حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن ابن مسعود، قال: " دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عام الفتح وحول الكعبة ثلاث مائة وستون نصبا، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يطعنها بمخصرة في يده وربما قال بعود ويقول: " جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا سورة الإسراء آية 81 جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد سورة سبا آية 49 "، قال: هذا حديث حسن صحيح وفيه عن ابن عمر.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْعَنُهَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِهِ وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ وَيَقُولُ: " جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سورة الإسراء آية 81 جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ سورة سبأ آية 49 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»”حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا“(بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد»”حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لوٹ کر آئے گا“(سبا: ۴۹)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
دخل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مكة يوم الفتح ، وعلى الكعبة ثلاث مائة وستون صنما قد شد لهم إبليس أقدامها برصاص ، فجاء ومعه قضيب ، فجعل يهوي به إلى كل صنم منها فيخر لوجهه ، فيقول : جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا سورة الإسراء آية 81 حتى مر عليها كلها
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3138
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»”حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا“(بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد»”حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3138]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اورختم ہونا ہی تھا۔ (بنی اسرائیل: 81)
2؎: حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اورنہ ہی لوٹ کر آئے گا۔ (سبا: 49)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3138