حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا ابو عوانة، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد عفوت عن صدقة الخيل والرقيق، فهاتوا صدقة الرقة من كل اربعين درهما درهما، وليس في تسعين ومائة شيء، فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم ". وفي الباب عن ابي بكر الصديق، وعمرو بن حزم. قال ابو عيسى: روى هذا الحديث الاعمش، وابو عوانة وغيرهما، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، وروى سفيان الثوري، وابن عيينة، وغير واحد عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: وسالت محمد بن إسماعيل عن هذا الحديث، فقال: كلاهما عندي صحيح، عن ابي إسحاق يحتمل ان يكون روي عنهما جميعا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ، وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُمَا، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: كِلَاهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ رُوِيَ عَنْهُمَا جَمِيعًا.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کر دی ہے ۱؎ تو اب تم چاندی کی زکاۃ ادا کرو ۲؎، ہر چالیس درہم پر ایک درہم، ایک سو نوے درہم میں کچھ نہیں ہے، جب دو سو درہم ہو جائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اعمش اور ابو عوانہ، وغیرہم نے بھی یہ حدیث بطریق: «أبي إسحاق عن عاصم بن ضمرة عن علي» روایت کی ہے، اور سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق: «أبي إسحاق عن الحارث عن علي» روایت کی ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ابواسحاق سبیعی سے مروی یہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، احتمال ہے کہ یہ حارث اور عاصم دونوں سے ایک ساتھ روایت کی گئی ہو (تو ابواسحاق نے اسے دونوں سے روایت کیا ہو) ۳- اس باب میں ابوبکر صدیق اور عمرو بن حزم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 5 (1571، 1574)، سنن النسائی/الزکاة 18 (2479، 2480)، (تحفة الأشراف: 10136)، مسند احمد (1131، 148)، سنن الدارمی/الزکاة 7 (1669) (صحیح) وأخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة 4 (1790)، مسند احمد (1/121، 132)، 146 من طریق الحارث عنہ (تحفة الأشراف: 10039)»
وضاحت: ۱؎: جب وہ تجارت کے لیے نہ ہوں۔
۲؎: «رقہ» خالص چاندی کو کہتے ہیں خواہ وہ ڈھلی ہو یا غیر ڈھلی۔
۳؎: اس سے معلوم ہوا کہ چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1790)
قال الشيخ زبير على زئي: (620) إسناده ضعيف / د 1574، جه 1790
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1574
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے گھوڑا، غلام اور لونڈی کی زکاۃ معاف کر دی ہے لہٰذا تم چاندی کی زکاۃ دو، ہر چالیس (۴۰) درہم پہ ایک (۱) درہم، ایک سو نوے (۱۹۰) درہم میں کوئی زکاۃ نہیں، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہو جائیں تو ان میں پانچ (۵) درہم ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث اعمش نے ابواسحاق سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے ابوعوانہ نے کی ہے اور اسے شیبان ابومعاویہ اور ابراہیم بن طہمان نے ابواسحاق سے، ابواسحاق، حارث سے حارث نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نفیلی کی حدیث شعبہ و سفیان اور ان کے علاوہ لوگوں نے ابواسحاق سے ابواسحاق نے عاصم سے عاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوعاً کے بجائے علی رضی اللہ عنہ پر موقوفاً روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1574]
1574. اردو حاشیہ: غلام اور گھوڑے کی زکوۃ کے بارے میں زیادہ تر فقہاء یہی کہتے ہیں کہ محنت کش غلام اور سواری کے گھوڑے پر کوئی زکوۃ نہیں۔ بعض اہل الرائے کہتے ہیں کہ ان کی قیمت لگا کر چالیسوں حصہ وصل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر گھوڑے نر مادہ ملے جلے ہوں تو چونکہ ان میں اضافہ ہو گا، اس لیے ان پر زکوۃ کی ادائیگی لازمی ہو گی۔ البتہ اگر نر ہوں یا محض مادہ تو چونکہ نسل میں اضافہ نہیں ہوگا اس لیے زکوۃ بھی نہیں ہوگی۔ مزید وہ کہتے ہیں کہ گھوڑوں کے مالک کو اختیار ہے کہ چاہے توان کی قیمت پر زکوۃ دے چاہے تو ایک دینار فی گھوڑا ادا کرے۔ تاہم حدیث سے اس کی بابت جومعلوم ہوتا ہے، اس کی صراحت سنن ابوداؤد کی اس حدیث سےہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑوں اور غلاموں کو زکوۃ سے مستثنی قرار دیا ہے۔ البتہ حضرت انس کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ حضرت عمر ؓ غلام اور گھوڑے پر ایک ایک دینار لیا کرتے تھے۔ [المحلی‘ ج: 5‘ الزکاة‘ أحکام زکوة الخیل‘ ص:226] حضرت عمر کے اقدام کی حقیقت مندرجہ ذیل روایتوں سے واضح ہو جاتی ہے: حارثہ بن مضرب فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر کے ساتھ حج کیا۔ اس دوران میں شام کے کچھ شرفاء نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا کہ ان کے پاس غلام اور(سواری کے)جانور ہیں، آپ ہم سے صدقہ (زکوۃ) وصول کر لیں تاکہ ہمارے مال کا تزکیہ ہو جائے۔حضرت عمر نے جواب دیا: یہ کام مجھ سے پہلے دونوں ہستیوں (نبی کریمﷺ اور حضرت ابوبکر) نے نہیں کیا۔“ تو انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں میں اس بابت مشورہ کرتا ہوں، لہذا انہوں نے صحابہ کرام ؓ نے مشورہ کرتا ہوں، لہذا انہوں نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو حضرت علی نے کہا یہ پیش کش اچھی ہے، اگر یہ آپ کے بعد ہمیشہ کےلیے جزیہ (کی طرح لازمی) نہ ہو جائے۔ [مسند أحمد:31/1، 32] یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میرے بھائی عبدالرحمان بن امیہ نے ایک گھوڑی اونٹ کے بدلے خریدی، بیچنے والے کو بعد میں ندامت ہوئی تو اس نے آکر حضرت عمر سے شکایت کی کہ یعلی ٰ اور اس کے بھائی نے مجھے لوٹ لیا۔ حضرت عمر نے یعلی کو لکھ بھیجا کہ ان کے پاس پہنچو۔ انہوں نے تفصیل بتائی تو عمر نے فرمایا کہ ایک گھوڑی تمہارے ہاں اس قدر مہنگی بکتی ہے؟ یعلی نے جواب دیا کہ میرے علم میں بھی یہی ہے کہ اتنی قیمت کسی اور گھوڑی کی آج تک نہیں لگی، حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم چالیس بکریاں پر ایک بکری لیے لیتے ہیں تو اس قدر قیمتی گھوڑوں سے کچھ نہ لیں۔ آپ نے اس کے بعد گھوڑوں پر ایک دینار لاگو کر دیا۔ [المحلی‘ ج: 5‘ أحکام زکوة الخیل] ان دونوں روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود حضرت عمر کے بقول رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ گھوڑوں پر زکوۃ نہ لیتے تھے۔ حضرت عمر خود بھی نہیں لینا چاہتے تھے، بلکہ جب لوگوں نے پیش کش کی تو انہوں نے صحابہ کرام سےمشورہ طلب کیا کہ رضا کارانہ طور پر دینے والوں سے گھوڑوں وغیرہ پر زکوۃ قبول کر لینی چاہیے یا نہیں؟ تو حضرت علی نے حکیمانہ رائے دی کہ اس شرط پر لیں کہ کل کو یہی رضاکارانہ دی ہوئی زکوۃ دوسروں کے لیے لازمی ٹیکس نہ بن جائے۔ تیسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اس رائے کے بعد بھی وصولی پر آمادہ نہ تھے، یہاں تک کہ گھوڑوں کی قیمتوں میں حیرت ناک اضافہ سامنے آنے پر آپ کو یہ خیال ہوا کہ یہ گھوڑے مال و دولت کے خزانے کی مانند ہو گئے ہیں تو انہوں نےاپنے عہد کی قیمتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دینار گھوڑا لاگو کر دیا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے گھوڑوں کو باقی جانوروں پر قیاس کرتے ہوئے کم از کم گھوڑوں کی تعداد کا کوئی نصاب مقرر نہ فرمایا۔ نیز چالیس گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا لینے کا حکم بھی نہ دیا۔ ایسا کرتے تو یہ جانوروں کی زکوۃ کے طریق کار کو آگے بڑھانے کے مترادف ہوتا اور رسول اللہ ﷺ نے بطور جانور اس پر زکوۃ نہ لینے کی وضاحت فرما دی تھی۔ حضرت عمر نے گھوڑوں پر نقدی میں ٹیکس لگا کر یہ واضح کر دیا کہ بحیثیت جانور گھوڑے پر زکوۃ نہیں، بلکہ زیادہ قیمت رکھنے والے مال میں سے وصول کیا جانے والا صدقہ ہے۔ اس انتظام کو باقاعدہ زکوۃ شمار کرنا یا ہمیشہ کے لیے ہر ایک پر اس کو لاگو کر دینا مناسب نہیں۔ حضرت علی نے اسی طرف اشارہ فرمایا اور خود بھی خلافت پر متمکن ہونے کے بعد گھوڑوں پر کچھ نہ لیا۔ یہ حضرت عمر کا صحابہ کے مشورے کے بعد اختیار کردہ ایک طریق تھا، آیندہ بھی مسلمان حکومتیں حضرت عمر کے طریق کو نمونہ بنا کر اجتہاد کر سکتی ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی چیز مالیت کا خزانہ بن جائے تو چاہے پہلے اسے مستثنی قرار دیا جا چکا ہو اس سے فقراء اور دیگر ضرورتوں کے لیے کچھ وصولی کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ قیمتی پتھروں کے بارے میں حضرت عمر ؓ کے عمل کو نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔ نیز ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گھوڑے بنیادی مویشی کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے وسط ایشیا میں، وہاں گھوڑے ہی دودھ اور گوشت کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں اور چرنے والے ریوڑوں کی صورت میں بکثرت موجود ہیں۔ ایسے علاقوں بھی گھوڑے کے حوالے سے اجتہاد کرنا ممکن ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1574
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1813
´گھوڑے اور غلام کی زکاۃ کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑوں، غلام اور لونڈیوں کی زکاۃ معاف کر دی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1813]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: معافی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿3﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾(النجم، 53: 4، 3) ”پیغمبر اپنی خواہش سے کچھ نہیں فرماتے۔ وہ تو وحی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔“ رسول اللہ ﷺ یہ حکم بحیثیت حاکم کے جاری فرماتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1813