حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الرجل ليعمل الزمن الطويل بعمل اهل الجنة، ثم يختم له عمله بعمل اهل النار، وإن الرجل ليعمل الزمن الطويل بعمل اهل النار، ثم يختم له عمله بعمل اهل الجنة ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيلَ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيلَ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
علاء کے والد (عبدالرحمٰن) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ انسان ایک لمبی مدت تک اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے لیے اس کے عمل کا خاتمہ اہل جہنم کے سے عمل پر ہوتا ہے اور بلاشبہ ایک آدمی لمبا زمانہ اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے لیے اس کے عمل کا خاتمہ اہل جنت کے سے عمل پر ہوتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک انسان عرصہ دراز تک اہل جنت والے کام کرتا رہتا ہے:"پھر اس کے عملوں کا خاتمہ اہل ناروالے عمل پر ہوتا ہے اور ایک انسان ایک طویل مدت تک دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے عملوں کا خاتمہ جنتیوں والے عمل پر ہو جاتا ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6740
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان کا خاتمہ کس قسم کے عمل پر ہو گا، انسان اپنے ناقص اور کم علم کی بنا پر اس سے آگاہ نہیں ہو سکتا، اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ فلاں جنتیوں والے کام کر رہا ہے اور اس کا خاتمہ اس پر ہو گا، حالانکہ ایسے نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے ان اچھے اعمال کا داعیہ اور محرک اچھا نہیں ہوتا، اس لیے اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے، اس طرح دوسرا انسان کسی مجبوری کی بنا پر برا کام کرتا ہے، دل سے وہ اسے برا ہی خیال کرتا ہے اور اس برے عمل سے بچنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے، اس لیے آپ نے اس کے ساتھ فيما يبدوا للناس کی قید لگائی ہے، جس طرح کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جس کا ظہور خاتمہ پر ہوتا ہے۔