سفیان بن عیینہ نے کہا: میں نے سہیل سے کہا کہ عمرو نے ہمیں قعقاع کے واسطے سے آپ کے والد سے حدیث سنائی (سفیان نے کہا:) مجھے امید تھی کہ وہ (مجھے خود روایت سنا کر) ایک راوی کم کر دے گا (چنانچہ سہیل نےکہا) میں نے اسی سے یہ روایت سنی جس سے میرے والد سے سنی، وہ شام میں ان کا دوست تھا۔ (محمد بن عباد نے کہا) پھر سفیان نے ہمیں سہیل کے واسطے سے عطاء بن یزید کی حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سےروایت سنائی کہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” دین خیر خواہی کا نام ہے۔“ ہم (صحابہ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: کس کی (خیر خواہی؟) آپ نے فرمایا: ” اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانون کی (خیرخواہی۔)“
سفیانؒ کا کہنا ہے کہ میں نے سعیدؒ سے کہا عمروؒ نے ہمیں قعقاعؒ کے واسطہ سے آپ کے باپ سے حدیث سنائی ہے اور میری خواہش یہ تھی کہ وہ مجھے روایت سنائے، تاکہ ایک راوی کم ہو جائے تو سہیلؒ نے کہا: میں نے اپنے باپ کے شامی دوست، جس سے وہ روایت بیان کرتے ہیں، خود سنی ہے۔ (اب یہ روایت قعقاعؒ اور سہیلؒ کے باپ ابو صالحؒ کی بجائے سہیلؒ سے ہے اور سند عالی ہو گئی ہے) پھر سفیانؒ نے ہمیں سہیلؒ سے عطاء بن یزیدؒ کی تمیم داریؓ سے روایت سنائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین خیرخواہی کا نام ہے۔“ ہم نے پوچھا: کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی۔“