فقہ الحدیث: اس حدیث کو:
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے
”حسن
“ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے
”صحیح
“ قرار دیا ہے۔
◈ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے
”امام مسلم کی شرط پر صحیح
“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو
”جید
“ کہا ہے۔
[تنقيح التحقيق فى احاديث التعليق:183/4، اضواء السلف، الرياض، 2007ء] اس حدیث سے اذان اور دیگر دینی امور پر اجرت کی حرمت قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایسا مؤذن مقرر کیجیے، جو اذان پر اجرت نہ لے، واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ اذان پر اجرت لینے والے لوگ اس دور میں موجود تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کوئی وعید نہیں سنائی۔ اگر اذان پر اجرت ناجائز و حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حوالے سے صریح ہدایت فرماتے، کیوں کہ حرام کی قباحت و شناعت اتنی ہے کہ اس حوالے سے مبہم بات نہیں کی جا سکتی۔ یوں اس حدیث سے اذان کی اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
یہ ہماری اپنی بنائی ہوئی بات نہیں، بلکہ اسلاف امت اس حدیث سے یہی استدلال کرتے تھے، جیسا کہ:
◈ علامہ، ابوجعفر، احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فقال قائل: فى هذا الحديث ما يدل على جواز اخذ الاجر على الاذان» ”ایک کہنے والے نے کہا: اس حدیث کے الفاظ اذان کی اجرت لینے کے جواز پر دلیل ہیں۔
“ [شرح مشكل الآثار:263/15، مؤسسة الرسالة، بيروت،1994ء] پھر موصوف نے فقہ حنفی کا دفاع کرتے ہوئے اس کے جواب میں دور کی کوڑی لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ بہرحال یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ اسلاف اسی حدیث سے اذان کی اجرت کے جواز پر استدلال کرتے رہے ہیں۔
اکثر اہل علم نے اس حدیث کو کراہت پر محول کیا ہے اور اجرت نہ لینے کو بہتر قرار دیا ہے، لینے کو حرام نہیں کہا، جیسا کہ:
◈ محدث شہیر، امام، ابوعیسٰی، محمد بن عیسیٰ، ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا ان ياخذ المؤذن على الاذان اجرا واستحبوا للمؤذن ان يحتسب فى اذانه» ”اس حدیث پر اہل علم کے ہاں عمل کیا جاتا ہے۔ اہل علم یہ ناپسند کرتے ہیں کہ موذّن اذان پر اجرت لے۔ وہ موذّن کے لیے یہ مستحب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اذان میں صرف نیکی کا ارادہ رکھے۔
“ [سنن الترمذي، ابواب الصلاة، باب ماجاء فى كراهية ان ياخذ الموذن على الاذان اجرا] ◈ حافظ، ابومحمد، حسین بن مسعود، بغوی رحمہ اللہ
(م:516ھ) فرماتے ہیں:
«والاختيار عند عامة أهل العلم أن يحتسب بالأذان، وكرهوا أن يأخذ عليه أجرا» ”اکثر اہل علم کے نزدیک بہتر یہی ہے کہ مؤذن، اذان سے صرف نیکی کا ارادہ رکھے۔ وہ اذان پر اجرت لینا ناپسند کرتے ہیں۔
“ [شرح السنّة:280/2، المكتب الاسلامي، بيروت، 1983ء] ◈ علامہ، عبداللہ بن احمد، ابن قدامہ، مقدسی رحمہ اللہ
(541۔620ھ) اذان پر اجرت کے ناپسندیدہ ہونے کے حوالے سے بعض اہل علم کے اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«لأنه عمل معلوم، يجوز أخذ الرزق عليه، فجاز أخذ الأجرة عليه، كسائر الأعمال، ولا نعلم خلافا فى جواز أخذ الرزق عليه» ”چونکہ یہ معلوم عمل ہے، لہذا اس پر اجرت لینا جائز ہے، جیسے دیگر تمام اعمال پر اجرت جائز ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اذان پر اجرت کے جائز ہونے میں کسی نے کوئی اختلاف کیا ہو۔
“ [المغني:301/1، مكتبة القاهرة،1968ء] ◈ علامہ، ابوبکر، محمد بن عبداللہ، ابن العربی رحمہ اللہ
(468۔543ھ) سے نقل کرتے ہوئے علامہ محمد عبدالرحمٰن محدث، مبارک پوری رحمہ اللہ
(م:1353ھ) لکھتے ہیں:
«الصحيح جواز أخذ الأجرة على الأذان، والصلاة، والقضاء وجميع الأعمال الدينية» ”اذان، نماز، قضا سمیت دینی امور پر اجرت کا جائز ہونا ہی صحیح
(راجح) ہے۔
“ [تحفة الأحوذي:528/1، دارالكتب العلمية، بيروت] ◈ معروف شارح حدیث، علامہ حسین بن محمد، طیبی رحمہ اللہ
(م:743ھ) فرماتے ہیں:
«قيل تمسك به من منع الاستئجار على الأذان، ولا دليل فيه، لجواز أنه صلى الله عليه وسلم أمره بذلك أخذا بالأفضل» ”ایک قول کے مطابق اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے، جو اذان پر اجرت کو ممنوع قرار دیتے ہیں، لیکن اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ عین ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف افضیلت کو اختیار کرتے ہوئے دیا ہو۔
“ [شرح الطيبي على مشكاة المصابيح، المعروف ب الكاشف عن حقائق السنن: 918/3، مكتبة نزار مصطفيٰ الباز، الرياض، 1997ء] ◈ نیز فرماتے ہیں:
«وأن يستحب للإمام التخفيف فى الصلاة، واستحباب الأذان بغير أجرة» ”امام کے لیے نماز میں تخفیف کرنا مستحب ہے، نیز اذان کو بغیر اجرت کے کہنا بھی مستحب ہے
“ [ايضاً] ◈ علامہ محمد بن اسماعیل، امیر صنعانی رحمہ اللہ
(1099۔1182ھ) لکھتے ہیں:
«ولا يخفي أنه لا يدل على التحريم» ”بہت واضح ہے کہ اس حدیث سے اذان کی اجرت کا حرام ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
“ [سبل السلام فى شرح بلوغ المرام:117/2، دارالحديث] ◈ علامہ، ابوالحسن، عبیداللہ بن محمد، مبارک پوری رحمہ اللہ
(1327۔1414ھ) فرماتے ہیں:
«واستدال بعضهم على التحريم بهذا الحديث، ولا يخفي أنه لا يدل على التحريم» بعض لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اذان کی اجرت حرام ہے، لیکن یہ بات مخفی نہیں کہ یہ حدیث اذان کی اجرت کے حرام ہونے پر دلالت نہیں کرتی
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 375/2، الجامعة السلفيّة، بنارس، 1984ء] ↰ یعنی اکثر علماے امت کا اس حدیث کو حرمت کی بجائے کراہت پر محمول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اذان پر لی جانے والی اجرت حرام نہیں، بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ کراہت ہے اور محض کراہت جواز ہی کی دلیل ہوتی ہے، جیسا کہ:
● سینگی لگانے کی اجرت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وكسب الحجام خبيث» ”سینگی لگانے والے شخص کی کمائی خبیث
(مکروہ) ہے۔
“ [صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، رقم الحديث:1568] ● لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگی کی اجرت دینا بھی ثابت ہے۔
حميد تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«سئل انس بن مالك عن كسب الحجام، فقال: احتجم رسول الله صلي الله عليه وسلم، حجمه ابوطيبة، فامر له بصاعين من طعام، وكلم اهله، فوضعوا عنه من خراجه، وقال: ان افضل ما تداويتم به الحجامة» ”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سینگی لگانے والے شخص کی کمائی کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی۔ آپ کو ایک غلام ابوطیبہ نے سینگی لگائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو صاع غلہ دینے کا حکم فرمایا، نیز اس کے مالکوں سے بات کی تو انہوں نے اس کے خراج
(طلب کی جانے والی کمائی) میں کمی کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ تم علاج کے جتنے بھی طریقے اختیار کرتے ہو، ان میں سب سے بہترین سینگی لگانا ہے۔
“ [صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب حل أجرة الحجامة، رقم الحديث:1577] جب ایک اجرت خبیث کہے جانے کے باوجود دوسرے دلائل کی بنا پر جائز ہو سکتی ہے تو جسے خبیث بھی نہیں کہا گیا، وہ دوسرے دلائل سے کیوں جائز نہیں ہوتی؟
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح سینگی لگانے کی اجرت کے خبیث ہونے سے مراد ناجائز و حرام نہیں، بلکہ جائز مع الکراہت ہے، اسی طرح اذان کی اجرت نہ لینے والے مؤذّن کی تقرری سے مراد بھی جائز مع الکراہت ہی ہے، بلکہ اس کی کراہت سینگی کی اجرت سے کم بھی ہے، کیونکہ اس پر کوئی حکم نہیں لگایا گیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ایک روایت یحیٰی بکا بیان کرتا ہے:
«حدثنا أبو بكر قال نا وكيع عن عمارة بن زاذان عن يحيى البكاء قال كنت آخذا بيد ابن عمر، وهو يطوف بالكعبة فلقيه رجل من مؤذني الكعبة فقال إني لاحبك فى الله فقال ابن عمر وإني لابغضك فى الله إنك تحسن صوتك لاخذ الدراهم .»
”میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ آپ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ کعبہ کا ایک مؤذّن آپ کو ملا۔ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: میں تو اللہ کے لیے تم سے نفرت کرتا ہوں، کیوں کہ تم درہم لینے کی خاطر اپنی آواز کو خوب صورت بناتے ہو۔“ [الصلاة لأبي نعيم الفضل بن دكين، باب أخذ الأجرة على الأذان، ص:162۔ مكتبة الغرباء الأثرية، المدينة المنورة،1996ء، الكتاب المصنف فى الأحاديث والآثار لابن أبى شيبة:207/1، مكتبة الرشد، الرياض، 1409ه، واللفظ له]
تبصره: یاد رہے کہ امام ابو نعیم کی نقل کردہ روایت کے مطابق یحییٰ بکا نے بتایا ہے کہ وہ سعید بن جبیر کا ہاتھ تھامے ہوئے طواف کر رہا تھا!
یحییٰ بن مسلم، بکا نامی راوی
”ضعیف
“ ہے۔
[الكاشف للذهبي:376/2، دار القبلة للثقافة الاسلاميّة، جدّه، 1992ء، تقريب التهذيب لابن حجر، ص:597، دارالرشيد، سوريا، 1986ء]