الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 118
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور ثم عرضهم على آدم فقال اي رب من هؤلاء قال هؤلاء ذريتك فراى رجلا منهم فاعجبه وبيص ما بين عينيه فقال اي رب من هذا فقال هذا رجل من آخر الامم من ذريتك يقال له داود فقال رب كم جعلت عمره قال ستين سنة قال اي رب زده من عمري اربعين سنة فلما قضي عمر آدم جاءه ملك الموت فقال اولم يبق من عمري اربعون سنة قال اولم تعطها ابنك داود قال فجحد آدم فجحدت ذريته ونسي آدم فنسيت ذريته وخطئ آدم فخطئت ذريته» . رواه الترمذي ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدم مسح ظَهره فَسقط من ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالَ هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَين عَيْنَيْهِ فَقَالَ أَي رب من هَذَا فَقَالَ هَذَا رجل من آخر الْأُمَم من ذريتك يُقَال لَهُ دَاوُدُ فَقَالَ رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمُرَهُ قَالَ سِتِّينَ سنة قَالَ أَي رب زده من عمري أَرْبَعِينَ سنة فَلَمَّا قضي عمر آدم جَاءَهُ ملك الْمَوْت فَقَالَ أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمُرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أولم تعطها ابْنك دَاوُد قَالَ فَجحد آدم فَجحدت ذُريَّته وَنسي آدم فنسيت ذُريَّته وخطئ آدم فخطئت ذُريَّته» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم ؑ کو پیدا کیا تو ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پشت سے وہ تمام روحیں، جنہیں اس نے ان کی اولاد سے روز قیامت تک پیدا کرنا تھا، نکل آئیں، اور ان میں سے ہر انسان کی پیشانی پر نور کا ایک نشان لگا دیا، پھر انہیں آدم ؑ پر پیش کیا تو انہوں نے عرض کیا: میرے پروردگار! یہ کون ہیں؟ فرمایا: تمہاری اولاد، پس انہوں نے ان میں ایک شخص کو دیکھا تو اس کی پیشانی کا نشان انہیں بہت اچھا لگا، تو انہوں نے عرض کیا، میرے پروردگار! یہ کون ہیں؟ فرمایا: داؤد ؑ، تو انہوں نے ع��ض کیا، میرے پروردگار! آپ نے اس کی کتنی عمر مقرر کی ہے؟ فرمایا: ساٹھ سال، انہوں نے عرض کیا: پروردگار! میری عمر سے چالیس سال اسے مزید عطا فرما دے۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب آدم ؑ کی عمر کے چالیس برس باقی رہ گئے تو ملک الموت ان کے پاس آیا تو آدم ؑ نے فرمایا: کیا میری عمر کے چالیس برس باقی نہیں رہتے؟ اس نے جواب دیا کیا آپ نے وہ اپنے بیٹے داؤد ؑ کو نہیں دیے تھے؟ آدم ؑ نے انکار کر دیا، اسی طرح اس کی اولاد نے بھی انکار کیا، آدم ؑ بھول گئے اور اس درخت سے کچھ کھا لیا، تو اب اس کی اولاد بھی بھول جاتی ہے، اور آدم ؑ نے خطا کی اور اس کی اولاد بھی خطا کار ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3076 وقال: ھذا حديث حسن صحيح) [وصححه الحاکم 2/ 586]»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   جامع الترمذي3076عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور ثم عرضهم على آدم فقال أي رب من هؤلاء قال هؤلاء ذريتك فرأى رجلا منهم فأعجبه وبيص ما بين عينيه فقال أي رب من هذا فقال هذا رجل من آخ
   مشكوة المصابيح118عبد الرحمن بن صخرلما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 118  
´اولاد آدم کا بیان`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدم مسح ظَهره فَسقط من ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالَ هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَين عَيْنَيْهِ فَقَالَ أَي رب من هَذَا فَقَالَ هَذَا رجل من آخر الْأُمَم من ذريتك يُقَال لَهُ دَاوُدُ فَقَالَ رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمُرَهُ قَالَ سِتِّينَ سنة قَالَ أَي رب زده من عمري أَرْبَعِينَ سنة فَلَمَّا قضي عمر آدم جَاءَهُ ملك الْمَوْت فَقَالَ أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمُرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أولم تعطها ابْنك دَاوُد قَالَ فَجحد آدم فَجحدت ذُريَّته وَنسي آدم فنسيت ذُريَّته وخطئ آدم فخطئت ذُريَّته» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو ان کی پشت پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ ان کی پیٹھ سے تمام وہ جانیں نکل پڑیں جن کو ان کی اولاد سے قیامت تک پیدا کرنے والا تھا پھر ان میں سے ہر ایک انسان کے دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک پیدا کر دی پھر ان سب کو آدم کے سامنے پیش کیا۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! یہ کون لوگ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ سب تیری اولاد ہیں۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی دونوں انکھوں کے درمیان کی چمک کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے پوچھا یہ شخص کون ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہارے بیٹے داؤد ہیں، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! ان کی کتنی عمر مقرر کی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ساٹھ برس کی۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میرے رب! میری عمر سے ان کی عمر میں چالیس برس اور بڑھا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام کی عمر ختم ہو چکی مگر چالیس سال (یعنی ان کی عمر میں سے چالیس سال) باقی رہ گئے تو موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ میری عمر میں سے ابھی چالیس سال باقی نہیں رہے؟ موت کے فرشتہ نے کہا کہ کیا آپ نے اپنی عمر میں سے اپنے بیٹے داؤد کو چالیس سال نہیں دئیے تھے؟ پس آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کر دیا تو ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے اور وہ بھول گئے (یعنی ممنوع درخت کے پھل کو کھا لیا) تو ان کی الاد بھی بھولتی ہے اور خطا کرتی ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 118]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم نے بھی صحیح کہا ہے۔ [حاکم 586/2]

فقہ الحدیث:
➊ اس روایت میں نور سے مراد ایمان کا نور اور فطرت سلیمہ ہے۔
➋ بھول جانا انسانی فطرت میں شامل ہے۔
➌ یہ حدیث سورۃ الاعراف کی آیت: 172 کی شرح میں ہے۔
➍ سیدنا داؤد علیہ السلام بہت خوبصورت تھے۔
➎ ہر جاندار کی عمر اتنی ہوتی ہے جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور جب موت کا مقرر وقت آتا ہے تو پھر اسے کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔
➏ لمبی زندگی سے محبت فطرت انسانی میں شامل ہے۔
➐ سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک جتنے بھی انسان ہیں وہ سب کے سب آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی اولاد ہیں یعنی سیدنا آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 118   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.