الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: ذبیحہ کے احکام و مسائل
Chapters on Slaughtering
11. بَابُ : النَّهْيِ عَنْ لُحُومِ الْجَلاَّلَةِ
11. باب: جلالہ (گندگی کھانے والے جانور) کا گوشت کھانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3189
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا ابن ابي زائدة ، عن محمد بن إسحاق ، عن ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن لحوم الجلالة والبانها".
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ لُحُومِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جلالہ» (گندگی اور نجاست کھانے والے جانور) کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 52 (3785)، سنن الترمذی/الأطعمة 24 (1824)، (تحفة الأشراف: 7387)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/219، 226، 241، 253، 321) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
سنن أبي داود (3185) ترمذي (1824)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 490
   جامع الترمذي1824عبد الله بن عمرنهى عن أكل الجلالة وألبانها
   سنن أبي داود2558عبد الله بن عمرنهى عن الجلالة في الإبل أن يركب عليها
   سنن أبي داود3787عبد الله بن عمرنهى عن الجلالة في الإبل أن يركب عليها أو يشرب من ألبانها
   سنن أبي داود3785عبد الله بن عمرنهى عن أكل الجلالة وألبانها
   سنن ابن ماجه3189عبد الله بن عمرنهى عن لحوم الجلالة وألبانها
   بلوغ المرام1142عبد الله بن عمرنهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الجلالة والبانها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3785  
´جلالہ کی حرمت`
«. . . نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست خور جانور کے گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 3785]

فقہ الحدیث:
اس حدیث سے جلالہ کی قطعی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال سے اس وقت تک روکا گیا ہے جب تک کہ اس گندی خوراک کی بدبو زائل نہ ہو جیسا کہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صحیح چر سے ثابت ہے کہ: «إنه كان يحبس الدجاجة الجلالة ثلاثا»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلالہ مرغی کو تین دن بند رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔ [رواه ابنِ ابي شيبه]
علامہ ناصرا لدین البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ [ارواء الغليل ج8، ص151]
اور سنن ابوداود کے مشہور شارح علامہ شمس الحق عظیم آبادی عون المعبود میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«قال الخطابي واختلف الناس فى أكل لحوم الجلالة وألبانها فكره ذلك أصحاب الرأي والشافعي وأحمد بن حنبل وقالوا لا يؤكل حتى تحبس أياما وتعلف علفا غيرها فإذا طاب لحمها فلا بأس بأكله وقد روي فى حديث أن البقر تعلف أربعين يوما ثم يؤكل لحمها وكان بن عمر تحبس الدجاجة ثلاثة أيام ثم تذبح»
امام خطابی فرماتے ہیں کہ نجاست خور جانور کے گوشت اور دودھ کے متعلق کچھ اہل الرائے اور شافعیہ اور حنبلی علماء کا کہنا ہے کہ مکروہ ہے، لیکن اگر اس کو گندگی کھانے سے کچھ روز روک لیا جائے اور دوسری پاک غذا کھلائی جائے اور اس کے گوشت سے نجاست کا اثر زائل ہو جائے تو اسے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور ایک حدیث منقول ہے کہ ایسی گائے کو چالیس روز دوسری صاف غذا کھلائی پھر اس کا گوشت کھایا جائے اور سیدنا ابن عمر تین دن ایسی مرغی کو نجاست سے بچا کر اسے ذبح کرتے۔
یہ صرف اس لئے کرتے تھے تا کہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس کے گوشت سے جاتی رہے۔
اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پر نشو و نما پائی ہے کسی بھی حال میں پاک نہ ہوتا۔
جیسا کہ ابنِ قدامہ نے کہا ہے کہ اگر جلالہ نجس ہوتی تو دو تین دن بند کرنے سے بھی پاک نہ ہوتی۔ [المغني ج9، ص41]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس صحیح اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالہ کی حرمت اس کے گوشت کا نجس اور پلید ہونا نہیں بلکہ علت اس کے گوشت سے گندگی کی بدبو وغیرہ کا آنا ہے۔ جیسا کہ:
حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں:
«و المعتبر فى جواز اكل الجلالة زوال رائحة النجاسة عن تعلف بالشيى الطاهر على الصحيح» [فتح البارى ج9 , ص 565]
جلالہ کے کھانے کا لائق ہونے میں معتبر چیز نجاست وغیرہ کی بدبو کا زائل ہونا ہے۔ یعنی جب بدبو زائل ہو جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔
علامہ صنعانی بھی فرماتے ہیں: «قيل بل الإعتبار بالرائحة و النتن»
کہ جلالہ کے حلال ہونے میں بدبو کے زائل ہونے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ [سبل السلام، ج3، ص77]
جلالہ کے بارے میں اہل لغت کے اقوال جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر اہل لغت نے لکھا ہے کہ:
«ألجلالة هى البقرة التى تتبع النجاسات»
کہ جلالہ وہ گائے ہے جو نجاسات کو تلاش کرتی ہے۔ [لسان العرب ج2، ص336، الصحاح للجوهري ج4، ص1258، القاموس الميط ج1، ص591]
لغت عرب کے مشہور امام ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں:
«و الجلالة من الحيوان التى تأكل الجلة العذرة»
کہ جلالہ وہ حیوان جو انسان کا پاخانہ وغیرہ کھاتے ہیں۔ [لسان العرب، ج2، ص336]
   محدث فورم، حدیث\صفحہ نمبر: 37230   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3189  
´جلالہ (گندگی کھانے والے جانور) کا گوشت کھانا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جلالہ» (گندگی اور نجاست کھانے والے جانور) کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3189]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں جو گندگی کا اس حد تک عادی ہوجائے کہ ا س کا گوشت اور دودھ اس سے متاثر ہوجائے۔

(2)
بعض علماء کے نزدیک اگر ایسے جانور کو باندھ کر رکھا جائے اور پاک صاف غذا کھلائی جائے حتی کہ نجاست کا اثر ختم ہوجائے تو یہ جانور جلالہ کی نسبت سے نکل جاتا ہے، لہٰذا اس کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہوتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابو داود، (اردو طبع دارالسلام)
حديث: 3787 کے فوائد)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3189   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1142  
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندگی خور جانور کے گوشت کھانے اور اس کے دودھ پینے سے منع فرمایا ہے۔ نسائی کے علاوہ اسے چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1142»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب النهي عن أكل الجلالة وألبانها، حديث:3785، والترمذي، الأطعمة، حديث:1824، وابن ماجه، الذبائح، حديث:3189، ابن أبي نجيح عنعن، وحديث أبي داود (2557، 2558) يغني عنه.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ سنن ابی داود کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے‘ نیز سنن ابن ماجہ میں مذکورہ حدیث کو حسن قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی قابل حجت ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
2. یہ حدیث گندگی خور جانور کی حرمت کی دلیل ہے۔
3. امام خطابی نے کہا ہے کہ ایک حدیث میں یہ مروی ہے کہ گائے گندگی خور ہو تو اسے چالیس روز چارہ کھلایا جائے‘ پھر اس کے بعد اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔
شارح ترمذی نے تحفۃ الاحوذی (۵ /۴۶۴) میں کہا ہے کہ ابن رسلان شرح السنن میں فرماتے ہیں کہ گندگی خور جانور کو پاک صاف خوراک مہیا کرنے اور اسے گندگی سے بچانے کے لیے اسے بند کر کے رکھنے کی کوئی معین و مقرر مدت نہیں ہے۔
اور بعض کی یہ رائے ہے کہ اونٹ اور گائے کے لیے چالیس روز، بکری کے لیے سات روز اور مرغی کے لیے تین روز کی مدت ہے۔
اسی رائے کو المہذب اور التحریر میں پسند کیا گیا ہے۔
اور سبل السلام میں ہے کہ وقت کی تعیین کے سلسلے میں باہمی مخالفت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہو سکتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1142   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2558  
´گندگی کھانے والے جانور پر سواری منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندگی کھانے والے اونٹوں کی سواری کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2558]
فوائد ومسائل:
دیگر احادیث میں ایسے جانور کا دودھ پینے اور اس کا گوشت کھانے کی بھی ممانعت وارد ہے۔
دیکھئے۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3785)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2558   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.