الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
8. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ
8. باب: سورۃ الاعراف سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3076
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة، وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور، ثم عرضهم على آدم، فقال: اي رب من هؤلاء؟ قال: هؤلاء ذريتك، فراى رجلا منهم فاعجبه وبيص ما بين عينيه، فقال: اي رب من هذا؟، فقال: هذا رجل من آخر الامم من ذريتك يقال له: داود، فقال: رب كم جعلت عمره؟، قال: ستين سنة، قال: اي رب زده من عمري اربعين سنة، فلما قضي عمر آدم جاءه ملك الموت، فقال: اولم يبق من عمري اربعون سنة؟، قال: اولم تعطها ابنك داود، قال: فجحد آدم، فجحدت ذريته، ونسي آدم فنسيت ذريته، وخطئ آدم فخطئت ذريته "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَسَقَطَ مِنْ ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ، ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ، فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ يُقَالُ لَهُ: دَاوُدُ، فَقَالَ: رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَهُ؟، قَالَ: سِتِّينَ سَنَةً، قَالَ: أَيْ رَبِّ زِدْهُ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَلَمَّا قُضِيَ عُمْرُ آدَمَ جَاءَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ: أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً؟، قَالَ: أَوَلَمْ تُعْطِهَا ابْنَكَ دَاوُدَ، قَالَ: فَجَحَدَ آدَمُ، فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنُسِّيَ آدَمُ فَنُسِّيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَخَطِئَ آدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّيَّتُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا: میرے رب! کون ہیں یہ لوگ؟ اللہ نے کہا: یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں، پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا: اے میرے رب! یہ کون ہے؟ اللہ نے فرمایا: تمہاری اولاد کی آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے۔ اسے داود کہتے ہیں: انہوں نے کہا: میرے رب! اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے کہا: ساٹھ سال، انہوں نے کہا: میرے رب! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے، پھر جب آدم کی عمر پوری ہو گئی، ملک الموت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو نے اپنے بیٹے داود کو دے نہیں دیئے تھے؟ آپ نے فرمایا: تو آدم نے انکار کیا، چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔ آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطاکار بن گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12325) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: الظلال (206)، تخريج الطحاوية (220 و 221)
   جامع الترمذي3076عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور ثم عرضهم على آدم فقال أي رب من هؤلاء قال هؤلاء ذريتك فرأى رجلا منهم فأعجبه وبيص ما بين عينيه فقال أي رب من هذا فقال هذا رجل من آخ
   مشكوة المصابيح118عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 118  
´اولاد آدم کا بیان`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدم مسح ظَهره فَسقط من ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالَ هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَين عَيْنَيْهِ فَقَالَ أَي رب من هَذَا فَقَالَ هَذَا رجل من آخر الْأُمَم من ذريتك يُقَال لَهُ دَاوُدُ فَقَالَ رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمُرَهُ قَالَ سِتِّينَ سنة قَالَ أَي رب زده من عمري أَرْبَعِينَ سنة فَلَمَّا قضي عمر آدم جَاءَهُ ملك الْمَوْت فَقَالَ أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمُرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أولم تعطها ابْنك دَاوُد قَالَ فَجحد آدم فَجحدت ذُريَّته وَنسي آدم فنسيت ذُريَّته وخطئ آدم فخطئت ذُريَّته» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو ان کی پشت پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ ان کی پیٹھ سے تمام وہ جانیں نکل پڑیں جن کو ان کی اولاد سے قیامت تک پیدا کرنے والا تھا پھر ان میں سے ہر ایک انسان کے دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک پیدا کر دی پھر ان سب کو آدم کے سامنے پیش کیا۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! یہ کون لوگ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ سب تیری اولاد ہیں۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی دونوں انکھوں کے درمیان کی چمک کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے پوچھا یہ شخص کون ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہارے بیٹے داؤد ہیں، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! ان کی کتنی عمر مقرر کی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ساٹھ برس کی۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میرے رب! میری عمر سے ان کی عمر میں چالیس برس اور بڑھا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام کی عمر ختم ہو چکی مگر چالیس سال (یعنی ان کی عمر میں سے چالیس سال) باقی رہ گئے تو موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ میری عمر میں سے ابھی چالیس سال باقی نہیں رہے؟ موت کے فرشتہ نے کہا کہ کیا آپ نے اپنی عمر میں سے اپنے بیٹے داؤد کو چالیس سال نہیں دئیے تھے؟ پس آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کر دیا تو ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے اور وہ بھول گئے (یعنی ممنوع درخت کے پھل کو کھا لیا) تو ان کی الاد بھی بھولتی ہے اور خطا کرتی ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 118]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم نے بھی صحیح کہا ہے۔ [حاکم 586/2]

فقہ الحدیث:
➊ اس روایت میں نور سے مراد ایمان کا نور اور فطرت سلیمہ ہے۔
➋ بھول جانا انسانی فطرت میں شامل ہے۔
➌ یہ حدیث سورۃ الاعراف کی آیت: 172 کی شرح میں ہے۔
➍ سیدنا داؤد علیہ السلام بہت خوبصورت تھے۔
➎ ہر جاندار کی عمر اتنی ہوتی ہے جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور جب موت کا مقرر وقت آتا ہے تو پھر اسے کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔
➏ لمبی زندگی سے محبت فطرت انسانی میں شامل ہے۔
➐ سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک جتنے بھی انسان ہیں وہ سب کے سب آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی اولاد ہیں یعنی سیدنا آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 118   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.