(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير , وابو معاوية , عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " بين الكفر والإيمان ترك الصلاة " , حدثنا هناد، حدثنا اسباط بن محمد، عن الاعمش، بهذا الإسناد نحوه , وقال: " بين العبد وبين الشرك او الكفر ترك الصلاة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ " , حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ , وَقَالَ: " بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ أَوِ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ".
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفر اور بندے کے مابین حد فاصل نماز ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، بصورت دیگر کافر ہے، صحابہ کرام کسی نیک عمل کو چھوڑ دینے کو کفر نہیں خیال کرتے تھے، سوائے نماز کے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں کی اکثریت پنج وقتہ نماز کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی اسے پورے طور پر چھوڑنے والی بلکہ کبھی پڑھ لیتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے، یہ ایسے لوگ ہیں جن میں ایمان و نفاق دونوں موجود ہیں، ان پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہوں گے، کیونکہ عبداللہ بن ابی جیسے خالص منافق پر جب یہ احکام جاری تھے تو نماز سے غفلت اور سستی برتنے والوں پر تو بدرجہ اولیٰ جاری ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 35 (82)، سنن ابی داود/ السنة 15 (4678)، سنن النسائی/الصلاة 8 (465)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 77 (1078) (تحفة الأشراف: 2303)، و مسند احمد (3/370) (صحیح)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2618
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفر اور بندے کے مابین حد فاصل نماز ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، بصورت دیگر کافرہے، صحابہ کرام کسی نیک عمل کو چھوڑ دینے کو کفر نہیں خیال کرتے تھے، سوائے نماز کے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں کی اکثریت پنج وقتہ نماز کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی اسے پورے طورپر چھوڑنے والی بلکہ کبھی پڑھ لیتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے، یہ ایسے لوگ ہیں جن میں ایمان و نفاق دونوں موجود ہیں، ان پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہوں گے، کیوں کہ عبداللہ بن ابی جیسے خالص منافق پرجب یہ احکام جاری تھے تو نماز سے غفلت اورسستی برتنے والوں پر تو بدرجہ اولیٰ جاری ہوں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2618
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 465
´تارک نماز کا حکم۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان سوائے نماز چھوڑ دینے کے کوئی اور حد فاصل نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 465]
465 ۔ اردو حاشیہ: ➊”مسلمان اور کافر میں امتیاز نماز سے ہے۔“ کیونکہ ارکانِ اسلام میں سے یہی ایک ایسا رکن ہے جس سے مسلم کی پہچان ہو سکتی ہے۔ شہادتین کی ادائیگی تو کبھی کبھار ہوتی ہے، نیز وہ نظر آنے والی چیز نہیں۔ تصدیق دل سے ہوتی ہے۔ روزہ بھی مخفی چیز ہے۔ زکاۃ کی ادائیگی صرف امیر لوگوں پر سال میں ایک دفعہ ہوتی ہے اور وہ علانیہ بھی نہیں ہوتی۔ حج زندگی میں ایک بار ہے، وہ بھی صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے، لہٰذا نماز ہی ایک ایسا رکن ہے جو ہر غریب و امیر، مردوزن، بوڑھے، جوان، تندرست اور بیمار پر دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ اور یہ نظر آنے والی چیز ہے۔ علانیہ اذان و جماعت سے ادا ہوتی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر مسلمان کے لیے امتیاز کیا ہو سکتا ہے؟ ➋”جس نے اسے چھوڑ دیا، کفر کیا۔“ کیونکہ جو شخص کبھی بھی نماز نہیں پڑھتا اس نے مطلقاً نماز کو چھوڑ رکھا ہے۔ بظاہر کافر اور اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، یعنی دیکھنے میں کافروں جیسا ہے۔ ویسے بھی نماز کا ترک کافروں کا کام ہے۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا، البتہ اس میں چونکہ اسلام کے کام بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: شہادتین کا اقرار اور تصدیق وغیرہ، لہٰذا وہ صریح کافر تو نہیں مگر دائرۂ اسلام کے تحت کافر ہے۔ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے «کفر دون کفر» کہا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الإیمان، باب کفران العشیر وکفر دون کفر، رقم الباب: 21] یعنی بڑے کفر سے کم درجے کا کفر جس سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہو گا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے صریح کافر کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ ➌”صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔“ کیونکہ ترک صلاۃ سے مسلمان کا امتیاز ختم ہو گیا، لہٰذا اس کا تعلق کفر سے جڑ گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 465
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4678
´ارجاء کی تردید کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4678]
فوائد ومسائل: معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا حصہ ہے، علامہ خطابی ؒ نے لکھا ہے کہ نماز چھوڑنے کی تین صورتیں ہیں: 1: مطلقا نماز کا انکار کرنا، یعنی یہ سمجھنا کہ دین کا کوئی حصہ نہیں، یہ عقیدہ اجماعی طور پر صریح کفر ہے، بلکہ اس طرح سے دین میں ثابت کسی بھی چیز کا انکار کفر ہے۔
2: غفلت اور بھول سے نماز چھوڑ دینا، آدمی بہ اجماع امت کا فر نہیں۔ عمدًا نماز چھوڑے رہنا مگر انکار بھی نہ کرنا، ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کا ختلاف ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا یہ قول ہے کہ بلا ناغہ عمدًا تارک صلاۃ حتی کہ اس کا وقت نکل جائے، کافر ہے۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ ہم تارک صلاۃ کے سوا کسی کو کسی گناہ پر کافر نہیں کہتے۔ زیادہ سخت موقف امام مکحول اور امام شافعی کا ہے کہ تارک صلاۃ کو اسی طرح قتل کیا جائے جیسے کافر کو کیا جاتا ہے، لیکن اس سبب سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا۔ اس کے اہل اس کے وارث ہوں گے۔ امام شافعی ؒؒ کے کئی اصحاب نے کہا کہ اس کا جنازہ نہ پڑھاجائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ تارک صلاۃ کو قید کیا جائے اور جسمانی سزا دی جائے حتی کہ وہ نماز پڑھنےلگے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4678
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1078
´تارک نماز کے گناہ کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1078]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) نما ز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ جو ہر نبی کی شریعت میں فرض رہی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کو پہلی وحی کے موقع ہی پر حکم ہوا۔ ﴿إِنَّنِي أَنَا اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾(طهٰ: 14) ”یقیناً میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری عبادت کر اور میری یاد کےلئے نماز قائم کر“ حضرت عیسیٰ ؑ نے جب گہوارے میں کلام کیا۔ تو فرمایا: ﴿قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿30﴾ وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا﴾(مریم۔ 31، 30) ”(عیسیٰ ؑ نے) کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی ؑ بنایا ہے۔ اور مجھے برکت والا بنایا ہے جہاں بھی میں ہوں۔ اور مجھے زندگی بھر نماز اور زکواۃ پر پابند رہنے کا حکم دیا ہے۔“
(2) نماز کو یہ اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات کا محور عقیدہ توحید ہے۔ توحید تمام معبودان باطلہ سے ہٹا کر ایک اللہ کی طرف لے آتی ہے۔ جو شخص ایک اللہ کی عبادت بھی نہ کرنا چاہے اسے اللہ پر ایمان رکھنے والا کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔
(3) بے نماز کو اکثر علماء کرام نے کافر قرار دیا ہے۔ البتہ بعض علماء کرام سستی کی بنا پر نماز ترک کرنے والے کو کافر قرار نہیں دیتے۔ تاہم انکار کرنے والا ان کے نزدیک بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1078
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 247
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی کو شرک وکفر سے جوڑنے والی چیز نماز چھوڑنا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:247]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے اسلام کے اندر نماز کا مقام ومرتبہ اوراہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس حدیث کی بنا پر امام احمدؒ، عبداللہ بن مبارکؒ اور ابن راہویہؒ وغیرہم ائمہ ترکِ نماز کو کفر قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی انسان نماز کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے نماز چھوڑتا ہے تو وہ بالاتفاق کافر ہے اور اسلام سےخارج ہے، لیکن فرض تسلیم کرتے ہوئے سستی وکاہلی اور بدعملی کی بنا پر اگر نماز چھوڑ دیتا ہے، تو پھر امام مالکؒ، امام شافعیؒ اورجمہور سلف وخلفؒ کی اکثریت کے نزدیک وہ فاسق ہوگا، اور اس سے توبہ کرائی جائے گی، اگر وہ توبہ کرکے نماز پڑھنے کا عہد کرے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا، وگرنہ حکومت اسے (حداً) قتل کر دے گی، اور امام احمدؒ کے نزدیک مرتد ہوگا۔ اس لیے ارتداد کی بنا پر قتل کیا جائےگا۔ امام ابوحنیفہؒ اور بعض اہل کوفہ کے نزدیک اسے جیل میں ڈالاجائے گا اور جب تک توبہ کرکے نماز پڑھنے کا عہد نہیں کرے گا اسے قید سے نہیں نکالا جائے گا۔ مولونا شبیر احمد عثمانیؒ کے بقول احناف کے نزدیک اس کو قید کیا جائے گا اور سخت مارا جائے گا، یہاں تک کہ بدن سے خون نکلنے لگے اس کو بھوکا پیاسا رکھاجائے گا اور ہر قسم کی سزائیں اور تکلیفیں دی جائیں گی، یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے۔ (فضل الباری: 1/388) ائمہ دین کی اس صراحت کے باوجود امت مسلمہ کا نمازکے بارے میں جو رویہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 1/61)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 247
حافظ عمران ایوب لاہوری حفظ اللہ، فوائد و مسال، سنن ابی داود 4678
تارک نماز کا شرعی حکم
نماز ارکان اسلام میں بلا تردو عظیم درجے کی حامل ہے مزید برآں اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیشتر احادیث میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بھی منقول ہے۔ اس کی اس اہمیت وفضیلت کے باعث اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کم و بیش اسی (80) مرتبہ اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وجوب نماز کا انکار کرتے ہوئے اسے چھوڑنے والا بالا تفاق کافر ہے جبکہ اس کے وجوب کے اعتقاد کے ساتھ ستی و کاہلی سے چھوڑنے والے کے شرعی حکم میں فقہائے امت کا اختلاف ہے لیکن راجح موقف یہی ہے کہ صرف جان بوجھ کر دائمی طور پر نماز چھوڑ دینے والا ہی کا فر ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ مشرکین کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ «فَاِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ»[التوبة: 11]”اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز قائم کر لیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔“ اس آیت سے از خود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو تمہارے دینی بھائی نہیں ہیں اور یہاں یہ بات بھی یا ور ہے کہ دینی بھائی چارہ صرف اسلام سے خارج ہونے سے ہی ختم ہوتا ہے۔
➋ «وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ»[الروم: 31]”نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔“ اس آیت کا یقیناً مفہوم یہی ہے کہ جو نماز چھوڑ دیتا ہے وہ مشرکوں میں سے ہے۔
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «وبين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة» ”کفر و شرک اور (مسلمان) بندے کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے۔“ [مسلم: 82، كتاب الإيمان: باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة أحمد 370/3، دارمي 280/1، أبو داود 4678، ترمذي 2618، ابن ماحة 1078، الحلية لأبي نعيم 256/8، بيهقي 366/3]
➍ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا «وبين العبد وبيـن الـكـفـر والإيمان الصلاة فإذا
تركها فقد أشرك»”بندے اور کفر و ایمان کے درمیان (فرق کرنے والی) نماز ہے پس جب اس نے اسے ترک کر دیا تو اس نے شرک کیا۔“ [صحيح: شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي 822/4، اس كي سند صحيح مسلم كي شرط پر صحيح هے نيز امام منذريؒ نے بهي اسے حيح كها هے۔ الترغيب والترهيب 379/1]
➎ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ کی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا «العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر»”ہمارے اور کافروں کے درمیان عہد نماز ہے جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا۔“ [صحيح: صحيح ابن ماجة 884، المشكاة 574، ترمذى 2621، كتاب الإيمان: باب ما جاء فى ترك الصلاة، أحمد 346/5، نسائي 231/1، ابن ماجه 1079، حاكم 6/1 ابن أبى شيبة 34/11، دار قطني 52/2، بيهقى 366/3]
➏ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الذمة»”تم فرض نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑو پس جس شخص نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی تو اس سے امن و امان کا ذمہ ختم ہو گیا۔“ [حسن: المشكاة 580، ابن ماجة 4034، كتاب الفتن: باب الصبر على البلاء]
➐ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «مـن حـافـظ عليهـا كـانت لـه نورا و برهانا ونجاة يوم القيمة ومن لم يحافظ عليها لم تكن له نورا ولا برهانا ولا نجاة وكان يوم القيمة مع قارون و فرعون وهامان وأبي بن خلف»”جس شخص نے نماز کی حفاظت کی، نماز اس کے لیے روشنی، دلیل اور قیامت کے دن نجات کا باعث ہوگی اور جس شخص نے نماز کی حفاظت نہ کی تو نماز اس کے لیے روشنی، دلیل اور نجات کا باعث نہیں ہوگی بلکہ وہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔“ [جيد: احمد 169/2، دارمي 301/2، مجمع البحرين 528، موارد 254، مشكل الآثار 229/4، شيخ الباني رقمطراز هيں كه امام منذري نے اس حديث كي سند كو صحيح كها هے۔ المشكاة 578]
➑ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «وكان أصحاب رسول الله لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة»”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز کے علاوہ اعمال میں سے کسی چیز کو چھوڑنا بھی کفر نہیں سمجھتے تھے۔“ [صحيح: المشكاة 579، ترمذي 2622، كتاب الإيمان: باب ما جاء فى ترك الصلاة، حاكم 7/1]
➒ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ «لا حظ فى الإسلام لمن ترك الصلاة»”نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔“ [مؤطا 74، كتاب الطهارة: باب العمل فيمن غلبه الدم من جرح أو رعاف] (جمہور، مالکؒ، شافعیؒ) وجوب کا اعتقاد رکھتے ہوئے محض تساہل و تکاسل کے باعث اگر نماز چھوڑ دے تو وہ کافر نہیں ہوگا بلکہ فاسق ہو جائے گا، اگر وہ تو بہ کرے تو ٹھیک ورنہ شادی شدہ زانی کی طرح اسے بطور حد قتل کر دیا جائے گا نیز اسے تلوار کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ (احناف) ایسا شخص نہ کافر ہوگا اور نہ ہی اسے قتل کیا جائے گا بلکہ تعزیرا اسے کچھ سزادی جائے گی اور اس وقت تک قید کر دیا جائے گا جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھنے لگے۔ (احمدؒ) بے نماز کو اس کے کفر کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا۔ [الأم 424/1، الحاوى 525/2، روضة الطالبين 668/1، الأصل 400/1، الخرشي على مختصر سيدي خليل 138/2، المغنى 351/3، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف 401/1، القوانين الفقهية ص/ 42، بداية المجتهد 87/1، الشرح الصغير 238/1، معنى المحتاج 327/1، المهذب 51/1، كشاف القناع 263/1، الدر المختار 326/1، مغنى المحتاج 327/1 المهذب 51/1، كشاف القناع 263/1، الدر المختار 326/1، مراقي الفلاح ص: 60] (راجح) جان بوجھ کر دائمی طور پر نماز چھوڑ دینے والا کافر ہے اور اگر استطاعت ہو تو اسے قتل کیا جائے گا جیسا کہ دلائل
حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «امرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكوة»”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔“ [بخاري: 25، كتاب الإيمان: باب فان تابوا وأقاموا الصلاة وأتوا الزكوة ......، مسلم 22، دار قطني 232/1، بيهقي 92/3، ابن حبان 174، حاكم 387/1، دارقطني 231/1، شرح معاني الآثار 213/3، أحمد 345/2، ابن ماجة 3927]
➋ اسی حدیث کے پیش نظر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ کے خلاف قتال کیا۔ [نسائي 76_7، أبو يعلى 68، ابن خزيمة 2447، حاكم 368/1، مجمع الزوائد 30/1] (شوکانیؒ) حق بات یہی ہے کہ ایسا شخص کافر ہے اور قتل کا مستحق ہے۔ [نيل الأوطار 424/1] (نوویؒ) اگر کوئی شخص نماز چھوڑ دے اس کے اور کفر کے درمیان کوئی حائل باقی نہیں رہ جاتا۔ [شرح مسلم للنووى 178/4] (شنقیطیؒ) بے نماز کافر ہے۔ [أضواء البيان 311/4] (عبد الرحمن مبارکپوریؒ) ایسے لوگ اور کافر برابر ہیں۔ [تحفة الأحوذي 407/7] (ابن تیمیہؒ) جو شخص نماز چھوڑ دے پھر اس چھوڑنے پر مصر و قائم رہے اور پھر ایسی حالت میں ہی فوت ہو جائے تو وہ کافر فوت ہوا ہے۔ [الصارم المسلول 554، مجموع الفتاوي 97/20] (ابن قیمؒ) انہوں نے ایسے لوگوں پر اظہار تعجب کیا ہے کہ جو وجوب نماز کا اعتقاد رکھنے کے باوجود اسے چھوڑنے والوں کو کافر نہیں سمجھتے۔ [كتاب الصلاة ص 62] (شیخ عثیمینؒ) بے نماز کافر ہے۔ [رسالة: حكم تارك الصلاة] (شیخ ابن جبرینؒ) جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس پر کفر کا ہی حکم لگا یا جائے گا۔ [الفتاوى الإسلامية 296/1] (سعودی مجلس افتاء) جو شخص سستی وکوتا ہی سے (عمداََ بلا عذر) نماز چھوڑ دیتا ہے علماء کے اقوال میں سے صحیح یہی ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔ [الفتاوى الإسلامية 311/1-312] . . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . . فقہ الحدیث از عمران ایوب لاہوری، جلد اول، ص 296