الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
25. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
(25) Chapter. The signs of Prophethood in Islam.
حدیث نمبر: 3571
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو الوليد، حدثنا سلم بن زرير، سمعت ابا رجاء، قال: حدثنا عمران بن حصين انهم كانوا مع النبي صلى الله عليه وسلم"في مسير فادلجوا ليلتهم حتى إذا كان وجه الصبح عرسوا، فغلبتهم اعينهم حتى ارتفعت الشمس فكان اول من استيقظ من منامه ابو بكر، وكان لا يوقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم من منامه حتى يستيقظ فاستيقظ عمر فقعد ابو بكر عند راسه فجعل يكبر، ويرفع صوته حتى استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم فنزل وصلى بنا الغداة فاعتزل رجل من القوم لم يصل معنا فلما انصرف، قال: يا فلان ما يمنعك ان تصلي معنا، قال: اصابتني جنابة فامره ان يتيمم بالصعيد، ثم صلى وجعلني رسول الله صلى الله عليه وسلم في ركوب بين يديه وقد عطشنا عطشا شديدا، فبينما نحن نسير إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، فقلنا لها: اين الماء، فقالت: إنه لا ماء، فقلنا: كم بين اهلك وبين الماء، قالت: يوم وليلة، فقلنا: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وما رسول الله فلم نملكها من امرها حتى استقبلنا بها النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته بمثل الذي حدثتنا غير انها حدثته، انها مؤتمة فامر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا اربعين رجلا حتى روينا فملانا كل قربة معنا وإداوة غير، انه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء ثم، قال: هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى اتت اهلها، قالت: لقيت اسحر الناس او هو نبي كما زعموا فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة فاسلمت واسلموا".حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ، سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فِي مَسِيرٍ فَأَدْلَجُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ عَرَّسُوا، فَغَلَبَتْهُمْ أَعْيُنُهُمْ حَتَّى ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ لَا يُوقَظُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ فَاسْتَيْقَظَ عُمَرُ فَقَعَدَ أَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ وَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا، قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، ثُمَّ صَلَّى وَجَعَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكُوبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ لَا مَاءَ، فَقُلْنَا: كَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، فَقُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا حَتَّى اسْتَقْبَلْنَا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ بِمِثْلِ الَّذِي حَدَّثَتْنَا غَيْرَ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا مُؤْتِمَةٌ فَأَمَرَ بِمَزَادَتَيْهَا فَمَسَحَ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ غَيْرَ، أَنَّهُ لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا وَهِيَ تَكَادُ تَنِضُّ مِنَ الْمِلْءِ ثُمَّ، قَالَ: هَاتُوا مَا عِنْدَكُمْ فَجُمِعَ لَهَا مِنَ الْكِسَرِ وَالتَّمْرِ حَتَّى أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقِيتُ أَسْحَرَ النَّاسِ أَوْ هُوَ نَبِيٌّ كَمَا زَعَمُوا فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، انہوں نے ابورجاء سے سنا کہ ہم سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جاگے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپ خود ہی جاگتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی جاگ گئے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا۔ (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لو (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آخر ہم اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے، اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لیے واجب الرحم ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھر لیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے (کھانے کی چیزوں میں سے) میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دیں گئیں۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں، وہ واقعی نبی ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

Narrated `Imran bin Husain: That they were with the Prophet on a journey. They travelled the whole night, and when dawn approached, they took a rest and sleep overwhelmed them till the sun rose high in the sky. The first to get up was Abu Bakr. Allah's Apostles used not to be awakened from his sleep, but he would wake up by himself. `Umar woke up and then Abu Bakr sat by the side of the Prophet's head and started saying: Allahu-Akbar raising his voice till the Prophet woke up, (and after traveling for a while) he dismounted and led us in the morning prayer. A man amongst the people failed to join us in the prayer. When the Prophet had finished the prayer, he asked (the man), "O so-and-so! What prevented you from offering the prayer with us?" He replied, "I am Junub," Alllah's Apostle ordered him to perform Tayammam with clean earth. The man then offered the prayer. Allah's Apostle ordered me and a few others to go ahead of him. We had become very thirsty. While we were on our way (looking for water), we came across a lady (riding an animal), hanging her legs between two water-skins. We asked her, "Where can we get water?" She replied, "Oh ! There is no water." We asked, "how far is your house from the water?" She replied, "A distance of a day and a night travel." We said, "Come on to Allah's Apostle, "She asked, "What is Allah's Apostle ?" So we brought her to Allah's Apostle against her will, and she told him what she had told us before and added that she was the mother of orphans. So the Prophet ordered that her two water-skins be brought and he rubbed the mouths of the water-skins. As we were thirsty, we drank till we quenched our thirst and we were forty men. We also filled all our waterskins and other utensils with water, but we did not water the camels. The waterskin was so full that it was almost about to burst. The Prophet then said, "Bring what (foodstuff) you have." So some dates and pieces of bread were collected for the lady, and when she went to her people, she said, "I have met either the greatest magician or a prophet as the people claim." So Allah guided the people of that village through that lady. She embraced Islam and they all embraced Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 771

   صحيح البخاري348عمران بن الحصينعليك بالصعيد فإنه يكفيك
   صحيح البخاري3571عمران بن الحصينأمره أن يتيمم بالصعيد ثم صلى أمر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا أربعين رجلا حتى روينا فملأنا كل قربة معنا وإداوة غير أنه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى أتت أهلها قالت لقيت أسحر الناس أو هو نبي كما
   صحيح مسلم1563عمران بن الحصينأمره رسول الله فتيمم بالصعيد فصلى
   سنن النسائى الصغرى322عمران بن الحصينعليك بالصعيد فإنه يكفيك
   بلوغ المرام110عمران بن الحصين‏‏‏‏إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 110  
´تیمّم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے `
«. . . فقال: «‏‏‏‏إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا» ‏‏‏‏،‏‏‏‏ ثم ضرب بيديه الارض ضربة واحدة ثم مسح الشمال على اليمين وظاهر كفيه ووجهه . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مارا پھر بائیں کو دائیں پر ملا اپنے ہاتھوں کی پشت اور چہرے پر . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 110]

لغوی تشریح:
«فَأَجْنَبْتُ» میں جنبی ہو گیا۔
«فَتَمَرَّغْتُ» لوٹ پوٹ ہوا۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث قول و فعل دونوں اعتبار سے یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمّم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے اور صرف ہتھیلیوں کی اندرونی و بیرونی سطح پر مسح کرنا ہے، کہنیوں تک نہیں، اس مسئلے میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ اس کے مقابلے میں جو دوسری روایات ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر موقوف، جو اس حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ [سبل السلام]
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمّم میں چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ جمہور محدثین و فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ احناف اور شوافع دو ضربوں کے قائل ہیں۔ ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہاتھوں کے لیے۔
➌ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ حدیث جمہور کی دلیل ہے۔ اس مسئلے میں صحیح ترین روایت ہونے کے اعتبار سے اسی پر عمل ہے۔
➍ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے پانی نہ ملنے پر اپنی عقل و دانش سے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کا عمل اختیار کیا کہ جب پانی سے غسل کیا جاتا ہے تو سارا بدن دھویا جاتا ہے اور مٹی بھی چونکہ پانی کے قائم مقام ہے، اس لیے سارے جسم پر مٹی لگنی چاہیے۔
➎ نص کا علم نہ ہونے کی بنا پر انہوں نے ایسا عمل کیا ورنہ نص کی موجودگی میں مجتہد کے قیاس کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا جب قیاس، نص کے مخالف ہو تو اس صورت میں کسی کے لیے بھی یہ روا نہیں کہ وہ نص کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے زمین پر اپنی ہتھیلیاں ماریں اور ان پر پھونک ماری، لہٰذا ضرب لگانے کے بعد پھونک مارنا بھی مسنون ہے۔
➐ ایک جنبی کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں اتنا تیمّم کر لینا کفایت کر جاتا ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما) عین پر فتحہ اور میم پر فتحہ اور تشدید ہے۔ ان کی کنیت ابویقظان تھی۔ سابقین اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ میں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں مگر ان کے پایہ ثبات میں ذرہ بھر لرزش نہ آئی۔ دونوں ہجرتیں، یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کیں۔ غزوہ بدر سمیت سارے معرکوں میں شمولیت کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: افسوس، اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ 36 ہجری میں معرکہ صفین میں یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں سے ایک باغی اور سرکش گروہ نے ان کو قتل کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 73 برس تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 110   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 322  
´مٹی سے تیمم کرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھا، اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے اور پانی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) مٹی کو لازم پکڑو کیونکہ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 322]
322۔ اردو حاشیہ: تیمم کن چیزوں سے کیا جا سکتا ہے؟ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 322   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3571  
3571. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3571]
حدیث حاشیہ:
اس قصہ کے بیان میں اختلاف ہے۔
مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ واقعہ خیبر سے نکلنے کے بعد پیش آیا اور ابوداود میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ یہ تبوک کے سفر کا واقعہ ہے اور ابوداود میں ایک اور روایت کی روسے اس واقعہ کا تعلق غزوہ جیش الامراءسے معلوم ہوتا ہے۔
ایک جماعت مؤرخین نے کہا ہے کہ ا س نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا ہے یہی ان روایات میں تطبیق ہے (توشیح)
.... یہاں آپ کی دعا سے پانی میں برکت ہوگئی۔
یہی معجزہ وجہ مطابقت باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3571   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3571  
3571. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3571]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے معجزات کے بجائے علامات کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ معجزات اور کرامات دونوں کی شامل ہو۔
معجزے میں نبی کو جھٹلانے والوں کے لیے چیلنج ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کام کردکھایا ہے جو خرق عادت ہے اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔

اس عنوان کے تحت معجزات،کرامات،آئندہ پیش آنے والے واقعات اور قیامت کی علامات بیان ہوں گی۔

دور نبوت میں خرق عادت پیش آنے والے واقعات کو معجزہ اور قبل از نبوت عادت کے خلاف واقعات کو ارہاص کہا جاتا ہے۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے پانی میں برکت ہوگئی۔
یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ قلیل پانی سے چالیس آدمی سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے مشکیزے اور برتن بھی بھرلیے لیکن مشکوں کا پانی ذرا بھربھی کم نہ ہوا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے،چنانچہ خیبر سے نکلنے کےبعد،حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد،تبوک کو جاتے ہوئے اور غزوہ جیش الامراء(غزوہ موتہ)
میں اس قسم کے واقعات پیش آئے،یعنی ایک ہی نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کا نکلنا،پتھر سے پانی نکلنے کی نسبت زیادہ وزنی ہے کیونکہ پتھر سے پانی نکل آنا خلاف عادت نہیں،البتہ گوشت اور خون کے درمیان سے پانی کا نکلنا عام عادت کے خلاف ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 715/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3571   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.