اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، قال: كنا عند علي فمرت به جنازة فقاموا لها، فقال علي: ما هذا؟ قالوا: امر ابي موسى , فقال:" إنما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم لجنازة يهودية ولم يعد بعد ذلك". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قال: كُنَّا عِنْدَ عَلِيٍّ فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَقَامُوا لَهَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: أَمْرُ أَبِي مُوسَى , فَقَالَ:" إِنَّمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيَّةٍ وَلَمْ يَعُدْ بَعْدَ ذَلِكَ".
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھے (اتنے میں) ایک جنازہ گزرا تو لوگ کھڑے ہو گئے، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوموسیٰ اشعری کا حکم ہے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت کے جنازے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، (پھر) اس کے بعد آپ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن أبى نجيح مدلس وعنعن. وله شاهد ضعيف، عند الحميدي (50 بتحقيقي) وأحمد (1/ 141.142) وغيرهما. وحديث مسلم (962 [2227.2230]) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 371
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1924
´کافر اور مشرک کے جنازے کے لیے نہ کھڑے ہونے کی رخصت کا بیان۔` ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھے (اتنے میں) ایک جنازہ گزرا تو لوگ کھڑے ہو گئے، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوموسیٰ اشعری کا حکم ہے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت کے جنازے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، (پھر) اس کے بعد آپ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1924]
1924۔ اردو حاشیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے علم و رؤیت کی بات کر رہے ہیں ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہونے کی روایات صراحتاً آئی ہیں۔ قولی روایات اس کے علاوہ ہیں۔ جن میں ہر جنازے کا ذکر ہے۔ ان روایات کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اصول حدیث کی رو سے مرجوح ہے۔ عمل ان روایات ہی پر ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا: جا سکتا ہے کہ قیام واجب نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1924
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1544
´جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوئے، پھر آپ بیٹھ گئے، تو ہم بھی بیٹھ گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1544]
اردو حاشہ: فائدہ: حضرت اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونا منسوخ ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب (قام) اور (قمنا) کے لفظ میں استمرار (ایک کام بار بار کرنے) کا مفہوم سمجھا جائے اور یوں ترجمہ کیا جائے۔ نبی ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوتے تھے تو ہم بھی کھڑے ہوتے تھے۔ پھر نبی کریمﷺ بیٹھنے لگے تو ہم نے بھی بیٹھنا شروع کردیا۔ لیکن اس کا ایک دوسرا ترجمہ بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی (قام) اور (قمنا) سے ایک دفعہ کا واقعہ سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ نبی کریمﷺ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوگئے نبی کریمﷺ بیٹھے تو ہم بھی بیٹھ گئے۔ یعنی جب تک نبی کریمﷺ کھڑے رہے ہم بھی کھڑے رہے۔ جب جنازہ گزر گیا تو نبی کریمﷺبیٹھ گئے تب ہم بھی بیٹھ گئے۔ اس صورت میں کھڑا ہونا منسوخ نہیں سمجھاجائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1544