مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے آیت
«وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا أن تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين» ۱؎ کا مطلب پوچھا گیا، تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے اسی آیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو آپ نے فرمایا:
”اللہ نے آدم کو پیدا کیا پھر اپنا داہنا ہاتھ ان کی پیٹھ پر پھیرا اور ان کی ایک ذریت
(نسل) کو نکالا، اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جنت ہی کا کام کریں گے، پھر
(دوبارہ) ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ایک ذریت
(ایک نسل) نکالی اور کہا کہ میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کا کام کریں گے
“۔ ایک شخص نے کہا: پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کے رسول!
۲؎ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب اللہ جنتی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جنتیوں کے کام میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں کا کام کرتا ہوا مر جاتا ہے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔ اور جب اللہ جہنمی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں کے کام میں لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کا کام کرتا ہوا مرتا ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- مسلم بن یسار نے عمر رضی الله عنہ سے سنا نہیں ہے،
۳- بعض راویوں نے اس اسناد میں مسلم بن یسار اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان کسی غیر معروف راوی کا ذکر کیا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3075
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب تمہارے رب نے بنی آدم کی ذریت کو ان کی صلب سے نکلا اور انہیں کو ان پر (اس بات کا) گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ لوگوں نے کہا:
کیوں نہیں،
(آپ ہمارے رب ہیں) ہم اس کے گواہ ہیں۔
(یہ گواہی اس لیے لی ہے کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ کہنے نہ لگو کہ ہمیں تو اس کی کچھ خبر نہیں نہ تھی (الأعراف: 172)
2؎:
یعنی جب جہنمی اورجنتی کا فیصلہ پہلے ہی کر دیا گیا ہے تو اس کو لامحالہ،
چاروناچار وہیں پہنچنا ہے جہاں بھیجنے کے لیے اللہ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔
تو پھرعمل کی کیا ضرورت ہے؟
نوٹ:
(سند میں مسلم بن یسار اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے،
اور ابوداؤد وغیرہ کی دوسری سند میں ان دونوں کے درمیان جو نعیم بن ربیعہ راوی ہے وہ مجہول ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3075
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 95
´انسان کو وہی توفیق ہے جس کے لیے پیدا کیا گیا`
«. . . وَعَن مُسلم بن يسَار قَالَ سُئِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ (وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورهمْ) قَالَ عُمَرُ - [35] - بْنُ الْخَطَّابِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسْأَل عَنْهَا فَقَالَ: «خلق آدم ثمَّ مسح ظَهره بِيَمِينِهِ فأاستخرج مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقَتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أهل الْجنَّة يعْملُونَ ثمَّ مسح ظَهره فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقَتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وبعمل أهل النَّار يعْملُونَ فَقَالَ رجل يَا رَسُول الله فَفِيمَ الْعَمَل يَا رَسُول الله قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ من أَعمال أهل الْجنَّة فيدخله الله الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعمال أهل النَّار فيدخله الله النَّار» . رَوَاهُ مَالك وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد . . .»
”. . . اور انہیں سیدنا مسلم بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ «وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ . . .» الخ کا مطلب دریافت کیا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، پھر ان کی پشت سے ان کی اولاد کو نکال کر فرمایا کہ ان کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے پھر دوبارہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پشت سے ان کی اولاد کو نکال کر فرمایا کہ ان کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے یہ دوزخیوں کے کام کریں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے تو جنتیوں کے کام اس سے کراتا ہے یہاں تک کہ وہ مرتے دم تک جنتیوں کے کام کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور جب کسی بندے کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے تو دوزخیوں کا کام اس سے کرواتا ہے اور مرتے دم تک دوزخیوں کے کام کرتا ہے اور انہیں عملوں کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو مالک، ترمذی، اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 95]
تخریج:
[سنن ترمذي 3075]
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ مسلم بن یسار نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا۔
اس روایت کی دوسری سند میں نعیم بن ربیعہ مجہول الحال راوی ہے جسے صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
↰ دیکھئے میری کتاب [انوار الصحيفة فى الاحاديث الضعيفة د: 4703]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 95
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4703
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت «وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم» کے متعلق پوچھا گیا ۱؎۔ (حدیث بیان کرتے وقت) قعنبی نے آیت پڑھی تو آپ نے کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اس سے اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے، اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جہنمیوں کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4703]
فوائد ومسائل:
اولاد آدم کے ایک طبقے کا جنت کے لئے دوسرے کا جہنم کے لئے پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم کے مطابق ایک گروہ اچھے عمل کرتے کرتے جنت میں دوسرا برے عمل کرتے کرتے جہنم میں جائے گا۔
جس طرح اللہ کا علم یے یقینی اور حتمی طور پر ایساہی ہو گا۔
اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک جنت کے لئے اور دوسرا جہنم کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
مگر اس سے یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ انسان مجبور محض ہے، کیونکہ انسان کو پورا اختیار اور عمل کی تمام تر صلاحیتیں دے کر پیدا کیا گیا ہے۔
انسان جو کچھ کرتا ہے وہ یقینا اللہ کی مشیت کے دائرے کے اند ررہ کر کرتا ہے، لیکن اپنے اس اختیار سے کرتا ہے جو اسے ودیعت کیا گیا ہے اور اسی پر جزا اور سزا مرتب ہونے والی ہے۔
بعض حضرات نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4703