حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، انها قالت: " خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، فاطال القراءة ثم ركع، فاطال الركوع ثم رفع راسه، فاطال القراءة هي دون الاولى، ثم ركع فاطال الركوع وهو دون الاول، ثم رفع راسه فسجد، ثم فعل مثل ذلك في الركعة الثانية ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، وبهذا الحديث يقول الشافعي، واحمد، وإسحاق: يرون صلاة الكسوف اربع ركعات في اربع سجدات، قال الشافعي: يقرا في الركعة الاولى بام القرآن، ونحوا من سورة البقرة سرا إن كان بالنهار، ثم ركع ركوعا طويلا نحوا من قراءته، ثم رفع راسه بتكبير، وثبت قائما كما هو، وقرا ايضا بام القرآن ونحوا من آل عمران، ثم ركع ركوعا طويلا نحوا من قراءته، ثم رفع راسه، ثم قال: " سمع الله لمن حمده "، ثم سجد سجدتين تامتين ويقيم في كل سجدة نحوا مما اقام في ركوعه، ثم قام فقرا بام القرآن ونحوا من سورة النساء ثم ركع ركوعا طويلا نحوا من قراءته، ثم رفع راسه بتكبير وثبت قائما، ثم قرا نحوا من سورة المائدة ثم ركع ركوعا طويلا نحوا من قراءته، ثم رفع، فقال: " سمع الله لمن حمده "، ثم سجد سجدتين، ثم تشهد وسلم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ هِيَ دُونَ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَسَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: يَرَوْنَ صَلَاةَ الْكُسُوفِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَنَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ سِرًّا إِنْ كَانَ بِالنَّهَارِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ بِتَكْبِيرٍ، وَثَبَتَ قَائِمًا كَمَا هُوَ، وَقَرَأَ أَيْضًا بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ تَامَّتَيْنِ وَيُقِيمُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ نَحْوًا مِمَّا أَقَامَ فِي رُكُوعِهِ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ بِتَكْبِيرٍ وَثَبَتَ قَائِمًا، ثُمَّ قَرَأَ نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِهِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ تَشَهَّدَ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور لمبی قرأت فرمائی، پھر آپ نے رکوع کیا تو رکوع بھی لمبا کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور لمبی قرأت فرمائی، یہ پہلی قرأت سے کم تھی، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے ہلکا تھا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی حدیث کی بناء پر کہتے ہیں کہ گرہن کی نماز میں چار سجدوں میں چار رکوع ہے۔ شافعی کہتے ہیں: پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھے اور سورۃ البقرہ کے بقدر، اگر دن ہو تو سری قرأت کرے، پھر قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھائے۔ اور کھڑا رہے جیسے پہلے کھڑا تھا اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور آل عمران کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے۔ پھر «سمع الله لمن حمده» کہے۔ پھر اچھی طرح دو سجدے کرے۔ اور ہر سجدے میں اسی قدر ٹھہرے جتنا رکوع میں ٹھہرا تھا۔ پھر کھڑا ہو اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور سورۃ نساء کے بقدر قرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنا سر اٹھائے اور سیدھا کھڑا ہو، پھر سورۃ المائدہ کے برابر قرأت کرے۔ پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے، پھر سر اٹھائے اور «سمع الله لمن حمده» کہے، پھر دو سجدے کرے پھر تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔
صلى يوم خسفت الشمس فقام فكبر فقرأ قراءة طويلة ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع رأسه فقال سمع الله لمن حمده وقام كما هو ثم قرأ قراءة طويلة وهي أدنى من القراءة الأولى ثم ركع ركوعا طويلا وهي أدنى من الركعة الأولى ثم سجد سجودا طويلا ثم فعل في الركعة الآخرة مثل ذلك ث
خسفت الشمس فقام النبي فقرأ سورة طويلة ثم ركع فأطال ثم رفع رأسه ثم استفتح بسورة أخرى ثم ركع حتى قضاها وسجد ثم فعل ذلك في الثانية إنهما آيتان من آيات الله فإذا رأيتم ذلك فصلوا حتى يفرج عنكم لقد رأيتنى في مقامي هذا كل شيء وعدته حتى
صلى رسول الله بالناس فأطال القراءة ثم ركع فأطال الركوع ثم رفع رأسه فأطال القراءة هي دون الأولى ثم ركع فأطال الركوع وهو دون الأول ثم رفع رأسه فسجد ثم فعل مثل ذلك في الركعة الثانية
كسفت الشمس في حياة رسول الله فخرج رسول الله فصلى بالناس فقام فحزرت قراءته فرأيت أنه قرأ بسورة البقرة وساق الحديث ثم سجد سجدتين ثم قام فأطال القراءة فحزرت قراءته فرأيت أنه قرأ بسورة آل عمران
لما كسفت الشمس على عهد رسول الله توضأ وأمر فنودي أن الصلاة جامعة فقام فأطال القيام في صلاته قالت عائشة فحسبت قرأ سورة البقرة ثم ركع فأطال الركوع ثم قال سمع الله لمن حمده ثم قام مثل ما قام ولم يسجد ثم ركع فسجد ثم قام فصنع مثل ما صنع ركعت
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1187
´نماز کسوف کی قرآت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تو میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو مجھے لگا کہ آپ نے سورۃ البقرہ کی قرآت کی ہے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی، میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورۃ آل عمران کی قرآت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1187]
1187. اردو حاشیہ: اس نماز میں قراءت حتی المقدور خوب لمبی ہونی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1187
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1188
´نماز کسوف کی قرآت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرآت کی اور اس میں جہر کیا یعنی نماز کسوف میں۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1188]
1188۔ اردو حاشیہ: مذکوہ بالا دونوں احادیث کے درمیان جمع و تطبیق یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ فاصلے پر تھیں۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأءت صاف سن نہ سکی تھیں، آواز سنی اس لئے جانا کہ قرأءت جہراً ہو رہی ہے لیکن یہ نہ جان سکیں کہ قرأءت کیا ہو رہی ہے، اس لئے اس کا اندازہ لگایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1188
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1190
´نماز کسوف (سورج یا چاند گرہن کی نماز) کے اعلان کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز (کسوف) جماعت سے ہو گی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1190]
1190۔ اردو حاشیہ: نماز کسوف کے لئے اعلان عام تو مستحب ہے، مگر معروف اذان و اقامت نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1190
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 402
´نماز کسوف کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز میں قرآت بلند آواز سے کی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ (بخاری و مسلم) اور اس حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرنے والے کو بھیجا جو «الصلاة جامعة» کی عنادی کرتا تھا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 402»
تخریج: «أخرجه البخاري، الكسوف، باب الجهر با لقراءة في الكسوف، حديث:1065، ومسلم، الكسوف، باب صلاة الكسوف، حديث:901.»
تشریح: 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف میں قراء ت بلند آواز سے فرمائی۔ 2. یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز عام نمازوں کی طرح نہیں بلکہ اس میں ایک رکوع کا اضافہ ہے۔ اس روایت کی رو سے آپ ایک رکعت میں دو رکوع فرماتے۔ اور یہی موقف راجح ہے جیسا کہ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ظاہر ہے ہر رکوع سے اٹھ کر نئے سرے سے قراء ت کی ہوگی۔ اس طرح قراء ت کا بھی اضافہ ہوا۔ 3.اس کا خاص وقت مقرر و متعین نہیں ہے‘ جب سورج یا چاند کو گرہن ہوگا اسی وقت نماز پڑھی جائے گی۔ 4.عام نمازوں کے لیے تو اذان مقرر ہے اور صلاۃ کسوف و خسوف کے لیے «اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ» کہنا مشروع ہے۔ پنجگانہ نماز کے لیے یہ کہنا ثابت نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 402
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 563
´گرہن کی نماز میں قرأت کا طریقہ۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 563]
اردو حاشہ: نوٹ:
(متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی سفیان بن حسین امام زہری سے روایت میں ضعیف ہیں۔ دیکھیے صحیح أبی داود: 1074)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 563