الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
22. باب الرَّجُلَيْنِ يَدَّعِيَانِ شَيْئًا وَلَيْسَتْ لَهُمَا بَيِّنَةٌ
22. باب: دو آدمی ایک چیز پر دعویٰ کریں اور گواہ کسی کے پاس نہ ہوں اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: Two men who claim something but have no proof.
حدیث نمبر: 3613
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن المنهال الضرير، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا ابن ابي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن ابي بردة، عن ابيه، عن جده ابي موسى الاشعري،" ان رجلين ادعيا بعيرا او دابة إلى النبي صلى الله عليه وسلم ليست لواحد منهما بينة، فجعله النبي صلى الله عليه وسلم بينهما".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيّ،" أَنَّ رَجُلَيْنِ ادَّعَيَا بَعِيرًا أَوْ دَابَّةً إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَتْ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا بَيِّنَةٌ، فَجَعَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے ایک اونٹ یا چوپائے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعویٰ کیا اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چوپائے کو ان کے درمیان تقسیم فرما دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/آداب القضاة 34 (5426)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 11 (2330)، (تحفة الأشراف والإرواء: 2656)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/402) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (قتادة سے مروی ان احادیث میں روایت ابو موسی اشعری سے ہے، اور بعض رواة اسے سعید بن ابی بردہ عن ابیہ مرسلاً روایت کیا ہے، اور بعض حفاظ نے اسے حرب سے مرسلاً صحیح مانا ہے)

Narrated Abu Musa al-Ashari: Two men claimed a camel or an animal and brought the case to the Holy Prophet ﷺ. But as neither of them produced any proof, the Holy Prophet ﷺ declared that they should share it equally.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3606


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سعيد بن أبي عروبة تابعه شعبة عند أحمد (4/402) وللحديث شواھد عند ابن حبان (1201) وغيره
   سنن أبي داود3613عبد الله بن قيسادعيا بعيرا أو دابة إلى النبي ليست لواحد منهما بينة فجعله النبي بينهما
   سنن ابن ماجه2330عبد الله بن قيساختصم إليه رجلان بينهما دابة وليس لواحد منهما بينة فجعلها بينهما نصفين
   سنن النسائى الصغرى5426عبد الله بن قيسرجلين اختصما إلى النبي في دابة ليس لواحد منهما بينة فقضى بها بينهما نصفين
   بلوغ المرام1214عبد الله بن قيسان رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في دابة ليس لواحد منهما بينة فقضى بها بينهما نصفين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1214  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ دو آدمیوں کا ایک جانور کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ ان میں سے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانور کو ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا دینے کا فیصلہ فرمایا۔ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے؟ یہ الفاظ نسائی کے ہیں۔ اس کی سند عمدہ ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1214»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، القضاء، باب الرجلين يدعيان شيئًا وليس لهما بينة، حديث:3613، والنسائي، آداب القضاة، حديث:5426، والسنن الكبرٰي له:3 /487، حديث:5998.»
تشریح:
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اونٹ یا جانور کو دونوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔
تب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو آدھے آدھے کا مستحق قرار دیا۔
اگر یہ بات نہ ہوتی‘ یعنی ان دونوں کے سوا وہ کسی تیسرے آدمی کے قبضے میں ہوتا تو صرف دعوے سے وہ دونوں حقدار نہیں بن سکتے تھے۔
ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جانور کسی تیسرے آدمی کے پاس ہو جس کا ان دونوں کے ساتھ کوئی تنازع نہ ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1214   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3613  
´دو آدمی ایک چیز پر دعویٰ کریں اور گواہ کسی کے پاس نہ ہوں اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے ایک اونٹ یا چوپائے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعویٰ کیا اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چوپائے کو ان کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3613]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسلام کا اصول شہادت ہر طرح کی صورت حال کےلئے فیصلے کا موثرذریعہ ہے۔
اگر مدعی کے پاس ایک گواہ ہے۔
تو دوسرے گواہ کی کمی پوری کرنے کےلئے وہ قسم کھائے گا اگر اس کے پاس کوئی گواہ نہیں۔
اور مدعی علیہ قسم نہیں کھانا چاہتا۔
تو قاضی دونوں کی رضا مندی سے صلح کرا سکتا ہے۔
اس صلح میں متنازع مال مال آدھا آدھا بھی تقسیم ہوسکتا ہے۔
اگر وہ صلح کےلئے تیار نہیں ہوتے تو قاضی یہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔
کہ تم دونوں میں سے جو کوئی قسم کھائے گا مال اسی کا ہوگا۔
اگر پھر بھی دونوں قسم کھانے سے انکار کریں تو قرعہ ڈالا جائے گا۔
اور جس کا نام نکلے گا اسے قسم کھانی ہوگی یا پھر دستبرداری دینی ہوگی۔
حدیث3613 سے لے کر 3619 تک کی احادیث سے مندرجہ بالا تمام اصول واضح ہوجاتے ہیں۔
اسلام نے خصومات کے فیصلے کےلئے گواہی اور حلف ہی کو اساسی حیثیت دی ہے۔
کسی اور نظام قانون میں شہادت وحلف کے یہ تمام اصول بیان نہیں کئے گئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3613   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.