الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4150
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا، میں اپنے بعد (پیچھے) کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ رہا، جو میرے نزدیک کلالہ کے مسئلہ سے زیادہ اہمیت والی ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں، کلالہ کے مسئلہ سے زیادہ بار بار نہیں پوچھا، اور آپﷺ نے کسی چیز میں مجھ سے اس قدر سخت گفتگو نہیں کی،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4150]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کلالہ کے بارے میں بڑے فکر مند تھے،
کیونکہ کلالہ کے بارے میں بہت سی باتیں غور طلب ہیں،
اور بقول امام نووی رحمہ اللہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے سختی کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غوروفکر یا مسئلہ کے استنباط کے بجائے صریح نص چاہتے تھے،
حالانکہ بعض جگہ استنباط کے بغیر چارہ کار نہیں ہے،
کلالہ کے معنی میں اختلاف ہے،
کیونکہ اس کا اطلاق وارث پر ہو سکتا ہے،
اور مورث پر بھی،
بعض اس کو وراثت کے معنی میں لیتے ہیں،
اور بعض وراثت میں آنے والے مال کو مراد لیتے ہیں،
اس طرح کلالہ کا حکم دو آیتوں میں بیان ہوا ہے۔
پہلی آیت اخیافی بہن بھائیوں کے بارے میں،
اور آخری شقیق اور علاتی بہن بھائیوں کے بارے میں اس طرح اس میں اختلاف ہے کہ اگر میت کا دادا موجود ہو،
تو وہ باپ کے قائم مقام ہو گا،
میت کے بھائیوں کو وراثت سے محروم کرے گا یا نہیں،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک دادا،
باپ کے قائم مقام ہو گا،
لیکن امام مالک،
امام شافعی،
اور صاحبین کے نزدیک،
دادا کے ساتھ بھائی بھی وارث ہوں گے،
آگے اس میں اختلاف ہے،
ان کو کیا ملے گا،
اس طرح اگر میت اپنے پیچھے،
بیٹی اور بہن چھوڑے،
تو بہن کی وراثت میں اختلاف ہے،
اس لیے حضرات اس کے بارے میں فکر مند تھے،
لیکن آخر تک ان کو ایسا فیصلہ کرنے کا موقعہ نہیں مل سکا،
جس پر ہر عالم اور جاہل مطمئن ہو جاتا۔
کلالہ کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے،
جمہور کے نزدیک کلالہ اس میت کا نام ہے جس نے اپنے پیچھے نہ اولاد چھوڑی اور نہ باپ دادا،
اس سے اس کے بھائی وارث ہوں گے۔
(2)
کلالہ وہ وارث ہیں جو نہ اولاد اور نہ باپ اس لئے بھائی کلالہ ہوں گے۔
(3)
وہ وراثت جو نہ اولاد کے لیے اور نہ باپ کے لیے۔
(4)
وہ مال جس کا وارث نہ اولاد ہے اور نہ باپ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4150