بغیر ادا نہیں کیا جاسکتا۔
2.آج کا نوجوان والدین کو خاطر میں لانے کے لیے تیار ہی نہیں۔
اپنی من مانی کرتا ہے اور والدین کو اپنی رائے کا پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
3.والدین کی رضامندی کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی ہے کہ جہاد تو فرض کفایہ ہے جبکہ والدین کی اطاعت فرض عین ہے۔
ظاہر ہے کہ فرض عین کو فرض کفایہ پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1083   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3105  
´ماں باپ کی موجودگی میں جہاد میں نہ نکلنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: پھر تو تم انہیں دونوں کی خدمت کا ثواب حاصل کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3105]
اردو حاشہ:
باب اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے، لہٰذا اگر کسی شخص کا گھر رہنا ضروری ہو، مثلا: والدین کی خدمت وغیرہ کے لیے، تو وہ جہاد کو نہ جائے۔ گھر رہ کر والدین اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرے۔ اس کے لیے یہی جہاد ہے۔ ہاں جس شخص پر جہاد فرض عین ہوجائے، مثلاً: سرکاری فوجی یا جب امیر سب کو نکلنے کا حکم دے تو پھر اسے بھی جانا پڑے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3105   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4168  
´ہجرت پر بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ہجرت پر بیعت کروں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے چھوڑا ہے، آپ نے فرمایا: تم ان کے پاس واپس جاؤ اور انہیں جس طرح تم نے رلایا ہے اسی طرح ہنساؤ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4168]
اردو حاشہ:
(1) ہجرت پر بیعت لینا مشروع نہیں رہا‘ ہاں دار کفر سے دار اسلام کی طرف ہجرت باقی ہے لیکن بغیر بیعت کے۔
(2) ترجمۃ الباب یعنی ہجرت پر بیعت کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت پر بیعت کی نیت سے آنے والے شخص سے رسول اللہ ﷺ نے،اس کے والدین کی عدم رضا مندی کی وجہ سے بیعت نہیں لی۔ اگر اس کے والدین کا مسئلہ نہ ہوتا تو آپ  بیعت لے لیتے۔ واللہ أعلم
(3) والدین کی نافرمانی اور ان کوایذا پہنچانا حرام اور ناجائز ہے۔ اسی طرح اگر جہاد کی فرضیت کے حالات بھی نہ ہوں تو اجازت کے بغیر جانا درست نہیں۔
(4) ہر دار کفر سے ہجرت کرنا فرض نہیں اگر قبضہ کافروں کا ہومگر وہ دینی امور میں رکاوٹ نہ ڈالتے ہوں تو وہاں سے ہجرت فرض نہیں جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں کو خود حبشہ بھیجا‘حالانکہ وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4168   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2528  
´ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جاؤ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2528]
فوائد ومسائل:
والدین مسلمان ہوں او ر جہاد فرض نہ ہو تو ان کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
کیونکہ دیگر مجاہدین اس کی کفایت کر سکتے ہیں۔
لیکن جب جہاد فرض ہو تو اجازت لینے کی قطعا ً کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم ایسے حالات میں کہ والدین باوجود مسلمان ہونے کے جہاد کی شرعی اہمیت و ضرورت سے آگاہ نہ ہوں۔
یا آگاہ نہ ہونا چاہیں۔
اور بذدلی کا شکار ہوں۔
مادی خدمات کے لئے اولاد بھی موجود ہو اور پھر بھی اجازت نہ دیں تو پھر مسئلہ امیر جہاد کے سامنے پیش کیا جائےاور اس کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔
واللہ أعلم بالصواب
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2528   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2529  
´ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں جہاد کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دونوں میں جہاد کرو ۱؎ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابو العباس شاعر ہیں جن کا نام سائب بن فروخ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2529]
فوائد ومسائل:
والدین کی خدمت مسلمان اولاد کا اہم ترین فریضہ ہے۔
نفلی جہاد کے مقابلے میں ان کی خدمت کو اولیت حاصل ہے۔
بالخصوص جب کہ ماں باپ اس کی خدمت کے محتاج ہوں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2529   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2782  
´ماں باپ کی زندگی میں جہاد کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ جہاد کے ارادے سے آیا ہوں، جس سے میرا مقصد رضائے الٰہی اور آخرت کا ثواب ہے، لیکن میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2782]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
والدین کو پریشان اور غمگین کرنے س بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
والدین کو پریشان کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایسا کام کیا جائے جس سے وہ خوش ہو جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2782   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1671  
´ماں باپ کو چھوڑ کر جہاد میں نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1671]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو،
کیوں کہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں،
اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہوگا،
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضا کارانہ طورپرجہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے،
لیکن اگر حالات وظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں،
بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1671   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:595  
595- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا۔اس نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس لیے حاضرہواہوں، تاکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کروں۔اورمیں اپنے ماں،باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس واپسں جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:595]
فائدہ:
اس حدیث سے والدین کی رضا مندی کی اہمیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ خواہ کام کس قدر ہی نیکی کا کیوں نہ ہو ان کی رضا مندی ضروری ہے۔ اب ہجرت سے بڑھ کر افضل کون ساعمل ہے؟ بعض لوگ قتال میں جانے کے لیے بھی والدین کی اجازت ضروری نہیں سمجھتے، جو کہ درست نہیں ہے۔ نیز دیکھیں: 596۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 595   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6504  
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرآپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو آپ نے پوچھا،"کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں۔"اس نے کہا،جی ہاں،فرمایا:"تو پھر خوب محنت سے ان کی خدمت کر۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6504]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام مالک،
شافعی،
احمد،
اوزاعی،
ثوری وغیرہم کا موقف اور نظریہ یہ ہے کہ جہاد میں نکلنے کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے،
لیکن یہ اس صورت میں ہے،
جب جہاد فرض عین نہ ہو،
لیکن اگر دشمن کی قوت و طاقت کی کثرت کے پیش نظر تمام افراد کا نکلنا ناگزیر ہو،
کسی کے لیے پیچھے رہنا جائز نہ ہو،
کیونکہ نفیر عام ہے تو پھر اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے،
الا یہ کہ ان کی خدمت و حفاظت کرنے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہ سکتے ہوں تو پھر بقول امام ابن حزم اس پر جہاد میں حصہ لینا بالاجماع ساقط ہو جائے گا،
حافظ ابن حجر نے،
اس حدیث سے یہ بھی استنباط کیا ہے کہ والدین کی اجازت کے بغیر اگر جہاد کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے تو عام سفر کے لیے بالاولیٰ نکلنا جائز نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6504   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3004  
3004. حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی۔ آپ نےفرمایا: کیا تمھارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کرنے میں خوب محنت کر(یہی تیرا جہاد ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3004]
حدیث حاشیہ:
یعنی ان کی خدمت بجا لانا یہی تیرا جہاد ہے۔
اسی سے امام بخاریؒ نے باب کا مطلب نکالا کہ ماں باپ کی رضا مندی جہاد میں جانے کے واسطے لینا ضروری ہے۔
کیونکہ آنحضرتﷺ نے ان کی خدمت جہاد پر مقدم رکھی۔
کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنیؒ کی والدہ ضعیفہ زندہ تھیں‘ اور یہ ان کی خدمت میں مصروف تھے۔
اس لئے آنحضرتﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر نہ ہوسکے اور صحابیت کے شرف سے محروم رہ گئے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3004   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5972  
5972. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کی: میں جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تیرے لیے ان کی خدمت کرنا ہی جہاد ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5972]
حدیث حاشیہ:
یعنی انہیں کی خدمت میں کوشش کرتے رہو تم کو اس سے جہاد کا ثواب ملے گا۔
مراد وہی جہاد ہے جو فرض کفایہ ہے کیونکہ فرض کفایہ دوسرے لوگوں کے ادا کرنے سے ادا ہو جائے گا مگر اس کے ماں باپ کی خدمت اس کے سوا کون کرے گا۔
اگر جہاد فرض عین ہو جائے اس وقت والدین کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5972   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3004  
3004. حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی۔ آپ نےفرمایا: کیا تمھارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کرنے میں خوب محنت کر(یہی تیرا جہاد ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3004]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے والدین کی خدمت کو جہاد پر مقدم کیا ہے۔
یہ اس لیے کہ ماں باپ کی خدمت فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے البتہ دشمن سے لڑنے کے لیے حاکم وقت جہاد کا عام حکم دے دے تو اس صورت میں جہاد فرض عین ہو گا ایسے حالات میں جہاد میں شرکت کے لیے والدین کی اجازت ضروری نہیں۔
ہمارے ہاں اس مسئلے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟ بعض عسکری تنظیمیں جہاد کے لیے والدین کی اجازت کو لائق توجہ ہی خیال نہیں کرتیں ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے۔
کہ جہاد اگر فرض عین ہو تو والدین کی اجازت لینا ضروری نہیں اور جہاد دو صورتوں میں فرض عین ہوتا ہے۔
دشمن جب اسلامی ملک پر حملہ کردے۔
حاکم وقت جہاد کا عام حکم دے دے۔
مذکورہ دو صورتوں میں والدین کی اجازت ضروری نہیں ان کے علاوہ جہاد کی جو صورت ہو گی اس میں والدین سے اجازت لینا ہو گی،چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
رسول اللہ ﷺنے اس سے دریافت فرمایا:
یمن میں تمھارا کوئی رشتے دار موجود ہے؟ اس نے کہا:
میرے والدین موجود ہیں آپ نے پوچھا:
تمھارے والدین نے تمھیں اجازت دی تھی؟ اس نے کہا:
نہیں۔
آپ نے فرمایا:
پھر تم واپس چلے جاؤ اور اپنے والدین سے اجازت طلب کرو اگر وہ تمھیں اجازت دیں تو جہاد میں شرکت کرو بصورت دیگر ان سے سلوک کرتے رہو۔
(مسند أحمد: 57/3،76)
اگرچہ اس حدیث سند میں کچھ کلام ہے تاہم دیگر صحیح احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
بہر حال جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں والدین سے اجازت لینا ضروری ہے اجازت نہ لینے کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور عرض کرنے لگا۔
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! سب سے افضل عمل کون ساہے؟ آپ نے فرمایا:
نماز اس نے عرض کی:
اس کے بعد کس عمل کی فضیلت ہے؟ آپ نے فرمایا:
جہاد کی۔
اس نے کہا میرے تو والدین زندہ ہیں۔
آپ نے فرمایا:
میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
اس نے کہا:
اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے!میں اپنے والدین کو چھوڑ کر ضرور جہاد میں شرکت کروں گا۔
آپ نے فرمایا:
پھر تم بہتر جانتے ہو۔
(مسند أحمد172/2)
لیکن اس روایت کی سند میں ابن لہیعہ اور حیی بن عبد اللہ المعافری ضعیف راوی ہیں۔
محدثین نے ان کے متعلق کلام کیا ہے اگر اس کی صحت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو حافظ ابن حجر ؒنے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے اس روایت کو جہاد کی اس صورت پر محمول کیا جائے گا جو فرض عین ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 170/6)
الغرض والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا انتہائی ضروری ہے اور جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ان سے اجازت لینا بھی لازم ہے اس کے بغیر جہاد میں شرکت کرنا محل نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3004   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5972  
5972. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کی: میں جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تیرے لیے ان کی خدمت کرنا ہی جہاد ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5972]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو ان کی خدمات کرنے میں بھر پور کوشش کی جائے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنے میں اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کی جائیں تو یہ خدمات دشمن سے قتال کرنے کے قائم مقام ہوں گی۔
(2)
واضح رہے کہ اس جہاد سے مراد وہی جہاد ہے جو فرض کفایہ ہے کیونکہ فرض کفایہ دوسرے لوگوں کے ادا کرنے سے ادا ہو جاتا ہے لیکن والدین کی خدمت اس کے بغیر کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔
اگر جہاد فرض عین ہو تو اس وقت والدین سے اجازت لینا ضروری نہیں، پھر دین اسلام کی سر بلندی کے لیے ہر چیز کو قربان کر دیا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5972   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.