الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
22. باب فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ
22. باب: وقت سے پہلے زکاۃ نکال دینے کا بیان۔
Chapter: Payment Of Zakat In Advance Before It Falls Due.
حدیث نمبر: 1624
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا إسماعيل بن زكريا، عن الحجاج بن دينار، عن الحكم، عن حجية، عن علي، ان العباس سال النبي صلى الله عليه وسلم في تعجيل صدقته قبل ان تحل، فرخص له في ذلك"، قال مرة:" فاذن له في ذلك". قال ابو داود: روى هذا الحديث هشيم، عن منصور بن زاذان، عن الحكم، عن الحسن بن مسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث هشيم اصح.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ حُجَيَّةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ"، قَالَ مَرَّةً:" فَأَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ هُشَيْمٍ أَصَحُّ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زکاۃ جلدی (یعنی سال گزرنے سے پہلے) دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ راوی نے ایک بار «فرخص له في ذلك» کے بجائے «فأذن له في ذلك» روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ہشیم نے منصور بن زاذان سے، منصور نے حکم سے حکم نے حسن بن مسلم سے اور حسن بن مسلم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کی ہے اور ہشیم کی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، (یعنی: اس روایت کا مرسل بلکہ معضل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 37 (678)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 7 (1795)، (تحفة الأشراف:10063)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/104)، سنن الدارمی/الزکاة 12 (1676) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Ali ibn Abu Talib: Al-Abbas asked the Prophet ﷺ about paying the sadaqah (his zakat) in advance before it became due, and he gave permission to do that. Abu Dawud said: This tradition has also been transmitted by Hushaim through a different chain of narrators. The version of Hushaim is more sound.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1620


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (678) ابن ماجه (1795)
الحكم بن عتيبة عنعن وللحديث شواھد ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 66
   جامع الترمذي678علي بن أبي طالبتعجيل صدقته قبل أن تحل فرخص له في ذلك
   سنن أبي داود1624علي بن أبي طالبتعجيل صدقته قبل أن تحل فرخص له في ذلك قال مرة فأذن له في ذلك
   سنن ابن ماجه1795علي بن أبي طالبتعجيل صدقته قبل أن تحل فرخص له في ذلك
   بلوغ المرام493علي بن أبي طالب تعجيل صدقته قبل ان تحل فرخص له في ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1795  
´وقت سے پہلے زکاۃ نکالنے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی زکاۃ پیشگی ادا کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں اس کی رخصت دی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1795]
اردو حاشہ:
فائدہ:
پیشگی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کر دی جائے۔
وقت آنے پر حساب کر کے کمی بیشی پوری کر لی جائے۔
یہ جائز ہے۔
بعض حضرات کے نزدیک یہ روایت حسن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1795   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 493  
´پیشگی زکاۃ وصول کرنے کا بیان `
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا زکوٰۃ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ادا ہو سکتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 493]
لغوی تشریح:
«قَبُلَ اَّنَ تُخِلَّ» مقررہ وقت آنے سے پہلے۔ «حلول» سے ماخوذ ہے، باب «ضَرَبَ يَضْرِبُ» ہے، یعنی سائل نے پوچھا کہ کیا زکاۃ، سال گزرے اور وقت مقررہ آنے سے پہلے ادا کر سکتی ہے یا نہیں؟

فوائد و مسائل:
زکاۃ اگرچہ اپنے وقت پر، یعنی سال گزرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شدید ضرورت ہو تو اصحاب حیثیت لوگوں سے پیشگی زکاۃ بھی لی جا سکتی ہے، اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد دو سال ہے، یعنی دو سال کی پیشگی زکاۃ لی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں کیونکہ جس واقعے سے پیشگی زکاۃ لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دو سال کی زکاۃ پیشگی وصول فرما لی تھی۔ اس کی طرف اشارہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث کی روایات سے ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بابت فرمایا: ان کی زکاۃ میرے ذمے ہے اور اس کی مثل اس کے ساتھ اور بھی۔ [صحيح البخاري، الزكاة، حديث: 1468، وصحيح مسلم، الزكاة، حديث: 983]
علمائے کرام نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ ان سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی گئی ہے، دو سال کی زکاۃ ان سے طلب نہ کی جائے۔ علاوہ ازیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ لینے کی متعدد روایات آتی ہیں جنہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے، لیکن ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ ضعف ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے بھی مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم اس کے مجموعی طرق سے کم از کم اس واقعہ کی اصلیت کا اثبات ہوتا ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 4203]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 493   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.