ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابن نمیر کےنے ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے اورانھوں نے حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تو (حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا اور اس کی کونچیں کاٹنے والے شخص کا ذکر فرمایا، پھر آپ نے پڑھا: "جب اس (قبیلے) کابدبخت ترین شخص اٹھا" (آپ نے فرمایا: قبیلہ ثمود کا) سب سے طاقتور، شر پھیلانے والا، جس کو ا پنی قوم کا پورا تحفظ حاصل تھا، جس طرح ابوزمعہ (اسود بن مطلب) ہے، (کونچیں کاٹنے کے لئے) اٹھا۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں عورتوں کا بھی ذکر کیا، (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو) ان کے بارے میں وعظ ونصیحت فرمائی، پھر فرمایا؛" کیا وجہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو (اس طرح) کوڑے سے مارتا ہے"ابو بکر کی روایت میں ہے: "جس طرح لونڈی کو مارتا ہے"اور ابو کریب کی روایت میں ہے؛"جس طرح غلام کو مارتا ہے۔پھر شاید دن کے آخر میں اسی کےساتھ ہم بستری کرے گا۔"پھران (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو گوز پر ہنسنے کے بارے میں نصیحت فرمائی: "تم میں سے کوئی کب تک اس کام پر ہنستا رہے گا جسے وہ خود کرتا ہے۔"
حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اور اس میں (حضرت صالح کی) اونٹنی کا ذکر کیا اور اس کی کونچیں کاٹنے والے کا تذکرہ کیا، چنانچہ فرمایا:"جب قوم کا سب سے بڑا بد بخت اٹھا، یعنی اس کے لیے وہ شخص اٹھا جو غالب سر کش و مفسد اور اپنے خاندان کی پناہ و حفاظت رکھنے والا اٹھا جیسے ابو زمعہ ہے۔" پھر آپ نے عورتوں کا ذکر کیا اور ان کو نصیحت فرمائی، پھر فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو کیوں مارتا ہے۔"ابو بکر کی روایت میں ہے۔"لونڈی کی مار۔"اور ابو کریب کی روایت میں ہے،"غلام کو مارنے کی طرح،شاید اس دن کے آخر میں، وہ اسے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت محسوس کرے۔"پھر انہیں آواز سے ہوا خارج کرنے پر ہنسنے کے سلسلہ میں نصیحت فرمائی،سوفرمایا:"تم میں سے کوئی شخص،اپنے فعل پر کیوں ہنستا ہے۔