الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
11. بَابُ شَهَادَةِ الأَعْمَى، وَأَمْرِهِ وَنِكَاحِهِ وَإِنْكَاحِهِ وَمُبَايَعَتِهِ وَقَبُولِهِ فِي التَّأْذِينِ وَغَيْرِهِ، وَمَا يُعْرَفُ بِالأَصْوَاتِ:
11. باب: اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی اور کا نکاح کروانا یا اس کی خرید و فروخت۔
(11) Chapter. The witness of a blind man, his marriage, his affairs, the marriage conducted by him, and his buying and selling; and accepting his call for the Salat (prayer), etc., and what can be known by sound or voice.
حدیث نمبر: 2656
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة، اخبرنا ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذن، او قال حتى تسمعوا اذان ابن ام مكتوم"، وكان ابن ام مكتوم رجلا اعمى، لا يؤذن حتى يقول له الناس اصبحت.حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ، أَوْ قَالَ حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ"، وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ رَجُلًا أَعْمَى، لَا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَقُولَ لَهُ النَّاسُ أَصْبَحْتَ.
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی سالم بن عبداللہ سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ سحری کھا پی سکتے ہو یہاں تک کہ (فجر کے لیے) دوسری اذان پکاری جائے۔ یا (یہ فرمایا) یہاں تک کہ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان سن لو۔ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور جب تک ان سے کہا نہ جاتا صبح ہو گئی ہے، وہ اذان نہیں دیتے تھے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet said, "Bilal pronounces the Adhan when it is still night (before dawn), so eat and drink till the next Adhan is pronounced (or till you hear Ibn Um Maktum's Adhan)." Ibn Um Maktum was a blind man who would not pronounce the Adhan till he was told that it was dawn.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 824

   صحيح البخاري2656عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن أو قال حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم
   صحيح البخاري7248عبد الله بن عمربلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم
   صحيح البخاري617عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم ثم قال وكان رجلا أعمى لا ينادي حتى يقال له أصبحت أصبحت
   صحيح البخاري620عبد الله بن عمربلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم
   صحيح مسلم2537عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم
   صحيح مسلم2536عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم
   جامع الترمذي203عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم
   سنن النسائى الصغرى638عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم
   سنن النسائى الصغرى639عبد الله بن عمربلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم
   بلوغ المرام151عبد الله بن عمر‏‏‏‏إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم74عبد الله بن عمرإن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم
   مسندالحميدي623عبد الله بن عمرأن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 151  
´طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے`
«. . . وعن ابن عمر وعائشة رضي الله عنهم قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا بلال (رضی اللہ عنہ) رات کو اذان کہتا ہے تم لوگ ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) کی اذان تک کھا پی لیا کرو . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 151]

لغوی تشریح:
«يُؤَذَّنُ بِلَيْلِ» رات کو اذان کہنے کا مطلب ہے کہ طلوع فجر سے قبل اذان کہتا ہے۔
«فَكُلُوا وَاشْرَبُوا» کھاؤ پیو سے مراد ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو سحری کا وقت باقی ہے، کھا پی سکتے ہو۔
«إِدْرَاجٌ» کا مطلب ہے: حدیث میں راوی کا اپنی طرف سے تشریح و توضیح کی صورت میں اضافہ کرنا۔ ادراج سے مراد یہاں «وَكَانَ رَجُلًا أَعْمٰي» کا فقرہ ہے جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یا زہری رحمہ اللہ کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسری اذان وقت سے مؤخر کر کے دی جاتی تھی کیونکہ اطلاع دینے والا سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو یا تو فجر کے طلوع ہونے کے قریب اطلاع دیتا یا جب فجر کا کچھ حصہ نمودار ہو جاتا اس وقت انہیں مطلع کرتا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے لیکن یہ اذان اس غرض کے لیے نہیں ہوتی جس غرض کے لیے معمول کی اذان دی جاتی ہے بلکہ اس سے مقصود سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے کہ وہ انہیں اور نماز کی تیاری کریں۔ یا تہجد گزاروں کو آگاہ کرنا تاکہ نماز ختم کر لیں اور فجر کے لئے تیار ہوئیں۔
➋ ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ زیادہ نہیں ہوتا تھا، زیادہ سے زیادہ 10، 15 منٹ کا وقفہ ہو گا۔
➌ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسجد میں نماز کی اذان دینے کے لیے دو مؤذن رکھنا درست ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 151   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 74  
´تہجد کی اذان`
«. . . 281- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں پس کھاؤ اور پیو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 74]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صبح کی اذان سے پہلے رات کی اذان مسنون ہے جسے آج کل سحری یا تہجد کی اذان کہا جاتا ہے۔
➋ جس حدیث میں آیا ہے کہ صبح کی پہلی اذان میں «الصلوٰة خير من النوم» کہو، اس سے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ والی رات کی اذان مراد لینا غلط ہے بلکہ صبح کی دو اذانیں ہوتی ہیں: ① صبح کی اذان ② اقامت
اس میں اقامت کے بجائے صبح کی پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا چاہئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ «من السنة إذا قال المؤذن فى أذان الفجر، حي على الفلاح قال: الصلوٰة خير من النوم۔» جب مؤذن اذانِ فجر میں حی علیٰ الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا سنت ہے۔ [صحيح ابن خزيمه ج1 ص202 ح386 وسنده صحيح وصححه البيهقي 1/423]
اس حدیث سے ابوجعفر الطحاوی نے استدلال کیا ہے کہ یہ الفاظ صبح کی اذان میں کہنے چاہئیں۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 1/137] تفصیلی دلائل کے لئے دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 1/423] اور شیخ امین اللہ پشاور ی کی کتاب [فتاويٰ الدين الخالص ج3 ص223 225]
◄ شیخ امین اللہ حفظہ اللہ فرماتے ہیں: «وإن قول الشيخ الألباني حفظه الله ضعيف فى هذه المسئلة» بے شک شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول اس مسئلے میں ضعیف ہے۔ [فتاويٰ الدين الخالص ج3 ص225]
➌ نابینا مؤذن کو اگر لوگ صحیح وقت بتا دیں تو اس کا اذان دینا صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 281   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 638  
´ایک مسجد میں دو مؤذن ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں تو تم لوگ کھاؤ پیو ۱؎ یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 638]
638 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر ایک نماز کے لیے دو اذانیں ہوں (جیسے فجر اور جمعۃ المبارک) تو مؤذن بھی دو چاہئیں تاکہ آواز کا امتیاز رہے اور لوگ پہلی اور دوسری اذان میں امتیاز کرسکیں۔
➋ آپ کے دور مبارک میں صلاۃ فجر کے لیے دو اذانیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک فجرکے طلوع سے پہلے تاکہ لوگ جاگ جائیں اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہولیں کیونکہ قدرتی طور پر اس وقت باقی نمازوں کے اوقات کے مقابل میں زیادہ مصروفیت ہوتی ہے۔ اگر ایک اذان پر اکتفا کرتے تو لوگ جماعت سے رہ جاتے اور دوسری اذان طلوع فجر کے بعد نماز فجر کا قرب ظاہر کرنے کے لیے تاکہ لوگ گھروں سے چل پڑیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت میں زیادہ فاصلہ نہیں فرماتے تھے بلکہ اندھیرے میں نماز شروع فرماتے تھے۔ پہلی اذان بلال رضی اللہ عنہ کہتے اور دوسری ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔
➌ پہلی اذان نہ تو تہجد کے لیے تھی نہ سحری کے لیے، بلکہ یہ اصل اذان سے تھوڑی دیر قبل ہوتی تھی۔ مقصد اوپر بیان ہو چکا ہے۔ تہجد نفل ہیں اور نفل نماز کے لیے اذان نہیں، جیسے صلاۃ عید، صلاۃ کسوف، صلاۃ استسقا اور تراویح وغیرہ، لہٰذا تہجد کے لیے بھی اذان نہیں ہو گی۔ سحری ویسے ہی اذان سے غیر متعلق ہے۔ اذان نماز کے لیے ہے نہ کہ کھانے کے لیے۔ ہاں! ان دو اذانوں سے کوئی سحری کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا لے، منع نہیں جیسا کہ حدیث کے اندر اشارہ موجود ہے۔ مزید اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 638   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 203  
´رات ہی میں اذان دے دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 203]
اردو حاشہ:
1؎:
اور یہی راجح ہے،
کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی،
نیز آپ ﷺ نے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا،
بلکہ نماز فجر کے لیے بلال اذان دیا کرتے۔

2؎:
شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظر عمر والا یہی اثر رہا ہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہونے کا وہم ہو گیا ہو،
گویا انہیں یوں کہنا چاہئے کہ عمر کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا،
لیکن وہ وہم کے شکار ہو گئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 203   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2656  
2656. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔ یافرمایا: حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب ؓ کی اذان سنو۔ ابن مکتوم ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2656]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت باب سے ظاہر ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے، کھانا پینا چھوڑدیتے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔
اس سے بھی نابینا کی گواہی کا اثبات مقصود ہے اور ان لوگوں کی تردید جو نابینا کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2656   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2656  
2656. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔ یافرمایا: حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب ؓ کی اذان سنو۔ ابن مکتوم ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2656]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ طریقہ تھا کہ حضرت بلال ؓ فجر کی پہلی اذان دیتے جبکہ سحری کھانے پینے کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، پھر طلوع فجر کے عام وقت پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ اذان دیتے اور ان کی آواز سے کھانا پینا بند کر دیا جاتا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے، حالانکہ وہ نابینا شخص تھے۔
اس سے بھی نابینے کی گواہی ثابت کرنا مقصود ہے۔
اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو نابینے کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
بہرحال نابینے شخص کو جس طریقے سے بھی کسی چیز کا علم ہو جائے اس کے متعلق وہ گواہی دے سکتا ہے، اس کے لیے مشاہدے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ابن ام مکتوم ؓ کے نابینا ہونے کے باوجود ان کا اذان دینا قبول کیا گیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2656   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.