عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بلا کسی خوف اور بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (705) سنن الترمذی/ الصلاة 1 (187)، سنن النسائی/المواقیت 46 (603)، (تحفة الأشراف: 5474)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/354) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دو نماز کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہو گیا“ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہو سکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔
Narrated Ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ combined the noon and afternoon prayers, and the sunset and night prayers at Madina without any danger and rain. He was asked: What did he intend by it ? He replied: He intended that his community might not fall into hardship.
USC-MSA web (English) Reference: Book 4 , Number 1207
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1211
1211۔ اردو حاشیہ: جمہور علمائے حدیث کا اس سے استدلال یہ ہے کہ خوف، بارش اور مرض کے علاوہ اگر کبھی کوئی شخص کس معقول عذر اور وجہ سے نمازیں اکھٹی پڑھے تو جائز ہے، مگر عادت نہ بنائے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1211
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1633
´اقامت میں دو نمازوں کو جمع کرنا` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ . . .» ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیا (سعید بن جبیر کہتے ہیں:) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا: اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو. . .“[صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ:: 1633]
فوائد و مسائل: ➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے: «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .» ”میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔“[صحيح البخاري: 543، 1174، صحيح مسلم: 55/705] ◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں: «والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.» ”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24]
◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول «فى غير خوف ولا مطر» کی شرح میں فرماتے ہیں: «فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل» ”یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔“[ارواءالغليل: 3 40]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 187
´حضر (اقامت کی حالت) میں دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۲؎۔ ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کیا منشأ تھی؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشأ یہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 187]
اردو حاشہ: 1؎: ابو داود کی روایت میں ((فِيْ غَيْرِخَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ)) ہے، نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے، خوف، سفر اور مطر (بارش) تینوں کا ذکر ایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور ((مِنْ غَيْرِخَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ)) ہے۔
2؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائزہے، لیکن اسے عادت نہیں بنا لینی چاہئے۔
3؎: جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 187