جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 9 (2620)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 77 (1078)، مسند احمد (3/370، 389)، (تحفة الأشراف: 2746)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 35 (82) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز حد فاصل ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، نہیں ادا کرتا ہے تو کافر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے سوائے نماز کے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”نماز کا ترک کرنا کفر ہے“، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو نماز چھوڑ دے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تارک نماز مرتد ہے اگرچہ دین سے خارج نہیں ہوتا، اصحاب الرای کا مذہب ہے کہ اس کو قید کیا جائے تاوقتیکہ نماز پڑھنے لگے، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت تارک نماز کو کافر کہتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے نماز کا سخت اہتمام کرنا چاہئے، اور عام لوگوں میں اس عظیم عبادت، اور اسلامی رکن کی اہمیت کی تبلیغ کرنی چاہئے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4678
فوائد ومسائل: معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا حصہ ہے، علامہ خطابی ؒ نے لکھا ہے کہ نماز چھوڑنے کی تین صورتیں ہیں: 1: مطلقا نماز کا انکار کرنا، یعنی یہ سمجھنا کہ دین کا کوئی حصہ نہیں، یہ عقیدہ اجماعی طور پر صریح کفر ہے، بلکہ اس طرح سے دین میں ثابت کسی بھی چیز کا انکار کفر ہے۔
2: غفلت اور بھول سے نماز چھوڑ دینا، آدمی بہ اجماع امت کا فر نہیں۔ عمدًا نماز چھوڑے رہنا مگر انکار بھی نہ کرنا، ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کا ختلاف ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا یہ قول ہے کہ بلا ناغہ عمدًا تارک صلاۃ حتی کہ اس کا وقت نکل جائے، کافر ہے۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ ہم تارک صلاۃ کے سوا کسی کو کسی گناہ پر کافر نہیں کہتے۔ زیادہ سخت موقف امام مکحول اور امام شافعی کا ہے کہ تارک صلاۃ کو اسی طرح قتل کیا جائے جیسے کافر کو کیا جاتا ہے، لیکن اس سبب سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا۔ اس کے اہل اس کے وارث ہوں گے۔ امام شافعی ؒؒ کے کئی اصحاب نے کہا کہ اس کا جنازہ نہ پڑھاجائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ تارک صلاۃ کو قید کیا جائے اور جسمانی سزا دی جائے حتی کہ وہ نماز پڑھنےلگے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4678
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 465
´تارک نماز کا حکم۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان سوائے نماز چھوڑ دینے کے کوئی اور حد فاصل نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 465]
465 ۔ اردو حاشیہ: ➊”مسلمان اور کافر میں امتیاز نماز سے ہے۔“ کیونکہ ارکانِ اسلام میں سے یہی ایک ایسا رکن ہے جس سے مسلم کی پہچان ہو سکتی ہے۔ شہادتین کی ادائیگی تو کبھی کبھار ہوتی ہے، نیز وہ نظر آنے والی چیز نہیں۔ تصدیق دل سے ہوتی ہے۔ روزہ بھی مخفی چیز ہے۔ زکاۃ کی ادائیگی صرف امیر لوگوں پر سال میں ایک دفعہ ہوتی ہے اور وہ علانیہ بھی نہیں ہوتی۔ حج زندگی میں ایک بار ہے، وہ بھی صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے، لہٰذا نماز ہی ایک ایسا رکن ہے جو ہر غریب و امیر، مردوزن، بوڑھے، جوان، تندرست اور بیمار پر دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ اور یہ نظر آنے والی چیز ہے۔ علانیہ اذان و جماعت سے ادا ہوتی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر مسلمان کے لیے امتیاز کیا ہو سکتا ہے؟ ➋”جس نے اسے چھوڑ دیا، کفر کیا۔“ کیونکہ جو شخص کبھی بھی نماز نہیں پڑھتا اس نے مطلقاً نماز کو چھوڑ رکھا ہے۔ بظاہر کافر اور اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، یعنی دیکھنے میں کافروں جیسا ہے۔ ویسے بھی نماز کا ترک کافروں کا کام ہے۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا، البتہ اس میں چونکہ اسلام کے کام بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: شہادتین کا اقرار اور تصدیق وغیرہ، لہٰذا وہ صریح کافر تو نہیں مگر دائرۂ اسلام کے تحت کافر ہے۔ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے «کفر دون کفر» کہا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الإیمان، باب کفران العشیر وکفر دون کفر، رقم الباب: 21] یعنی بڑے کفر سے کم درجے کا کفر جس سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہو گا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے صریح کافر کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ ➌”صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔“ کیونکہ ترک صلاۃ سے مسلمان کا امتیاز ختم ہو گیا، لہٰذا اس کا تعلق کفر سے جڑ گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 465
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1078
´تارک نماز کے گناہ کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1078]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) نما ز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ جو ہر نبی کی شریعت میں فرض رہی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کو پہلی وحی کے موقع ہی پر حکم ہوا۔ ﴿إِنَّنِي أَنَا اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾(طهٰ: 14) ”یقیناً میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری عبادت کر اور میری یاد کےلئے نماز قائم کر“ حضرت عیسیٰ ؑ نے جب گہوارے میں کلام کیا۔ تو فرمایا: ﴿قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿30﴾ وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا﴾(مریم۔ 31، 30) ”(عیسیٰ ؑ نے) کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی ؑ بنایا ہے۔ اور مجھے برکت والا بنایا ہے جہاں بھی میں ہوں۔ اور مجھے زندگی بھر نماز اور زکواۃ پر پابند رہنے کا حکم دیا ہے۔“
(2) نماز کو یہ اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات کا محور عقیدہ توحید ہے۔ توحید تمام معبودان باطلہ سے ہٹا کر ایک اللہ کی طرف لے آتی ہے۔ جو شخص ایک اللہ کی عبادت بھی نہ کرنا چاہے اسے اللہ پر ایمان رکھنے والا کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔
(3) بے نماز کو اکثر علماء کرام نے کافر قرار دیا ہے۔ البتہ بعض علماء کرام سستی کی بنا پر نماز ترک کرنے والے کو کافر قرار نہیں دیتے۔ تاہم انکار کرنے والا ان کے نزدیک بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1078
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2618
´نماز چھوڑ دینے پر وارد وعید کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2618]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفر اور بندے کے مابین حد فاصل نماز ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، بصورت دیگر کافرہے، صحابہ کرام کسی نیک عمل کو چھوڑ دینے کو کفر نہیں خیال کرتے تھے، سوائے نماز کے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں کی اکثریت پنج وقتہ نماز کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی اسے پورے طورپر چھوڑنے والی بلکہ کبھی پڑھ لیتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے، یہ ایسے لوگ ہیں جن میں ایمان و نفاق دونوں موجود ہیں، ان پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہوں گے، کیوں کہ عبداللہ بن ابی جیسے خالص منافق پرجب یہ احکام جاری تھے تو نماز سے غفلت اورسستی برتنے والوں پر تو بدرجہ اولیٰ جاری ہوں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2618
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 247
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی کو شرک وکفر سے جوڑنے والی چیز نماز چھوڑنا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:247]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے اسلام کے اندر نماز کا مقام ومرتبہ اوراہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس حدیث کی بنا پر امام احمدؒ، عبداللہ بن مبارکؒ اور ابن راہویہؒ وغیرہم ائمہ ترکِ نماز کو کفر قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی انسان نماز کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے نماز چھوڑتا ہے تو وہ بالاتفاق کافر ہے اور اسلام سےخارج ہے، لیکن فرض تسلیم کرتے ہوئے سستی وکاہلی اور بدعملی کی بنا پر اگر نماز چھوڑ دیتا ہے، تو پھر امام مالکؒ، امام شافعیؒ اورجمہور سلف وخلفؒ کی اکثریت کے نزدیک وہ فاسق ہوگا، اور اس سے توبہ کرائی جائے گی، اگر وہ توبہ کرکے نماز پڑھنے کا عہد کرے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا، وگرنہ حکومت اسے (حداً) قتل کر دے گی، اور امام احمدؒ کے نزدیک مرتد ہوگا۔ اس لیے ارتداد کی بنا پر قتل کیا جائےگا۔ امام ابوحنیفہؒ اور بعض اہل کوفہ کے نزدیک اسے جیل میں ڈالاجائے گا اور جب تک توبہ کرکے نماز پڑھنے کا عہد نہیں کرے گا اسے قید سے نہیں نکالا جائے گا۔ مولونا شبیر احمد عثمانیؒ کے بقول احناف کے نزدیک اس کو قید کیا جائے گا اور سخت مارا جائے گا، یہاں تک کہ بدن سے خون نکلنے لگے اس کو بھوکا پیاسا رکھاجائے گا اور ہر قسم کی سزائیں اور تکلیفیں دی جائیں گی، یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے۔ (فضل الباری: 1/388) ائمہ دین کی اس صراحت کے باوجود امت مسلمہ کا نمازکے بارے میں جو رویہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 1/61)