علی بن حجر سعدی نے ہمیں حدیث بیان کی کہا: ہمیں عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر اور ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی (علی) ابن حجر نے کہا: ایک کی حدیث دوسرے کی حدیث میں شامل ہو گئی ہے۔انھوں نے عبد الرحمان بن یزید بن جابر سے اسی کی سندکے ساتھ جس طرح ہم نے ذکر کیااسی کے مطابق بیان کیا۔ اور اس جملے کے بعد "اس میں کبھی پانی تھا "مزید بیان کیا "پھر وہ (آگے) چلیں گے) یہاں تک کہ وہ جبل خمرتک پہنچیں گےاور وہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے تو جو کوئی بھی زمین میں تھا ہم نے اسے قتل کردیا آؤ!اب اسے قتل کریں جو آسمان میں ہے پھر وہ اپنے تیروں (جیسے ہتھیاروں) کو آسمان کی طرف چاہیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے ہتھیاروں کو خون آلود کرکے انھی کی طرف واپس بھیج دے گا۔اور ابن حجر کی روایت میں ہے "میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے) بندوں کو اتاراہے کسی ایک کے پاس بھی ان سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں۔"
امام ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث میں "کبھی یہاں پانی رہا ہے"کے بعد یہ اضافہ کرتے ہیں پھر یاجوج ماجوج کے لوگ چلتے چلتے جبل الخمر تک جو بیت المقدس میں ایک پہاڑ ہے پہنچ جائیں گے اور کہیں گے، ہم نے زمین والوں کو تو قتل کردیا ہے آؤ اب ہم آسمان کے باشندوں (باسیوں) کو قتل کریں چنانچہ وہ اپنے تیرآسمان کی طرف چلائیں گے، اللہ ان کے تیروں کو ان کی طرف خون آلود لوٹائے گا۔"اور اس حدیث میں یہ لفظ ہیں (میں نے اپنے بندے اتارے ہیں،)"اُخرَجتُ"کی جگہ "اَنزَلتُ"اور "لَايَدانِ"کی جگہ "لَا يكري" ہے معنی ایک ہی ہے۔