مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2154
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) ذخیرہ اندوزی کا مطلب یہ ہے کہ جب عوام کو کسی چیز کی زیادہ ضرورت ہو، تاجر اس وقت اپنا مال روک لے تا کہ قیمت اور بڑھ جائے۔ اس میں لالچ اور خود غرضی پائی جاتی ہے۔ ایسے شخص کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام مصیبت میں مبتلا ہوں تا کہ وہ دولت جمع کرسکے۔ اس قسم کی خواہشات ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔
(2) ذخیرہ اندوزی شرعاً ممنوع ہے، اور ممنوع کام کے ارتکاب سے روزی میں حرام شامل ہوجاتا ہے۔
(3) گناہ گار کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ ایسا غلط کام وہی کرسکتا ہے جو گناہوں کا عادی ہوچکا ہو۔ جس سے کبھی کبھار کوئی گناہ کا کام ہوجاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔
(4) اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مناسب مقدار میں چیز خرید رکھ لینا ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں، مثلاً: اگر کوی شخص اپنے گھر میں استعمال کے لیے سال بھی کی ضروریات کے مطابق فصل کے موسم میں غلہ خرید لیتا ہے تو وہ مجرم نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2154
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3447
´ذخیرہ اندوزی منع ہے۔` بنو عدی بن کعب کے ایک فرد معمر بن ابی معمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھاؤ بڑھانے کے لیے احتکار (ذخیرہ اندوزی) وہی کرتا ہے جو خطاکار ہو۔“ محمد بن عمرو کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے کہا: آپ تو احتکار کرتے ہیں، انہوں نے کہا: معمر بھی احتکار کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا: حکرہ کیا ہے؟ (یعنی احتکار کا اطلاق کس چیز پر ہو گا) انہوں نے کہا: جس پر لوگوں کی زندگی موقوف ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اوزاعی کہتے ہیں: احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا وہ ہے جو بازار کے آڑے آئے یعنی اس کے لیے رکاوٹ بنے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3447]
فوائد ومسائل: ایسی تمام چیزیں جن پر انسانوں یا ان کے جانوروں کی گزران ہو اور وہ کسی کے پاس فروخت کےلئے رکھی ہوں۔ اور بازار میں ان کی قلت ہوجائے۔ پھر انہیں اس غرض سے روکے رکھے کہ مذید مہنگی ہوں گی۔ تو فروخت کروں گا۔ ذخیرہ اندوزی ہے۔ جس کی حرمت آئی ہے۔ اگر بازار میں وہ چیز حسب طلب موجود ہو یا کسی نے اپنی ضرورت کےلئے رکھی ہو تو اسے روکنا ممنوع ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ قلت اور قحط کے ایام میں روکنا حرام ہے۔ جناب سعید بن مسیب۔ اور حضرت معمر کا عمل بھی اسی دوسری صورت کے مطابق تھا۔ بعض آئمہ کرام بنیادی غذائوں کےعلاوہ پھلوں اور دوسری چیزوں کو روک رکھنا مباح سمجھتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3447
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1267
´ذخیرہ اندوزی کا بیان۔` معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتا ہے“۱؎۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیب سے کہا: ابو محمد! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1267]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: احتکار: ذخیرہ اندوزی کوکہتے ہیں، یہ اس وقت منع ہے جب لوگوں کو غلّے کی ضرورت ہو تو مزید مہنگائی کے انتظارمیں اسے بازار میں نہ لایا جائے، اگربازار میں غلّہ دستیاب ہے تو ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔ کھانے کے سوا دیگرغیرضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1267
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4122
حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ذخیرہ اندوزی کی ہے، وہ قصوروار ہے۔“ تو اس حدیث کے راوی حضرت سعید سے پوچھا گیا، آپﷺ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ سعید نے جواب دیا، یہ حدیث بیان کرنے والے حضرت معمر رضی اللہ تعالی عنہ خود ذخیرہ کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4122]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: احتكار، حَكَر سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے جمع کرنا، روک لینا، اس لیے حكره کا معنی ہوتا ہے، مہنگا بیچنے کے لیے روک لینا، یا جمع کرنا۔ فوائد ومسائل: ائمہ اربعہ کے نزدیک، غذائی اشیاء کو ذخیرہ کرنا، تاکہ ان کو مہنگا بیچا جا سکے، ناجائز ہے، اور غذائی اشیاء کے سوا، دوسری اشیاء کا ذخیرہ کرنا، ناجائز نہیں ہے، اور حضرت معمر اور سعید، زیتون کے تیل کا ذخیرہ کرتے تھے، امام ابن قدامہ حنبلی نے ناجائز احتکار کے لیے تین شروط بیان کی ہیں۔ (1) چیز بازار سے خرید کر ذخیرہ کرے، اپنے کھیت کی چیز کا سٹاک کر لینا ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ (2) ایسی چیز ذخیرہ کی جائے، جو غذا کے کام آتی ہو، اس لیے، سالن، شہد، حلوا، زیتون کا تیل اور جانوروں کا چارہ اس میں داخل نہیں ہے۔ (3) چیز پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا جائے، وہ بازار سے دستیاب نہ ہو، اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو، اگر چیز بازار میں دستیاب ہو تو یہ احتکار نہیں ہے۔