الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سورج گہن کے متعلق بیان
The Book of The Eclipses.
9. بَابُ صَلاَةِ الْكُسُوفِ جَمَاعَةً:
9. باب: سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔
(9) Chapter. To offer the eclipse Salat (prayer) in congregation.
حدیث نمبر: Q1052
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وصلى ابن عباس لهم في صفة زمزم وجمع علي بن عبد الله بن عباس وصلى ابن عمر.وَصَلَّى ابْنُ عَبَّاسٍ لَهُمْ فِي صُفَّةِ زَمْزَمَ وَجَمَعَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے زمزم کے چبوترہ میں لوگوں کو یہ نماز پڑھائی تھی اور علی بن عبداللہ بن عباس نے اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھائی۔

حدیث نمبر: 1052
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال:" انخسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام قياما طويلا نحوا من قراءة سورة البقرة، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم انصرف وقد تجلت الشمس، فقال صلى الله عليه وسلم: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله، قالوا: يا رسول الله رايناك تناولت شيئا في مقامك، ثم رايناك كعكعت، قال صلى الله عليه وسلم: إني رايت الجنة فتناولت عنقودا ولو اصبته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، واريت النار فلم ار منظرا كاليوم قط افظع، ورايت اكثر اهلها النساء، قالوا: بم يا رسول الله، قال: بكفرهن، قيل: يكفرن بالله، قال: يكفرن العشير ويكفرن الإحسان لو احسنت إلى إحداهن الدهر كله، ثم رات منك شيئا قالت ما رايت منك خيرا قط".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَعْكَعْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا وَلَوْ أَصَبْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَأُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ، قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بِكُفْرِهِنَّ، قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اتنی دیر میں سورۃ البقرہ پڑھی جا سکتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع لمبا کیا اور اس کے بعد کھڑے ہوئے تو اب کی مرتبہ بھی قیام بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم پھر ایک دوسرا لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے، سجدہ سے اٹھ کر پھر لمبا قیام کیا لیکن پہلے قیام کے مقابلے میں کم لمبا تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا۔ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلہ میں کم تھا رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک کھڑے رہے اور یہ قیام بھی پہلے سے مختصر تھا۔ پھر (چوتھا) رکوع کیا یہ بھی بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و زندگی کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا اس لیے جب تم کو معلوم ہو کہ گرہن لگ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ (نماز میں) اپنی جگہ سے آپ کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا یک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے کفر (انکار) کی وجہ سے، پوچھا گیا۔ کیا اللہ تعالیٰ کا کفر (انکار) کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شوہر کا اور احسان کا کفر کرتی ہیں۔ زندگی بھر تم کسی عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آ گئی تو فوراً یہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔

Narrated `Abdullah bin `Abbas: The sun eclipsed in the lifetime of the Prophet (p.b.u.h) . Allah's Apostle offered the eclipse prayer and stood for a long period equal to the period in which one could recite Surat-al-Baqara. Then he bowed for a long time and then stood up for a long period which was shorter than that of the first standing, then bowed again for a long time but for a shorter period than the first; then he prostrated twice and then stood up for a long period which was shorter than that of the first standing; then he bowed for a long time which was shorter than the previous one, and then he raised his head and stood up for a long period which was shorter than the first standing, then he bowed for a long time which was shorter than the first bowing, and then prostrated (twice) and finished the prayer. By then, the sun (eclipse) had cleared. The Prophet then said, "The sun and the moon are two of the signs of Allah. They eclipse neither because of the death of somebody nor because of his life (i.e. birth). So when you see them, remember Allah." The people say, "O Allah's Apostle! We saw you taking something from your place and then we saw you retreating." The Prophet replied, "I saw Paradise and stretched my hands towards a bunch (of its fruits) and had I taken it, you would have eaten from it as long as the world remains. I also saw the Hell-fire and I had never seen such a horrible sight. I saw that most of the inhabitants were women." The people asked, "O Allah's Apostle! Why is it so?" The Prophet replied, "Because of their ungratefulness." It was asked whether they are ungrateful to Allah. The Prophet said, "They are ungrateful to their companions of life (husbands) and ungrateful to good deeds. If you are benevolent to one of them throughout the life and if she sees anything (undesirable) in you, she will say, 'I have never had any good from you.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 18, Number 161

   صحيح البخاري1052عبد الله بن عباسصلى رسول الله فقام قياما طويلا نحوا من قراءة سورة البقرة ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون
   صحيح مسلم2112عبد الله بن عباسصلى في كسوف قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد
   صحيح مسلم2111عبد الله بن عباسصلى رسول الله حين كسفت الشمس ثمان ركعات في أربع سجدات
   صحيح مسلم2094عبد الله بن عباسصلى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات
   جامع الترمذي560عبد الله بن عباسصلى في كسوف فقرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثلاث مرات ثم سجد سجدتين والأخرى مثلها
   سنن أبي داود1183عبد الله بن عباسصلى في كسوف الشمس فقرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد والأخرى مثلها
   سنن النسائى الصغرى1468عبد الله بن عباسصلى عند كسوف الشمس ثماني ركعات وأربع سجدات
   سنن النسائى الصغرى1469عبد الله بن عباسصلى في كسوف فقرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم قرأ ثم ركع ثم سجد والأخرى مثلها
   سنن النسائى الصغرى1470عبد الله بن عباسصلى يوم كسفت الشمس أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم181عبد الله بن عباسقياما طويلا، قال: نحوا من سورة البقرة، قال: ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا
   بلوغ المرام403عبد الله بن عباسانخسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فصلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 181  
´سورج گرہن والی نماز کا طریقہ `
«. . . انه قال: خسفت الشمس فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس معه، فقام قياما طويلا . . .»
. . . (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، تو (بہت) لمبا قیام فرمایا یعنی سورة البقرہ کے برابر. . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 181]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1052، ومسلم 907، من حديث مالك به]
تفقہ:
① سورج گرہن والی نماز میں دو رکعتیں ہوتی ہیں اور ہر رکعت میں دو رکوع ہوتے ہیں۔
② کسی شخص کے پیدا ہونے، مرنے یا کسی خاص واقعے کی وجہ سے نہ سورج کو گرہن لگتا ہے اور نہ چاند کو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے ما تحت ہوتا ہے۔
③ اللہ تعالیٰ نے جنت (پیدا فرما کر) اہل ایمان کے لئے تیار کر رکھی ہے۔
④ چونکہ عام عورتوں میں جہالت، ناسمجھی، اپنے شوہروں کی نافرمانی اور شرک و بدعات زیادہ ہوتی ہیں اور دنیا میں اکثریت بھی عورتوں کی ہی ہے لہٰذا جہنم میں اکثریت عورتوں کی ہوگی سواۓ ان کے جنہیں الله تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھے۔
⑤ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: «لا ينظر الله إلى امرأة لا تشكر لزوجها و هي لا تستغني عنه» اللہ اس عورت کو (رحم کی نظر سے) نہیں دیکھے گا جو اپنے شوہر کا شکریہ ادا نہیں کرتی اور (حال یہ ہے کہ) وہ اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ [التمهيد 327/3، 228 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1183  
´نماز کسوف میں چار رکوع کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اور دوسری (رکعت) بھی اسی طرح پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1183]
1183. اردو حاشیہ:
یعنی ہر دو رکعت میں چار چار رکوع کیے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک ہر رکعت میں دو دو رکوع کرنے والی روایات ہی صحیح ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1183   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 403  
´نماز کسوف کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی اس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کے برابر قیام کیا۔ پھر رکوع بھی بڑا لمبا کیا۔ پھر کھڑے ہوئے تو قیام بھی طویل کیا، مگر پہلے قیام سے کم۔ پھر لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم۔ پھر سجدہ ریز ہوئے۔ (اس کے بعد) پھر لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر اپنا سر مبارک رکوع سے اٹھایا اور ایک لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کچھ کم تھا اس کے بعد پھر ایک اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم (لمبا) تھا، پھر اپنا سر مبارک (رکوع سے) اٹھایا۔ پھر سجدہ کیا پھر آخر کار سلام پھیر دیا تو (اس دوران) سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو وعظ بھی کیا۔ (بخاری و مسلم) اور الفاظ مسلم کے ہیں۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کے موقع پر آٹھ رکوع چار سجدوں کے درمیان ادا کیے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ اور مسلم ہی کی ایک روایت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے یوں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ رکوع چار سجدوں کے ساتھ ادا کیے ہیں۔ اور ابوداؤد میں سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تو پانچ رکوع اور دو سجدے پہلی رکعت میں کیے اور اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 403»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الكسوف، باب صلاة الكسوف جماعة، حديث:1052، ومسلم، الكسوف باب ما عرض علي النبي صلي الله عليه وسلم في صلاة الكسوف من أمرالجنة والنار، حديث:907، وحديث علي أخرجه أحمد:1 /143، وابن خزيمة، حديث:1388، 1394 وهو حديث حسن، وحديث جابرأخرجه مسلم، الكسوف، حديث:904، وحديث أبي بن كعب أخرجه أبوداود، صلاة الإستسقاء، حديث:1182 وسنده ضعيف.»
تشریح:
1. تعداد رکوع میں روایات مختلف ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
2.روایات میں دو دو رکوع‘ تین تین رکوع‘ چار چار رکوع یاپانچ پانچ رکوع ایک رکعت میں پڑھنے کا ذکر ہے۔
3. بعض نے ان کے درمیان جمع اور تطبیق دیتے ہوئے اس پر محمول کیا ہے کہ کسوف کی نماز آپ کی زندگی میں متعدد بار ہوئی ہے۔
اور بعض کا قول ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اور کسوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے‘ لہٰذا ان روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا لازمی ہے تاکہ تعارض دور ہو‘ چنانچہ یقینی اور قطعی طور پر وہی احادیث راجح ہیں جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر آیا ہے۔
موقع کی مناسبت سے ہم اس جگہ چند امور کا بالاختصار اظہار ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صحیح صورت حال واضح ہو جائے اور اس مسئلے کی تنقیح و تحقیق ہو جائے۔
4. یہ بات ذہن نشین رہے کہ محقق مؤرخین‘ پیچیدہ و باریک مسائل کی تحقیق کرنے والے ہیئت دان اور ماہرین فلکیات کا اس پر اتفاق ہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ جس روز فوت ہوئے وہ ۱۰ہجری ماہ شوال کی ۲۸ یا ۲۹ تاریخ تھی جبکہ انگریزی لحاظ سے ۶۳۲ء جنوری کی ۲۷ تاریخ بنتی ہے۔
اور بعض نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔
اور اس پر بھی سب متفق نظر آتے ہیں کہ سورج گرہن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے بعد پھر کبھی نہیں ہوا‘ البتہ اس سے پہلے وقوع ہوا یا نہیں ‘ اس کے متعلق محقق کبیر علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب سیرت رحمۃ للعالمین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی و مدنی دور میں وقوع پذیر ہونے والے سورج گرہن کی تعداد ذکر کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد دس بار سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا۔
اس میں وہ سورج گرہن بھی شامل ہے جو آپ کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر لگا تھا۔
یہ گرہن ان سب کے آخر میں واقع ہوا۔
لیکن قاضی صاحب نے نہ تو ان کے اوقات کا ذکر فرمایا ہے اور نہ ان جگہوں اور علاقوں کو بیان کیا جہاں یہ واقعات ہوئے ہیں تاکہ مدینہ منورہ میں جو سورج گرہن ملاحظہ کیا گیا اس سورج گرہن سے ممیز ہو جاتا جو وہاں ملاحظہ نہیں کیا گیا۔
رہا احادیث کا معاملہ تو امام مسلم رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے‘ انھوں نے بتایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ منورہ میں اپنے تیروں سے تیز اندازی کر رہا تھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔
میں نے تیروں کو پھینک مارا اور دل میں کہا کہ سورج گرہن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معاملہ پیش آیا ہے‘ اللہ کی قسم! اسے میں ضرور دیکھوں گا۔
(صحیح مسلم‘ الکسوف‘ باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف: الصلاۃ جامعۃ‘ حدیث: ۹۱۳) 5. یہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مدینے میں پہلا موقع تھا کہ سورج کو گرہن لگا۔
کم از کم اس وقت تک گرہن کے بارے میں کوئی حکم ثابت نہیں۔
اور یہ تو معلوم ہے کہ عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ہیں۔
یہ بات اس کا تعین تو کر دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پہلی مرتبہ جو سورج گرہن مشاہدہ کیا گیا وہ فتح مکہ کے بعد کا ہے‘ پہلے کا نہیں۔
صحیح مسلم اور سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ گرہن کا واقعہ شدید گرمی کے دن ہوا۔
(صحیح مسلم‘ الکسوف‘ باب ماعرض علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم …‘ حدیث: ۹۰۴) اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ گرہن جو ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر لگا تھا وہ جنوری کے مہینے میں لگا تھا۔
اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں سردی شدید ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں اور ایک واقعہ نہیں بلکہ متعدد ہیں۔
اس کے بعد جب ہم فلکیات کے حساب پر نظر ڈالتے ہیں جسے علامہ قاضی محمد سلیمان نے نمایاں کیا ہے تو فتح مکہ کے بعد ہمیں تین مرتبہ گرہن کا ثبوت ملتا ہے۔
پہلا گرہن ۲۸ ربیع الثانی ۹ ہجری بمطابق ۱۳ اگست ۶۳۰ء کو ہوا۔
اور اگست کا مہینہ جیسا کہ سب جانتے ہیں سخت گرمی کا مہینہ ہے۔
اور بارش کی کمی کی وجہ سے جزیرۃ العرب میں دوسرے ملکوں اور علاقوں کے مقابلے میں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
اور دوسرا گرہن ۲۹ شوال ۹ ہجری بمطابق ۷ فروری ۶۳۱ء میں واقع ہوا۔
اور تیسرا گرہن ۲۸ شوال ۱۰ ہجری بمطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو لگا۔
اور جب ہم فلکیات کے حساب اور احادیث میں مذکور کسوف کو باہم ملاتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعات میں سے دو گرہن ہوئے ہیں۔
ایک گرہن تو اگست کے مہینے میں واقع ہوا‘ یعنی پہلا گرہن شدید گرمی میں لگا۔
اور ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر جو جنوری کے مہینے میں ہوا وہ تیسرا سورج گرہن تھا۔
اور جو ۹ ہجری شوال کے مہینے میں (فروری میں) واقع ہوا وہ دوسرا گرہن تھا۔
مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مدینہ میں اس گرہن کا دیکھنا ممکن بھی تھا یا نہیں؟ بہرحال جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ متعدد مرتبہ گرہن کے ہونے کا مقتضی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دو دفعہ سورج گرہن واقع ہوا۔
لیکن یہ تعدد ‘روایات کے اختلاف اور رکوعات کی تعداد کی تحقیق اور تلاش میں سود مند نہیں ہے کیونکہ دونوں واقعات سے متعلقہ روایات ہر رکعت میں دو رکوعوں کی صراحت کرتی ہیں‘ پھر باقی کون سے سورج گرہن رہ جاتے ہیں جن کی نماز میں تین تین‘ چار چار اور پانچ پانچ رکوع کیے؟ 5. ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے روز گرہن کی نماز کے بارے میں بھی روایات میں صریح تعارض ہے۔
اکثر روایات میں ہے کہ اس روز نماز کسوف ہر رکعت میں دو رکوع سے پڑھی گئی ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت سے نماز میں ہر رکعت تین رکوعوں سے پڑھنا ثابت ہے‘ پس احادیث کا باہمی تعارض بجز ترجیح کے دور کرنا ممکن ہی نہیں‘ لہٰذا ہمارے نزدیک‘ خواہ ہم متعدد واقعات تسلیم کریں یا نہ کریں‘ وہ روایات قوی ترین ہیں جن میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر ہے۔
سب سے زیادہ ان کا ثبوت ہے اور قطعی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی وجہ سے راجح بھی ہیں۔
امام شافعی ‘ امام بخاری ‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اور متأخرین میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے کہ دو رکوع کی احادیث راجح ہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کسوف کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا مگر صاحب ہدایہ نے اس کا انکار کیا ہے کہ نماز کسوف میں خطبہ نہیں کیونکہ کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے‘ حالانکہ اس حدیث میں صاف طور پر اس کا ذکر موجود ہے کہ آپ نے سامعین کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 403   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 560  
´گرہن کی نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو آپ نے قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، تین بار قرأت کی اور تین بار رکوع کیا، پھر دو سجدے کئے، اور دوسری رکعت بھی اسی طرح تھی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 560]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(تین طرق سے ابن عباس کی روایت میں ایک رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کا تذکرہ ہے،
اس لیے علماء کے قول کے مطابق اس روایت میں حبیب بن ابی ثابت نے ثقات کی مخالفت کی ہے،
اور یہ مدلس ہیں،
ان کی یہ روایت عنعنہ سے ہے اس لیے تین رکعت کا ذکر شاذ ہے /ملاحظہ ہو:
ضعیف ابی داؤد رقم: 215 وصحیح سنن ابی داؤد 1072)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 560   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1052  
1052. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1052]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اس سے قبل بھی گزر چکی ہے، دوزخ اور جنت کی تصویریں آپ کو دکھلادیں، اس حدیث میں عورتوں کا بھی ذکر ہے جس میں ان کے کفر سے ناشکری مراد ہے۔
بعضوں نے کہا کہ آپ نے اصل جنت اور دوزخ کو دیکھا کہ پردہ درمیان سے اٹھ گیا یا یہ مراد ہے کہ دوزخ اور جنت کا ایک ایک ٹکڑا بطور نمونہ آپ کو دکھلایا گیا۔
بہر حال یہ عالم بزرخ کی چیز ہے جس طرح حدیث میں آگیا۔
ہمارا ایمان ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
جنت کے خوشے کے لیے آپ نے جو فرمایا وہ اس لیے کہ جنت اور نعمائے جنت کے لیے فنا نہیں ہے اس لیے وہ خوشہ اگر آجاتا تو وہ یہاں دنیا کے قائم رہنے تک رہتا مگر یہ عالم دنیا اس کا محل نہیں اس لیے اس کاآپ کو معائنہ کرایا گیا۔
اس روایت میں بھی آنحضرت ﷺ کا ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے جس کے پیش نظر برادران احناف نے بھی بہر حال اپنے مسلک کے خلاف اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔
چنا نچہ صاحب تفہیم البخاری کے الفاظ ملاحظہ ہوں آپ فرماتے ہیں:
اس باب کی تمام احادیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ راویوں نے اس پر خاص طور سے زور دیا ہے کہ آپ ﷺ نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے۔
چنا نچہ قیام پھر رکوع پھر قیام پھر رکوع کی کیفیت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں، لیکن سجدہ کا ذکر جب آیا تو صرف اسی پر اکتفا کیا کہ آپ نے سجدہ کیا تھا، اس کی کوئی تفصیل نہیں کہ سجدے کتنے تھے کیونکہ راویوں کے پیش نظر اس نماز کے امتیازات کو بیان کرنا ہے اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ رکوع ہر رکعت میں آپ نے دو کئے تھے اور جن میں ایک رکوع کا ذکر ہے ان میں اختصار سے کام لیا گیاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1052   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1052  
1052. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1052]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگر مقرر امام موجود نہ ہو تو کوئی بھی صاحب علم یہ فریضہ ادا کر سکتا ہے، البتہ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ اگر امام راتب نہ ہو تو لوگوں کو انفرادی طور پر نماز پڑھنی چاہیے لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 697/2) (2)
بظاہر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کھلی آنکھ سے جنت کا مشاہدہ فرمایا اور آپ کے لیے جنت کے تمام حجابات اٹھا دیے گئے اور تمام مسافت کو لپیٹ دیا گیا یہاں تک کہ خوشۂ انگور توڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔
اس کی تائید حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
جنت میرے قریب آ گئی۔
اگر میں جرءت کرتا تو تمہارے لیے خوشۂ انگور لے آتا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 745)
ممکن ہے کہ آپ کے سامنے جنت کو مثالی طور پر پیش کیا گیا ہو۔
جیسا کہ آئینے میں کسی چیز کی تصویر نظر آتی ہے۔
اس کی تائید حدیث انس سے ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
ابھی ابھی میرے سامنے دیوار قبلہ میں جنت اور دوزخ کو بطور مثال پیش کیا گیا تھا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 749)
اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جنت اور دوزخ کا متعدد مرتبہ مشاہدہ کرایا گیا تھا۔
جب آپ ﷺ معراج پر گئے تھے تو اس وقت بھی آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا، لیکن اسے مشاہدۂ جمال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جبکہ نماز کسوف کے موقع پر مشاہدۂ جلال کے طور پر آپ نے انہیں دیکھا تھا۔
واللہ أعلم۔
(3)
حدیث جابر میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی بری خصلتوں کو بیان فرمایا ہے جو اکثر عورتوں کو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔
آپ نے فرمایا:
میں نے ایسی عورتوں کو بکثرت جہنم میں دیکھا جو راز افشا کر کے امانت میں خیانت کرتی ہیں، اگر ان سے کوئی چیز مانگی جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں، اگر خود سوال کرنا ہو تو چمٹ جاتی ہیں اور اگر انہیں دیا جائے تو ناشکری پر اتر آتی ہیں۔
یہ وہ اوصاف ہیں جو عورتوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور ان کے باعث اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن بنیں گی۔
(فتح الباري: 700/2)
أعاذنا اللہ منه۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1052   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.