تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء، حديث:1481، والترمذي، الدعوات، حديث:3476-3477، والنسائي، السهو حديث:1285، وأحمد:6 /18، وابن حبان (الإحسان):3 /208، حديث:1957، والحاكم:1 /230.»
تشریح:
1.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا جلدی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔
دعا تو نام ہی عجز و انکسار اور اظہار تذلل کا ہے‘ اس لیے جب دعا کی جائے تو پورے اہتمام و اطمینان سے کی جائے۔
پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا جائے‘ پھر دعا کی جائے۔
2.یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تشہد کے عین مطابق ہے کہ تشہد میں بھی پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا ہے۔
3. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ حدیث تشہد کے بعد لا کر اشارہ کیا ہے کہ اس کا محل تشہد ہے۔
4 تشہد میں پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ اور پھر اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَکی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ہی کی بدولت ہمیں نماز کا طریقہ و سلیقہ حاصل ہوا۔
اس میں خطاب کا لفظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ حکائی ہے جیسا کہ علامہ ملا علی قاری نے شرح مشکاۃ میں کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ کلمات یوں ہی پڑھتے تھے‘ نیز آپ کے انتقال کے بعد بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اَلسَّلاَمُ عَلَی النَّبِيِّ کے الفاظ پڑھنے لگے تھے۔
(صحیح البخاري‘ الاستئذان‘ باب الأخذ بالیدین‘ حدیث:۶۲۶۵) خطاب کبھی حاضر فی الذہن کے لیے بھی ہوتا ہے۔
بہر نوع تشہد میں اس خطاب سے اہل خرافات کا وجودی و حسی حاضر و ناظر مراد لینا غلط اور بے بنیاد ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ»
”فا
“ پر فتحہ اور
”ض
“ مخفف ہے۔
اور عبید‘ عبد سے تصغیر ہے۔
سلسلۂ نسب یوں ہے: فضالہ بن عبید بن نافذ بن قیس۔
ان کی کنیت ابومحمد تھی۔
انصار کے قبیلہ اوس کے فرد تھے۔
پہلا معرکہ جس میں یہ شریک ہوئے معرکہ ٔاُحد تھا۔
اس کے بعد سب غزوات میں شریک رہے۔
بیعت رضوان میں شامل تھے۔
شام کی طرف نقل مکانی کر گئے تھے اور دمشق میں سکونت پذیر ہوئے۔
جس زمانے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صفین کی جنگ کے لیے نکلے اس وقت یہ وہاں کے قاضی
(جج) تھے۔
۵۶ ہجری میں انھوں نے وفات پائی۔