الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
The Book of Provision (Outlay)
1. بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الأَهْلِ:
1. باب: جورو بچوں پر خرچ کرنے کی فضیلت۔
(1) Chapter. And the superiority of providing for one’s family.
حدیث نمبر: 5354
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عامر بن سعد، عن سعد رضي الله عنه، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يعودني وانا مريض بمكة، فقلت: لي مال اوصي بمالي كله؟ قال: لا، قلت: فالشطر، قال: لا، قلت: فالثلث، قال: الثلث والثلث كثير ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس في ايديهم ومهما انفقت، فهو لك صدقة حتى اللقمة ترفعها في في امراتك ولعل الله يرفعك ينتفع بك ناس ويضر بك آخرون".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ: لِي مَالٌ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرِ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ، قَالَ: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ وَمَهْمَا أَنْفَقْتَ، فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ وَلَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ يَنْتَفِعُ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرُّ بِكَ آخَرُونَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں سعید بن ابراہیم نے، ان سے عامر بن سعد رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لایے۔ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے پاس مال ہے۔ کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر آدھے کی کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں! میں نے کہا، پھر تہائی کی کر دوں (فرمایا) تہائی کی کر دو اور تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج و تنگ دست چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے وہ ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جب بھی خرچ کرو گے تو وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا۔ یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھنے کے لیے اٹھاؤ گے اور امید ہے کہ ابھی اللہ تمہیں زندہ رکھے گا، تم سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا اور بہت سے دوسرے (کفار) نقصان اٹھائیں گے۔

Narrated Sa`d: The Prophet visited me at Mecca while I was ill. I said (to him), "I have property; May I bequeath all my property in Allah's Cause?" He said, "No." I said, "Half of it?" He said, "No." I said, "One third of it?" He said, "One-third (is alright), yet it is still too much, for you'd better leave your inheritors wealthy than leave them poor, begging of others. Whatever you spend will be considered a Sadaqa for you, even the mouthful of food you put in the mouth of your wife. Anyhow Allah may let you recover, so that some people may benefit by you and others be harmed by you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 64, Number 266

   صحيح البخاري5659سعد بن مالكاللهم اشف سعدا أتمم له هجرته فما زلت أجد برده على كبدي فيما يخال إلي حتى الساعة
   صحيح البخاري2744سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أوصى الناس بالثلث وجاز ذلك لهم
   صحيح البخاري6373سعد بن مالكالثلث كثير أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت حتى ما تجعل في في امرأتك
   صحيح البخاري4409سعد بن مالكالثلث كثير أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس
   صحيح البخاري6733سعد بن مالكالثلث كبير إن تركت ولدك أغنياء خير من أن تتركهم عالة يتكففون الناس لن تنفق نفقة إلا أجرت عليها حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك آأخلف عن هجرتي فقال لن تخلف
   صحيح البخاري56سعد بن مالكلن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت عليها حتى ما تجعل فى فم امرأتك
   صحيح البخاري3936سعد بن مالكالثلث كثير أن تذر ذريتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس لست بنافق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا آجرك الله بها حتى اللقمة تجعلها في في امرأتك أخلف بعد أصحابي قال
   صحيح البخاري5668سعد بن مالكالثلث كثير أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت عليها ما تجعل في في امرأتك
   صحيح البخاري5354سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس في أيديهم مهما أنفقت فهو لك صدقة حتى اللقمة ترفعها في في امرأتك لعل الله يرفعك ينتفع بك ناس ويضر بك آخرون
   صحيح البخاري1295سعد بن مالكلن تخلف فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة لعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون اللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم
   صحيح مسلم4215سعد بن مالكالثلث والثلث كثير إن صدقتك من مالك صدقة إن نفقتك على عيالك صدقة إن ما تأكل امرأتك من مالك صدقة أن تدع أهلك بخير أو قال بعيش خير من أن تدعهم يتكففون الناس وقال بي
   صحيح مسلم4209سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس لست تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها حتى اللقمة تجعلها في في امرأتك لن تخلف فتعمل عملا صالحا تبتغي به وجه الله إلا ازددت به درجة ورفعة ولعلك تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك
   صحيح مسلم4214سعد بن مالكالثلث كثير
   صحيح مسلم4212سعد بن مالكالثلث قال فسكت بعد الثلث قال فكان بعد الثلث جائزا
   جامع الترمذي2116سعد بن مالكالثلث والثلث كثير إن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس لن تنفق نفقة إلا أجرت فيها حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك يا رسول الله أخلف
   جامع الترمذي975سعد بن مالكالثلث والثلث كثير
   سنن أبي داود3104سعد بن مالكاللهم اشف سعدا أتمم له هجرته
   سنن أبي داود2864سعد بن مالكاللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم لكن البائس سعد بن خولة يرثي له رسول الله أن مات بمكة
   سنن النسائى الصغرى3656سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أن تترك ورثتك أغنياء خير لهم من أن تتركهم عالة يتكففون الناس
   سنن النسائى الصغرى3657سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس يتكففون في أيديهم
   سنن النسائى الصغرى3665سعد بن مالكالثلث والثلث كثير
   سنن النسائى الصغرى3661سعد بن مالكالثلث والثلث كثير
   سنن النسائى الصغرى3658سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس ما في أيديهم
   سنن النسائى الصغرى3662سعد بن مالكالثلث والثلث كثير
   سنن النسائى الصغرى3660سعد بن مالكالثلث والثلث كثير أن تترك بنيك أغنياء خير من أن تتركهم عالة يتكففون الناس
   سنن ابن ماجه2708سعد بن مالكالثلث والثلث كثير إن تترك ورثتك أغنياء خير من أن تتركهم عالة يتكففون الناس
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم389سعد بن مالكالثلث والثلث كثير او كبير. إنك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله. إلا اجرت بها، حتى ما تجعل فى فى امراتك
   مسندالحميدي66سعد بن مالكلا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 389  
´اپنے تمام مال میں سے صرف ثلث (ایک تہائی) دینا ہی جائز ہے`
«. . . ثم قال: الثلث والثلث كثير أو كبير. إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله. إلا أجرت بها، حتى ما تجعل فى فى امرأتك . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرا حصہ صدقہ کر لو اور تیسرا حصہ بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے وارثوں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ امیر ہوں تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ غریب ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں تم اﷲ کی رضا مندی کے لیے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا حتی کہ تم اپنی بیوی کو جو نوالہ کھلاتے ہو توا س کا بھی اجر ملے گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 389]

تخریج الحدیث:
[واخرجه البخاري 1295، من حديث مالك به ورواه مسلم 1628، من حديث الزهري به من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه
➊ ورثاء کے ہوتے ہوئے وصیت میں (صدقہ ہو یا ہبہ) اپنے تمام مال میں سے صرف ثلث (ایک تہائی) دینا ہی جائز ہے۔ اس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے تاہم کوئی وارث نہ ہو تو بعض علماء کے نزدیک سارا مال صدقہ کرنا جائز ہے۔
➋ اس روایت میں بعض راویوں نے عام الفتح یعنی حجۃ الوداع کے بدلے فتح مکہ کا سال روایت کیا ہے لیکن راجح یہی ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
➌ مریض موت کے وقت جو بھی صدقہ، ہبہ یا غلام آزاد کرے گا تو اس کے ترکے کے ایک تہائی سے ہی ادا ہو گا۔
➍ قرآن مجید کی تخصیص صحیح حدیث سے جائز ہے کیونکہ اس حدیث نے وصیت کے عمومی حکم کو مخصوص کر دیا ہے۔
➎ بعض علماء نے کہا ہے کہ وارثوں کی رضا مندی کے ساتھ ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے۔
➏ اگر مرنے والا غریب ہے تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک تہائی کی بھی وصیت نہ کرے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے لئے مال چھوڑ جائے تاکہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں۔
➐ اگر مفضول بیمار ہو تو سنت یہی ہے کہ افضل آدمی بھی اس کی عیادت (بیمار پرسی) کے لئے اس کے پاس جائے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من عاد مريضًا خاض فى الرحمة حتي إذا قعد استقرفيها۔» جو شخص کسی مریض کی بیمارپرسی کرتا ہے تو رحمت (ہی رحمت) میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہ بیٹھتا ہے تو (رحمت) میں قرار پکڑ لیتا ہے۔ [الادب المفرد للبخاري: 522 و سنده حسن وله طريق آخر عند أحمد 3٠4/3 وابن حبان فى صحيحه: 711 والحاكم 35٠/1 والبزار: 775 وسنده حسن]
➑ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جو چیز اللہ کی رضا مندی کے لئے خرچ کی جائے تو اس کا اجر ملے گا۔ إن شاء اللہ
➒ اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا اور ان کی حسب استطاعت مدد کرنا بھی نیک کاموں اور صدقات میں سے ہے جس کا اجر ان شاء اللہ ملے گا۔
➓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی کیونکہ آپ کا یہ فرمانا: تمہاری وجہ سے ایک قوم کو فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کو نقصان ہو گا۔ غیب کی خبر ہے جو کہ من و عن پوری ہوئی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہے اور ایران آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا اور کفار کو نقصان ہوا۔ غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ خبر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔ والحمدللہ
اس حدیث سے اور بھی بہت سے فائدے معلوم ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ مہاجر ہجرت کے بعد اپنے آبائی علاقے میں دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا۔ مومن بھائی کی وفات پر اس کا مرثیہ کہنا یا لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس مرثیے میں غلو، مبالغہ اور جھوٹ شامل نہ ہو۔
نیز مصیبت پر تاسف اور اظہار ہمدردی کرنا مسنون ہے اور یہ بھی کہ اصل مصیبت دین اور اعمال کا نقصان ہے۔ «وغيرذلك»
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 68   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 185  
´دن و رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں`
«. . . 267- مالك عن عمه أبى سهيل بن مالك عن أبيه أنه سمع طلحة بن عبيد الله يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد، ثائر الرأس، يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يسأل عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خمس صلوات فى اليوم والليلة، فقال: هل على غيرهن؟ قال: لا، إلا أن تطوع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وصيام رمضان، قال: هل على غيره؟ قال: لا، إلا أن تطوع، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل على غيرها؟ قال: لا، إلا أن تطوع، قال: فأدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفلح إن صدق. . . .»
. . . سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان (پانچوں) کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نوافل پڑھو۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: کیا اس (زکوٰۃ) کے علاوہ اور بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں الا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی صدقے دو۔، پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے پیٹھ پھیر کر روانہ ہوا: اللہ کی قسم! میں ان پر نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 185]

تخریج الحدیث: [واخراجه البخاري 56، ومسلم 11، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا دارومدار عقائد کے بعد اعمال اور فرائض کی ادائیگی پر ہے تاہم سنن ونوافل کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئے کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ جب فرائض میں کمی ہوگی تو سنن ونوافل کام آئیں گے۔
➋ اہلِ نجد میں سے آدمی کون تھا؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ ابن بطال وابن العجمی وغیرہما کا خیال ہے کہ وہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ [شرح ابن بطال 1/97 والتوضيح لمبهمات الجامع الصحيح لابن العجمي، قلمي ص13،]
اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ دیکھئے تفقہ: 6
➌ اسلام فرائض واعمال کا نام ہے معلوم ہوا کہ مرجئه کا عقیدہ باطل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔
➍ اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے جب کہ دوسری احادیث سے حج کا فرض ہونا ثابت ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر ایک دلیل میں کوئی مسئلہ مذکور نہیں اور دوسری دلیل میں مسئلہ مذکور ہے تو اسی کا اعتبار ہوگا، اس حالت میں عدمِ ذکر کو عدمِ شئی کی دلیل نہیں بنایا جائے گا۔
بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے۔ اس کی تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درج ذیل قول سے بھی ہوتی ہے:
«ليس الوتر بحتم كالصلوة ولكنه سنة فلا تدعوه»
وتر (فرض) نماز کی طرح ضروری (واجب) نہیں ہے، لیکن یہ سنت ہے اسے نہ چھوڑو۔ [مسند أحمد 1/107 ح842 وسنده حسن،]
ایک شخص ابومحمد نامی نے کہا: کہ وتر واجب ہے تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ (بدری صحابی) نے فرمایا: کذب ابومحمد ابومحمد نے جھوٹ (غلط) کہا ہے۔ [سنن ابي داؤد: 1420، وسنده حسن، مؤطا امام مالك 123/1، وصحيحه ابن حبان، الموارد 252، 253]
➏ عربی زبان میں بلند وسخت جگہ کو نَجد اور پست اور نچلی زمین کو غَور کہتے ہیں۔ دیکھئے القاموس الوحید [ص 1611، 1189]
عرب کے علاقے یں بہت سے نجد ہیں۔ مثلاً نجدبرق، نجدخال، نجد عفر، نجد کبکب اور نجد مریع [ديكهئے معجم البلدان 262/5،]
تہامہ سے عراق کی زمین تک نجد ہے۔ [لسان العرب 413/3،]
جن احادیث میں قرن الشیطان، زلزلوں اور فتنوں والے نجد کا ذکر ہے، ان سے مراد نجد العراق ہے دیکھئے [اكمل البيان فى شرح حديث نجد قرن الشيطان] (از حکیم محمد اشرف سندھو) اور فتنوں کی سرزمین نجد یا عراق (از رضاءاللہ عبدالکریم)
حدیثِ ہٰذا میں جس نجدی کا ذکر ہے وہ جلیل القدر صحابی (ضمام بن ثعلبہ) رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ اوپر گزرا ہے (نمبر2) نیز دیکھئے [الاصابة ص627 ت4342]
➐ جن احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ادھر سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور ادھر سے فتنے وزلزلے ہوں گے۔ ان سے مراد عراق والا نجد ہے۔ مسند أحمد میں آیا ہے کہ (سیدنا) ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عراق کی طرف اشارہ کررہے تھے اور فرمارہے تھے: «ها، ان الفنته ها هنا، ان الفتنه ها هنا۔ ثلاث مرات۔ من حيث يطلع قرن الشيطان۔» خبردار، فتنہ ادھر سے ہے، خبردار فتنہ ادھر سے ہے۔ آپ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی۔ جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [مسند أحمد 2/143 ح6302 وسنده صحيح،
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے بارے میں کئی دفعہ برکت کی دعا فرمائی۔ کہا گیا: اور عراق کے بارے میں (دعا فرمائیں)؟ تو آپ نے فرمایا: « [إن] بھا الزلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطان۔» وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ [المعجم الكبير للطبراني 12/384 ح13422، وسنده حسن]
عراق کے لفظ کے ساتھ اسی طرح کی روایت ابونعیم الاصبہانی کی کتاب «حلية الاولياء» میں بھی موجود ہے۔ [ج6 ص133، وسنده حسن]
سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ نے عراقیوں سے کہا: اے عراق والو! ہم تم سے کسی چھوٹی چیز کے بارے میں نہیں پوچھتے تو بڑی چیز کے بارے میں کس طرح پوچھ سکتے ہیں؟ میں نے اپنے ابا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: فتنہ ادھر سے آئے گا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور تم ایک دوسرے کو قئل کروگے۔۔۔ [صحيح مسلم: 50/2905، دارالسلام: 7297]
معلوم ہوا کہ نجد میں شیطان کا سینگ نکلنے سے مراد عراق والا نجد ہے لہٰذا بعض اہلِ بدعت کا نجد سے نجدِ حجاز یا نجدِ ریاض مراد لینا غلط ہے۔ ➑ نیز دیکھئے ح363
➒ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے وگرنہ آپ یہ نہ فرماتے: «أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ» ۔ تفكر جدًا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 267   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 56  
´عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 56]

تشریح:
ان جملہ احادیث میں جملہ اعمال کا دارومدار نیت پر بتلایا گیا۔ امام نووی کہتے ہیں کہ ان کی بنا پر حظ نفس بھی جب شریعت کے موافق ہو تو اس میں بھی ثواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 56   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5354  
5354. سیدنا سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے جبکہ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے (آپ ﷺ سے) عرض کی: میرے پاس مال ہے، کیا میں سارے مال کی وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں میں نے کہا: آدھے مال کی کر دوں؟آپ نے فرمایا: نہیں میں نے کہا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تہائی کی کر دو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے انہیں محتاج اور تنگدست چھوڑو وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور جو بھی تم اپنے اہل عیال پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی ثواب ملے گا جوتم اپنی بیوی کے منہ میں رکھنے کے لیے اٹھاؤ گے۔ امید ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں زندہ رکھے گا۔ تم سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5354]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسی امید ظاہر فرمائی تھی، اللہ نے اس کو پورا کیا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وفات نبوی کے بعد مدت دراز تک زندہ رہے۔
عراق کاملک انہوں نے ہی فتح کیا۔
کافروں کوزیر کیا اوروہ مدتوں عراق کے حاکم رہے۔
صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
سعد رضی اللہ عنہ عشرئہ مبشرہ میں سے ہیں۔
17 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے اور کچھ اوپر ستر سال کی عمر پائی اور سنہ 55 ھ میں انتقال ہوا۔
مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ طیبہ میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ و عنا أجمعین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5354   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2708  
´تہائی مال تک وصیت کرنے کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر آدھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: تو ایک تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے، تمہارا اپنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2708]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کےحقوق میں شامل ہے اور یہ بہت بڑا نیک عمل ہے
(2)
  جب انسان محسوس کرے کہ اس کا آخری وقت قریب ہے تو اس وقت اسے ترکے کے تہائی حصے سے زیادہ صدقے کی وصیت نہیں کرنی چاہیے۔

(3)
اگر کوئی شخص تہائی حصے سے زیادہ کی وصیت کرکے فوت ہوجائے تو اس کی وصیت پر صرف تہائی ترکےتک عمل کیا جائے گا۔ (دیکھئے حدیث: 2345)

(4)
بہتر یہ ہے کہ تہائی مال سے کم وصیت کی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے تہائی کی اجازت دینے کے باوجود اسے زیادہ فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے۔ (دیکھئے حدیث: 2711)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2708   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2116  
´ایک تہائی مال کی وصیت کے جواز کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار پڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: دو تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: نہیں، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: ایک تہائی کی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎، تم اپن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2116]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے،
اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے،
اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہے،
البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے،
یہ بھی معلوم ہواکہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہترہے۔

2؎:
آپ ﷺ نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیاتھا وہ پوری ہوئی،
چنانچہ سعد اس مرض سے شفا یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی،
ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا،
ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق 50 ھ میں ہواتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2116   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2864  
´وصیت کرنے والے کے لیے جو چیز ناجائز ہے اس کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے: مکہ میں، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پوچھا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا: تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2864]
فوائد ومسائل:

مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
اس لئے اسے حلال ذرائع سے کمانا اور پھر جمع رکھنا کوئی معیوب نہیں، بشرط یہ کہ شرعی واجبات ادا کرتا رہے۔
مال جمع ہونے کی صورت میں ہی ایک مسلمان زکواۃ، حج، جہاد، قربانی، صدقہ، ورثہ اور وصیت جیسے احکام پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
ورنہ مدات پرعمل محال ہوگا۔
اور جن آیات وحدیث میں مال جمع کرنے کی مذمت ہے۔
وہاں حرام مال کمانے شریعت کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اس کا محض حریص بننے کی مذمت ہے۔


تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔


فقیروں کی نسبت وارثوں کا حق اولیٰ ہے۔
اور انہیں غنی چھوڑ جانا مستحب اور فقیرچھوڑ جانانا پسندیدہ ہے۔
سوائے اس کے کہ وہ توکل کے اعلیٰ مراتب پرہوں۔


واجب اخراجات اور تمام اعمال صالحہ جو راہ للہ کیے جایئں ان سب میں انسان کواجر وثواب ملتا ہے۔
اور درجات بلند ہوتے ہیں۔


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد تقریبا چوالیس برس حیات رہے۔
اور عراق انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔
مشہور اور فیصلہ کن جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے کمانڈر آپ ہی تھے۔


اس وقت واجب تھا کہ جس علاقے کے مسلمانوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی ہو وہاں قیام نہیں کرسکتے۔
اس لئے یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ سفر میں بھی وہاں موت نہ آئے۔
اور حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر صحابی تھے۔
پہلے ہجرت حبشہ ثانیہ میں حبشہ گئے وہاں سے لوٹے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔
بالاخرحجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ میں فوت ہوئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2864   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5354  
5354. سیدنا سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے جبکہ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے (آپ ﷺ سے) عرض کی: میرے پاس مال ہے، کیا میں سارے مال کی وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں میں نے کہا: آدھے مال کی کر دوں؟آپ نے فرمایا: نہیں میں نے کہا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تہائی کی کر دو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے انہیں محتاج اور تنگدست چھوڑو وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور جو بھی تم اپنے اہل عیال پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی ثواب ملے گا جوتم اپنی بیوی کے منہ میں رکھنے کے لیے اٹھاؤ گے۔ امید ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں زندہ رکھے گا۔ تم سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5354]
حدیث حاشیہ:
(1)
اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا آپس کی دل لگی ہے، طاعات سے نہیں، لیکن اس سے جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس سے نیت حصول ثواب کی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے بھی ثواب عطا فرمائے گا۔
اس سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق جو امید ظاہر کی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کر دکھایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ عرصۂ دراز تک زندہ رہے۔
انہوں نے عراق اور دیگر ممالک فتح کیے۔
ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے اور کافروں کو مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے 55 ہجری مین وفات پائی۔
مروان بن حکم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ طیبہ میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5354   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.