حدثنا عبد الله بن الجراح ، حدثنا جرير ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: خطبنا عمر بن الخطاب بالجابية، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فينا مثل مقامي فيكم فقال:" احفظوني في اصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى يشهد الرجل وما يستشهد ويحلف وما يستحلف". حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا مِثْلَ مُقَامِي فِيكُمْ فَقَالَ:" احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ وَيَحْلِفَ وَمَا يُسْتَحْلَفُ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا، اس خطبہ میں انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ کھڑے ہوئے جیسے میں تمہارے بیچ کھڑا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ کی شان کے سلسلے میں میرا خیال رکھو پھر ان لوگوں کی شان کے سلسلے میں جو ان کے بعد ہوں، پھر جو ان کے بعد ہوں، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا یہاں تک کہ ایک شخص گواہی دے گا اور کوئی اس سے گواہی نہ چاہے گا، اور قسم کھائے گا اور کوئی اس سے قسم نہ چاہے گا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10418، ومصباح الزجاجة: 828)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/26) (صحیح)» (سند میں عبد الملک بن عمیر مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، الصحیحة: 431، 1116)
وضاحت: ۱؎: مقام جابیہ شام کی ایک بستی کا نام ہے۔ ”میرا خیال رکھو“ یعنی کم از کم میری رعایت کرتے ہوئے انہیں کوئی ایذا نہ پہنچاؤ۔
أكرموا أصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشو الكذب حتى يشهد الرجل ولم يستشهد ويحلف ولم يستحلف فمن أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد ألا لا يخلون رجل بامرأة فإن ثالثهما الشيطان
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2363
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) میرا خیال رکھنا اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تعلق کا لحاظ رکھتےہوئے ان سے محبت اوران کا احترام قائم رکھنا۔
(2) تابعین اورتبع تابعین بھی قابل احترام ہیں لہٰذا ان سےمحبت اوران کا احترام ضروری ہے۔
(3) صحابہ، تابعین اورتبع تابعین کےدورمیں خیر غالب اورشرمغلوب تھا۔ عام لوگوں میں اخلاق وکردار کی وہ خرابیاں نہیں تھیں جوبعد میں ظاہر ہوئیں۔ ان زمانوں میں جو فکری غلطیاں پیداہوئیں ان میں بھی وہ شدت نہیں تھی جو بعد کے لوگوں میں پیدا ہوگئی۔
(4) گواہی طلب نہ کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ گواہ گواہی دینے کو تیارہوں گے لیکن وہ اخلاقی طور پرکمزور ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہوں گے، اس لیے انہیں گواہ کے طور پر قبول اور پسند نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی قسموں پر بھی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
(5) مسلمان کو چاہیے کہ ایسے برے لوگوں میں شمار ہونےسے بچنے کی کوشش کرے جن کی پیش گوئی احادیث میں کی گئی ہے، اوراپنے کردار کوبہتر بنائے تاکہ اس کی گواہی اورقسم قابل اعتماد ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2363