الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
64. بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ:
64. باب: منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے، نیز جو چیز عورت سے لگ جائے اس کا دھونا بھی ضروری ہے۔
(64) Chapter. The washing out of semen with water and rubbing it off (when it is dry) and the washing out of what comes out of women (i.e. discharge).
حدیث نمبر: 230
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا عمرو، عن سليمان، قال: سمعت عائشة. ح وحدثنا مسدد، قال: حدثنا عبد الواحد، قال: حدثنا عمرو بن ميمون، عن سليمان بن يسار، قال: سالت عائشة عن المني، يصيب الثوب؟ فقالت" كنت اغسله من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيخرج إلى الصلاة واثر الغسل في ثوبه بقع الماء".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْمَنِيِّ، يُصِيبُ الثَّوْبَ؟ فَقَالَتْ" كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِي ثَوْبِهِ بُقَعُ الْمَاءِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید نے، کہا ہم سے عمرو نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا (دوسری سند یہ ہے) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے عمرو بن میمون نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس منی کے بارہ میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان (یعنی) پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں باقی ہوتے۔

Narrated `Aisha: as above (229).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 230

   صحيح البخاري229عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء في ثوبه
   صحيح البخاري232عائشة بنت عبد اللهتغسل المني من ثوب النبي ثم أراه فيه بقعة أو بقعا
   صحيح البخاري230عائشة بنت عبد اللهأغسله من ثوب رسول الله فيخرج إلى الصلاة وأثر الغسل في ثوبه بقع الماء
   صحيح البخاري231عائشة بنت عبد اللهأغسله من ثوب رسول الله ثم يخرج إلى الصلاة وأثر الغسل فيه بقع الماء
   صحيح مسلم672عائشة بنت عبد اللهيغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب وأنا أنظر إلى أثر الغسل فيه
   سنن أبي داود373عائشة بنت عبد اللهتغسل المني من ثوب رسول الله قالت ثم أرى فيه بقعة أو بقعا
   سنن النسائى الصغرى296عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه
   بلوغ المرام25عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه
   مسندالحميدي186عائشة بنت عبد اللهولم غسله؟ إني كنت لأفرك المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 230  
´منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے`
«. . . عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْمَنِيِّ، يُصِيبُ الثَّوْبَ؟ فَقَالَتْ " كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِي ثَوْبِهِ بُقَعُ الْمَاءِ " . . . .»
. . . ہم سے عمرو بن میمون نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس منی کے بارہ میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان (یعنی) پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں باقی ہوتے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ:: 230]

تشریح:
باب میں عورت کی شرمگاہ سے تری وغیرہ لگ جانے اور اس کے دھونے کا بھی ذکر تھا۔ مگر احادیث واردہ میں صراحتاً عورت کی تری کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں حدیث نمبر 227 میں کپڑے پر مطلقاً منی لگ جانے کا ذکر ہے۔ خواہ وہ مرد کی ہو یا عورت کی۔ اسی سے باب کی مطابقت ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ منی کو پہلے کھرچنا چاہئیے پھر پانی سے صاف کر ڈالنا چاہئیے پھر بھی اگر کپڑے پر کچھ نشان دھبے باقی رہ جائیں تو ان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ کپڑا پاک صاف ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 230   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 25  
´منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کپڑے پر لگی ہوئی) منی کو دھویا کرتے تھے۔ پھر اسی کپڑے کو زیب تن فرما کر نماز پڑھ لیتے تھے اور میں دھونے کے نشان اور اثر کو صاف طور پر (اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 25]

لغوی تشریح:
«أَفْرُكُهُ» اس میں ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ را کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ جائز ہے۔ باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» اور «ضَرَبَ يَضْرِبُ» دونوں سے آتا ہے۔
«اَلْفَرْك» کے معنی ہیں: مَل کر صاف کرنا یہاں تک کہ نشان اور دھبہ وغیرہ زائل ہو جائے۔
«أَحُكُّهُ» میں بھی ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ حا کے ضمہ کے ساتھ «حَك» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی بھی ملنے اور کھرچنے کے ہیں۔
«يَابِسًا» حال واقع ہوا ہے جس کے معنی خشک کے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خواہ وہ خشک ہو یا تر، بلکہ اس کو زائل کرنے کے لئے جبکہ وہ تر ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ، کپڑے، گھاس یا دیگر اشیاء، مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔
➋ ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ «تَعَبُّدًا» منی کو دھو کر، ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے، اسے مَل کر، کھرچ کر یا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے، لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متاثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّة میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔
➌ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی، داود ظاہری، امام احمد رحمها اللہ اور صحابہ میں سے سیدنا علی، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا ابن عمر اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے، ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد، 3/ 119۔ 126 میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما ER ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنیٰ ہیں۔ 57 یا 58 ہجری کے ماہ رمضان کی 17 تاریخ کو فوت ہوئیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی برأت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے حجرے میں مدفون ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 25   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 229  
´ منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ: 229]

تخريج الحديث:
[165۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 64 باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب المراة 229، مسلم 289]
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ کھرچنے اور دھونے کے بعد بھی اگر منی کے کچھ نشان کپڑے پر باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں اور اس اس کپڑے میں نماز درست ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ منی پاک ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ منی ناک کی رطوبت اور تھوک کی مانند ہے۔ اور تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ اسے کسی کپڑے یا اذخر گھاس سے صاف کر لو۔ [صحيح موقوف: الضعيفة 948، دار قطني 124/1، بيهقي 418/2]
امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [التعليق على سبل السلام للشيخ بسام 65/1، فتح الباري 332/1، نظم الفرائد 231/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 165   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 373  
´کپڑے میں منی لگ جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوتی تھیں، کہتی ہیں کہ پھر میں اس میں ایک یا کئی دھبے اور نشان دیکھتی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 373]
373۔ اردو حاشیہ:
➊ مرد کا مادہ منویہ اگر گاڑھا ہو تو اس کے جرم کا ازالہ کر دینا لازمی ہے، گیلا ہو تو کسی تنکے وغیرہ سے، خشک ہو تو مسلنے یا اکھیڑنے سے دور کر دیا جائے یا اسے دھویا بھی جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں عمل ثابت ہیں، لیکن اگر رقیق ہو تو دھو لینا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کہیں کوئی ویسا حکم نہیں دیا جیسے کہ عورتوں کو خون حیض کے بارے میں ہدایات دیں۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ منی بلغم کی مانند ہے، اسے دور کرو، خواہ گھاس کے تنکے سے ہو۔
➌ یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف آلودہ حصے کو دھو لینا ہی کافی ہوتا ہے، باقی کپڑا پاک رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 373   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 296  
´کپڑے سے منی دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کا اثر دھوتی تھی ۱؎، پھر آپ نماز کے لیے نکلتے، اور پانی کے دھبے آپ کے کپڑے پر باقی ہوتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 296]
296۔ اردو حاشیہ:
➊ جنابت سے سبب جنابت، یعنی منی مراد ہے۔ منی کو کپڑے سے دھونے سے معلوم ہوتا ہے کہ منی پلید ہے اور یہ جمہور اہل علمم کا موقف ہے۔ ان کے بقول مخرج کے لحاظ سے بھی یہ بات زیادہ قوی ہے۔ سابقہ حدیث میں لفظ «أذي» بھی مؤید ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن مجید میں حیض کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور حیض بالاتفاق پلید ہے، جب کہ بعض حضرات جن کے سرخیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، منی کو پاک سمجھتے ہیں۔ باقی رہا دھونا تو یہ نجاست کی دلیل نہیں، بلکہ نظافت کے لیے بھی دھویا جا سکتا ہے، جیسے ناک کی غلاظت یا بلغم وغیرہ کپڑے کو لگ جائے، تب بھی کپڑا دھویا جاتا ہے، خصوصاً جب کہ کئی دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف کپڑا ملنے اور رگڑنے کو کافی سمجھا ہے۔ ویسے بھی منی انبیاء و صلحاء کا مبدا ہے۔ یہ بدبو سے بھی پاک ہے، اس لیے اس مسلک کے حاملین کے نزدیک اسے دوسری پلید چیزوں کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
➋ سارا کپڑا دھونا ضروری نہیں۔ صرف آلودگی والی جگہ دھو لی جائے۔
➌ جس کپڑے سے منی دھوئی جائے، اس کے خشک ہونے سے پہلے نماز کے لیے مسجد میں جایا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 296   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:230  
230. حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے سوال کیا: جس کپڑے کو منی لگ جائے تو (کیسے پاک کیا جائے؟) حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی دھو ڈالتی، پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کے نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:230]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان نجاست منی کی طرف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے ان احادیث پر غسل منی کا عنوان قائم کیا ہے۔
جیسے قبل ازیں غسل بول اور غسل مذی کا عنوان قائم کر چکے ہیں۔
آئندہ ایک عنوان غسل جنابت ہے۔
امام بخاری ؒ جس چیز کے متعلق غسل کا عنوان قائم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک نجس ہوتی ہے۔
آپ نے اس عنوان میں فرک منی کا بھی ذکر کیا ہے۔
وہ اس لیے ہے کہ منی سے تطہیر فرک (کھرچنے)
سے بھی ہو جاتی ہے۔
شریعت اسلامیہ میں طہارت کی مختلف صورتیں ہیں اور اس کے حصول کے بھی متعدد طریقے ہیں، کیونکہ جن چیزوں سے نجاست متعلق ہو جاتی ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ دھونے کے علاوہ دیگر تمام طریقے طہارت کی علامت لازمہ ہیں درست نہیں۔
طہارت کی مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں:
* استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال جائز ہے، پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری نہیں۔
* جوتوں کی نجاست لگی ہو تو انھیں پاک زمین پر رگڑ دیا جائے تو پاک ہو جائیں گے، انھیں دھونے کی ضرورت نہیں۔
* جن چیزوں میں نجاست اندر داخل نہ ہو، جیسے شیشہ وغیرہ ان کی طہارت صرف مسح سے ہو جاتی ہے۔
* زمین نجاست آلود ہو تو خشک ہونے پر خود بخود پاک ہو جائے گی۔
بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا ہی کافی ہے، اسے بھی دھونے کی ضرورت نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں طہارت حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔
اسی طرح اگر کپڑے کو منی لگ جائے تو اس کی طہارت کے دو طریقے ہیں:
اسے دھودیا جائے یا اسے کھرچ ڈالا جائے۔
اب اگر فرک (رگڑنے)
ہی کو دلیل طہارت بنا لیا جائے تو ایسا ہوگا کہ کسی شخص کا موزہ نجاست آلود ہوجائے اور وہ اسے زمین پر رگڑ کر پاک کرلے تو کہا جائے کہ اگر اس کا زمین پر رگڑنا دلیل طہارت ہے تو اس نجاست کے متعلق کیا حکم ہے جو اسے لگی ہوئی ہے اگر فرک منی طہارت منی کے لیے دلیل ہے تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ بیان جواز کے طور پر آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ثبوت ضرور ملنا چاہیے۔
ہاں مفروک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے، کیونکہ فرک بھی منی سے طہارت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کاذکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں کیا ہے۔

منی نجس ہے، اس کی نجاست کے دلائل حسب ذیل ہیں:
۔
* قرآن کریم میں اسے ﴿مَّاءٍ مَّهِينٍ﴾ حقیر پانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(المرسلات77۔
20)

کسی پاکیزہ چیز کے متعلق یہ انداز اختیار نہیں کیا جاتا. * جب حدث اصغر کا سبب پیشاب ناپاک ہے تو حدث اکبر کا سبب منی بطریق اولیٰ ناپاک ہونا چاہیے۔
* صحیح احادیث سے ازالہ منی کا ثبوت غسل، فرک، مسح، حت اور حک کے الفاظ سے ملتا ہے جو اس کی نجاست کے لیے واضح دلیل ہے۔
* حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حفصہ ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ جماع کے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں نجاست کا اثر نہ دیکھتے تو ان میں نماز پڑھ لیتے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 366)
اس میں دو طرح سے منی کی نجاست پر دلیل لی گئی ہے:
۔
* اسے اذی سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حیض کو اذی کہا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ منی ناپاک ہے۔
* رسول اللہ ﷺ کا اس کی موجود گی میں نماز نہ پڑھنا بھی اس کے ناپاک ہونے کی دلیل ہے۔
کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ کپڑے یا جسم پر منی کو بدستورباقی رکھنے کا ثبوت ہوتا۔
حدیث الباب کے الفاظ (كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ)
بھی نجاست منی کی دلیل ہیں۔
اس پر علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے نجاست منی پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ غسل منی نجاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کی گزر گاہ نجس ہے یا بوجہ اختلاط رطوبت فرج ہے۔
(شرح الكرمانی: 82/2)
علامہ عینی کہتے ہیں کہ مستقر منی اور مستقر بول دونوں الگ الگ ہیں۔
اسی طرح ان کے مخرج بھی جدا جدا ہیں۔
لہٰذا گزرگاہ کے نجس ہونے کی بات بے دلیل ہے اور نجاست رطوبت فرج کا مسئلہ بھی اختلافی ہے۔
اس کی وجہ سے بھی استدلال مذکورہ کو کمزور نہیں کہہ سکتے۔
(عمدة القاري: 639/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 230   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.