الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
The Book of Medicine
34. بَابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ:
34. باب: سورۃ الفاتحہ سے دم جھاڑ کرنے میں (بکریاں لینے کی) شرط لگانا۔
(34) Chapter. The conditions required for doing a Ruqya with Surat Al-Fatiha.
حدیث نمبر: 5737
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثني سيدان بن مضارب ابو محمد الباهلي، حدثنا ابو معشر البصري هو صدوق يوسف بن يزيد البراء، قال: حدثني عبيد الله بن الاخنس ابو مالك، عن ابن ابي مليكة، عن ابن عباس: ان نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء فيهم لديغ او سليم، فعرض لهم رجل من اهل الماء، فقال: هل فيكم من راق؟ إن في الماء رجلا لديغا او سليما، فانطلق رجل منهم فقرا بفاتحة الكتاب على شاء، فبرا، فجاء بالشاء إلى اصحابه، فكرهوا ذلك، وقالوا: اخذت على كتاب الله اجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله اخذ على كتاب الله اجرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله".حَدَّثَنِي سِيدَانُ بْنُ مُضَارِبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ صَدُوقٌ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْبَرَّاءُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ، فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ؟ إِنَّ فِي الْمَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى شَاءٍ، فَبَرَأَ، فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَكَرِهُوا ذَلِكَ، وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ".
ہم سے سیدان بن مضارب ابو محمد باہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعشر یوسف بن یزید البراء نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن اخنس ابو مالک نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا (لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شبہ تھا) ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: Some of the companions of the Prophet passed by some people staying at a place where there was water, and one of those people had been stung by a scorpion. A man from those staying near the water, came and said to the companions of the Prophet, "Is there anyone among you who can do Ruqya as near the water there is a person who has been stung by a scorpion." So one of the Prophet's companions went to him and recited Surat-al-Fatiha for a sheep as his fees. The patient got cured and the man brought the sheep to his companions who disliked that and said, "You have taken wages for reciting Allah's Book." When they arrived at Medina, they said, ' O Allah's Apostle! (This person) has taken wages for reciting Allah's Book" On that Allah's Apostle said, "You are most entitled to take wages for doing a Ruqya with Allah's Book."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 633


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5007  
موجودہ دور میں ایک خاص فکر کے حاملین دینی امور پر اجرت کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خواہ دم پر اجرت لی جائے، خواہ قرآنی و دینی تعلیم پر و ظیفہ و معاوضہ قبول کیا جائے سب ناجائز و حرام ہے۔ حالانکہ قرآن کریم اور دینی امور پر اجرت دو طرح سے ہو سکتی ہے۔
(1) دم کی اجرت:
اس کے جواز پر تمام اہل عل کا اتفاق ہے۔

(2) قرآن کریم کی تعلیم اور دیگر دینی امور پر اجرت:
اسے امت میں سے صرف متقدمین احناف نے ناجائز قرار دیا، لیکن ان کے گھر ہی سے اس فتوے کو رد کر دیا گیا۔ خود بعد والے احناف نے اس شاذ فتوے کو قیاس کے ذریعے رد کرتے ہوئے دینی امور پر اجرت کو جائز قرار دیا۔ یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ سے دینی امور پر اجرت کا ناجائز ہونا ثابت نہیں ہے۔ محض بعض احناف کا اس کی نسبت امام صاحب کی طرف کر دینا، اس کے ثبوت کی دلیل نہیں ہے۔

یوں مسلمانوں کے نزدیک شرعی دلائل کی روشنی میں قرآن مجید کی تعلیم اور دینی امور پر اجرت شرعا جائز ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں۔

➊ فقیہ الامت، امام بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴-۲۵۶ھ) نے اس حدیث کو کتاب الا جارۃ (اُجرت کے بیان) اور کتاب الطبّ (علاج کے بیان) میں ذکر کر کے یہ ثابت کیا یہ کہ قرآن کریم اور دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے۔

٭ شارح صحیح بخاری، علامہ ابوالحسن، علی بن خلف، ابن بطال رحمہ اللہ (م: ۴۴۹ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
«ولا فرق بين الأجرة على الرقَى، وعلى تعليم القرآن ؛ لأن ذلك كله منفعة . وقوله عليه السلام: إن أحق ما أخذتم عليه أجرًا ؛ كتاب الله هو عام يدخل فيه إباحة التعليم وغيره.»
دم کے معاوضے اور قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں معاملات منفعت پر مبنی ہیں، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اجرت لینے کے حوالے سے سب سے بہترین چیز کتاب اللہ ہے، یہ فرمان عام ہے اور اسں میں تعلیم وغیرہ پر اجرت کا جواز بھی شامل ہے۔ [شرح صحیح البخاری: 6/ 406، مکتبة الرشد، الریاض، 2003ء]

٭مشہور حنفی، علامہ ابو محمد، محمود بن احمد، عینی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:
«مطابقته للترجمة من حيث إن فيه جواز الأجرة لقرائة القرآن، وللتعليم أيضا، وللرقيا به أيضا لعموم اللفظ.»
اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت اس طرح سے ہے کہ اس میں قرآن کریم پڑھ کر، اس کی تعلیم دے کر اور اس کا دم کر کے اجرت لینے کا جواز ہے، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں عموم ہے۔ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري:95/12، دار إحياء التراث العربي، بيروت]

٭علامہ محمد بن اسماعیل، امیر صنعانی رحمہ اللہ (۱۰۹۹۔۱۱۸۲ھ) لکھتے ہیں:
«وذكر البخاري لهذه القصة فى هذا الباب وإن لم تكن من الأجرة على التعليم وإنما فيها دلالة على جواز أخذ العوض فى مقابلة قراءة القرآن لتأييد جواز أخذ الأجرة على قراءة القرآن تعليماً أو غيره إذ لا فرق بين قراءته للتعليم وقراءته للطب.»
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قصہ کو قرآن کریم پر اجرت کے بیان میں ذکر کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں تعلیم پر اجرت کا بیان نہیں ہوا، لیکن اس میں قرآن کریم پڑھنے کے بدلے معاوضہ لینے کا ذکر ضرور ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیم یا کسی دوسرے مقصد (علاج) کے لیے قرآن کریم کی قرأت پر اجرت جائز قرار دینے کے لیے اس حدیث کو بیان کیا ہے، کیوں کہ تعلیم یا علاج کے لیے قرآن کریم پڑھنے میں کوئی فرق نہیں۔ [سبل السلام في شرح بلوغ المرام: 117/2، دارالحديث]

➋ اہل سنت کے سرتاج، امام شافعی رحمہ اللہ (۱۵۰-۲۰۴ھ) سے نقل کرتے ہوئے امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ورخص الشافعي للمعلم أن يأخذ على تعليم القرآن أجرا، ويري له أن يشترط على ذلك، واجتج بهذا الحديث.»
امام شافعی رحمہ اللہ نے مُعَلِّم کے لیے رخصت دی ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کے عوض اجرت لے سکتا ہے۔ وہ اس کے لیے (پیشگی) طے کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ امام صاحب نے اسی حدیث سے استدلال فرماتے ہے۔ [سنن الترمذی، تحت الحدیث: 2063]

➌ فقیہہ و محدث، حافظ، ابو سلیمان، حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (۳۱۹۔۳۸۸ھ) لکھتے ہیں:
اس حدیث سے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کا جواز بیان ہوا ہے۔ اگر یہ حرام ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو یہ بکریاں واپس کرنے کا حکم فرماتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کو درست قرار دیا اور فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ہے، نیز اس اجرت کو بھی پسند فرمایا جو انہوں نے لی تھی، مزید یہ بھی فرمایا کہ اپنے ساتھ میرا حصہ بھی نکالو، تو ان سب باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دینی امور پر اُجرت بہر صورت جائز ہے۔ [معالم السنن:101/3، المطبعة العلمیّة، حلب، 1932ء]

➍ امام ابن حبان رحمہ اللہ (م:۳۵۴ھ) نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے:
«ذكر الإخبار عن إباحة المرء الأجرة على كتاب الله جل وعلا.»
کتاب اللہ پر اجرت لینے کے جواز پر دلالت کرنے والی حدیث کا بیان۔ [صحيح ابن حبان:546/11، قبل الحديث:5146، مؤسسة الرسالة، بيروت،1993ء]

➎ حافظ علی بن احمد بن سعید، ابن حزم رحمہ اللہ (۳۸۴-۴۵۶ھ) فرماتے ہیں:
قرآن کریم اور حدیث کی تعلیم پر ماہانہ یا یک مشت اجرت لینا سب جائز ہے۔ نیز دم کرنے، مصاحف (قرآن کریم) لکھنے اور کتب احادیث کی کتابت کرنے کی اجرت بھی جائز ہے، کیوں کہ اس سے ممانعت کی کوئی دلیل (وحی الٰہی میں) وارد نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اس کا جواز ثابت ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی سند سے ہمیں بیان کیا گیا ہے۔ [المحلّٰی بالآثار:18/7، دارالفکر، بیروت]

➏ امام بیہقی رحمہ اللہ (۳۸۴-۴۵۸ھ) کی باب بندی کے الفاظ یہ ہیں:
«باب أخذ الأجر علی كتاب الله تعالیٰ.» کتاب اللہ پر اجرت لینے کا بیان۔ [السنن الکبریٰ:397/7، دارالکتب العلمیة، بیروت، 2003ء]

٭نیز ایک مقام پر یوں رقم طراز ہیں:
«باب أخذ الأجرة علی تعليم القرآن والرقية به.» قرآن کریم کی تعلیم اور دم پر اجرت لینے کا بیان۔ [ایضاً: 205/6]

➐حافظ ابو محمد، حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ (م: ۵۱۶ھ) فرماتے ہیں:
اس حدیث میں دلیل ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینا اور اسے طے کرنا جائز ہے۔ امام عطاء بن ابو رباح اور امام حکم بن عتیبہ کا یہی مذہب ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور ابو ثور رحمہم اللہ یہی فرماتے ہیں۔ امام حکم تو فرماتے ہیں: میں نے کسی بھی فقیہ کو دینی امور پر اجرت کو مکروہ کہتے نہیں سنا۔ اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ قرآن کریم اور ذکر الٰہی کے ساتھ دم کیا جا سکتا ہے اور اس پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔ [شرح السنة:268/8، المكتب الإسلامي، بيروت، 1983]

➑ شارح صحیح مسلم، حافظ ابو زکریا، یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (۶۳۱۔۶۷۶ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان سے بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ نکالو، اس بات میں صریح ہے کہ سورہ فاتحہ اور ذکر الہیٰ کے ذریعے دم کرنے کی اجرت لینا جائز و حلال ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں۔ یہی حکم قرآن کریم کی تعلیم کا بھی ہے۔ امام شافعی، امام مالک، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوثور، دیگر اسلاف اور بعد میں آنے والے اہل علم کا یہی مذہب تھا۔ ہاں، امام ابو حنیفہ نے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت سے منع کیا ہے،البتہ دم پر اجرت کی انہوں نے بھی اجازت دی ہے۔ [المنھاج شرح مسلم بن الحجاج:188/14، دار إحياء التراث العربي، بيروت، 1392ھ]

➒ مشہور مفسر، علامہ، ابو عبداللہ، محمد بن احمد قرطبی رحمہ اللہ (۶۰۰-۶۷۱ھ) لکھتے ہیں:
قرآنی تعلیم پر اجرت لینے کو امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ابوثور اور اکثر علما جائز قرار دیتے ہیں، کیوں کہ صحیح بخاری میں مذکور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دم والی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مذکور ہے کہ سب سے بہترین اجرت وہ ہے جو کتاب اللہ پر لی جائے۔ یہ فرمان نبوی نص ہے، جو اختلاف کو ختم کر رہی ہے، لہٰذا اس پر اعتماد کرنا ضروری ہے۔ [الجامع الأحكام القرآن تفسير القرطبي:335/1، دارالكتب المصرية، القاھرة،1964ء]

کیا یہ حق ضیافت تھا؟
بعض لوگ اس حدیث سے صریحاً ثابت ہونے والے مسئلے کا انکار کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ بکریاں دم کی اجرت کے طور پر نہیں بلکہ حق ضیافت کے طور پر لی گئی تھیں، کیونکہ انہوں نے ضیافت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
٭پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح الفاظ کے صریحا خلاف ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح الفاظ میں نہ صرف قرآن کریم کی اجرت کہا، بلکہ اسے بہترین اجرت بھی قرار دیا۔
٭دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کے کسی بھی طریق میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں جس سے صحابہ کرام کا حق ضیافت کے طور پر بکریاں لینا ثابت ہوتا ہو۔ اسلاف امت میں سے بھی کسی نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔
٭تیسری بات یہ ہے کہ اسلاف امت اور فقہائے اسلام نے اسے دم کی اجرت ہی قرار دیا ہے، حق ضیافت نہیں۔
٭ اصل بات یہ ہے کہ اگرچہ ان لوگوں نے حق ضیافت دینے سے انکار کیا تھا، لیکن صحابہ کرام نے ان سے حق ضیافت نہیں، بلکہ دم کا معاوضہ لیا تھا۔

ایک حدیث سے استدلال:
بعض لوگ اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن نزلتم بقوم فامر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف.»
اگر تم کسی قوم کے پاس پڑاؤ ڈالو اور تمہیں مہمان کے شایان شان ضیافت مل جائے تو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے حق مہمان (زبردستی) لو۔ [صحيح بخاري:2461]
اس حدیث سے استدلال کر کے کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کے پیشِ نظر مذکورہ واقعہ میں صحابہ کرام نے بکریاں وصول کیں۔
لیکن ایسا کہنا سراسر غلط ہے، کیوں کہ:
➊ اس حدیث پر عمل کی صورت میں تو صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک پر عمل کرتے ہوئے ان لوگون سے فوراً اور زبردستی حق ضیافت وصول کرتے۔ اس کے لیے دم کر کے بکریاں لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ان کے سردار کو موذی چیز نہ ڈستی تو کیا صحابہ کرام مذکورہ بالا فرمان نبوی کی (معاذ اللہ) مخالفت ہی کرتے!

➋ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ صحابہ کرام نے حق ضیافت ہی لیا تھا، قرآن کریم کی اجرت نہیں، تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہو گا، جو آپ نے یہ واقعہ سننے کے بعد ارشاد کیا کہ قرآن کریم پر لی جانے والی اجرت سب سے بہترین ہوتی ہے؟ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن کی اجرت قرار دے رہے ہیں تو کسی امتی کا اسے حق ضیافت قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

➌ ویسے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی عام ہے اور یہ واقعہ خاص۔ اگر بالفرض بکریاں حق ضیافت بھی تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان قرآن کریم کی اجرت کو جائز قرار دے رہا ہے، جو کہ ہمارے لیے واضح دلیل ہے۔

٭ حافظ ابوعبداللہ، محمد بن احمد بن عثمان ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہمارے بعض اصحاب نے اس حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ۔۔۔ حق ضیافت فرض تھا، لیکن انہوں نے ضیافت نہ کی۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی فرمان پر عمل کریں گے، نہ کہ خاص سبب پر۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عمومی طور پر) فرمایا: بلاشبہ سب سے بہترین چیز جس پر تم اجرت لے سکتے ہو، وہ کتاب اللہ ہے۔ [تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق:132/2، دارالوطن، الرياض،2000ء]

اگر عدل و انصاف کا خون اور اسلاف امت کی تکذیب کرتے ہوئے بزور تاویل اس حدیث میں معاوضے کو حق ضیافت قرار دے بھی لیا جائے تو سیدنا علاقہ بن صحار رضی اللہ عنہ کی حدیث کا کیا ہو گا؟ انہوں نے بھی دم کے معاوضے میں ایک سو بکریاں لیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا تو آپ نے اسے دم ہی کی اجرت قرار دیتے ہوئے خلعت جواز پہنائی۔ انہوں نے نہ تو حق ضیافت طلب کیا نہ لوگوں نے انہیں دینے سے انکار کیا!

کتابت مصاحف اور ان کی خرید و فروخت:
دور قدیم میں مصاحف کی نقول تیار کرنے کے لیے کتابت کروائی جاتی تھی، موجودہ دور میں ایک دفعہ کتابت اور پھر طباعت کروائی جاتی ہے۔ اس میں بھی اجرت دینی لینی پڑتی ہے، جب کہ نقول تیار ہونے کے بعد بھی خرید و فروخت کے مرحلے سے گزر کر ہی عوام الناس تک پہنچتی ہیں۔ اس اجرت کے جواز پر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مذکورہ احادیث سے دلیل لیتے ہوئے:
◈ معروف فقیہ و محدث، حافظ، ابو سلیمان، حمد بن محمد، خطابی رحمہ اللہ (319۔388ھ) فرماتے ہیں:
«وفي الحديث دليل علي جواز بيع المصاحف واخذ الاجرة علي كتبها، وفيه اباحة الرقية بذكر الله في اسمائه، وفيه اباحة اجر الطبيب والمعالج، وذلك ان القرائة والرقية والنفث فعل من الافعال المباحة، وقد اباح له اخذ الاجرة عليها، فكذلك ما يفعله الطبيب من قول ووصف وعلاج، فعل لا فرق بينها۔»
اس (دم پر بکریاں لینے والی) حدیث میں یہ دلیل ہے کہ مصاحف کی خرید و فروخت اور ان کی کتابت پر اجرت لینا جائز ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ناموں کو پڑھ کر دم کرنا جائز ہے، نیز طبیب و معالج کی اجرت کا بھی جواز ہے، کیوں کہ قراءت، دم اور پھونک جائز ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں پر اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبیب جو مشورے (بیماری کی) تفصیلات اور علاج تجویز کرتے ہیں، وہ بھی فعل ہیں۔ اس فعل اور ان افعال میں کوئی فرق نہیں، جن پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجرت کو جائز قرار دیا۔ [معالم السنن:101/3، المطبعة العلميّة، حلب، 1932ء]

صحابہ و تابعین کی متفقہ رائے:
◈ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«سألت معاوية عن أجر المعلم، فقال: أري له أجرا، قال شعبة: وسألت الحكم، فقال: لم أسمع أحدا يكرهه.»
میں نے معاویہ بن قرہ تابعی رحمہ اللہ سے معلم کی اجرت کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: میں اس کے لیے اجرت کو جائز سمجھتا ہوں۔ میں (شعبہ) نے حکم بن عتیبہ تابعی سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے کسی بھی (صحابی یا تابعی) فقیہ کو اسے ناپسندیدہ کہتے نہیں سنا۔ [مسند على بن الجعد، الرقم:1103۔1105، موسسة نادر، بيروت، 1990، و سنده صحيح]

◈ خالد حذا تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«سألت أبا قلابة عن المعلم يعلم، ويأخذ أجرا، فلم يربه بأسا.»
میں نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید تابعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ایک معلم تعلیم دے کر اجرت لیتا ہے، تو (یہ ناجائز ہے؟)، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔ [المصنف فى الأحاديث ولآثار:340/4، الرقم:20831، مكتبة الرشد، الرياض 1409ه، وسنده صحيح]
↰ بعض اہل علم نے اجرت نہ لینے کو اختیار کیا، تو اسے حرام سمجھنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ نہ لینے کو بہتر سمجھنے کی وجہ سے۔ البتہ اسے حرام قرار دینے کا نظریہ صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک نے بھی اختیار نہیں کیا۔

قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اہل سنت اتفاقی طور پر دینی امور پر اجرت کو جائز کہتے ہیں۔ صرف متقدمین احناف اس کو ناجائز کہتے ہیں۔
◈ شارح صحیح بخاری، حافظ، ابوالفضل، احمد بن علی بن محمد، ابن حجر، عسقلانی رحمہ اللہ (773۔852ھ) فرماتے ہیں:
«وقد نقل عياض جواز الاستئجار لتعليم القرآن عن العلماء كافة، إلا الحنفية.»
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت کا جائز ہونا تمام علمائے کرام سے نقل کیا ہے، سوائے احناف کے۔ [فتح الباري شرح صحيح البخاري:213/9، دار المعرفة، بيروت، 1379ه]

اور یہ متقدمین احناف بھی قرآنی دم کی اجرت لینا جائز سمجھتے ہیں، جیسا کہ:
◈ علامہ، ابو جعفر، احمد بن محمد بن سلامہ، طحاوی رحمہ اللہ (238۔ 321ھ) سے نقل کرتے ہوئے علامہ، عینی حنفی (762۔855ھ) لکھتے ہیں:
«وقال الطحاوي: ويجوز الأجر على الرقى، وإن كان يدخل فى بعضه القرآن.»
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دم کی اجرت لینا جائز ہے، اگرچہ بعض دم قرآن کریم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ [عمدة القاري شرح صحيح بخاري 96/12، دار احياء التراث العربي، بيروت]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث\صفحہ نمبر: 13   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5737  
5737. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام چشمے پر رہنے والوں کے پاس سے گزرے۔ ان کے ہاں زہریلے کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ صحابہ کرام کے پاس ان کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا تم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ اس چشمے پر ایک آدمی کو کسی زہریلے جانور سے کاٹ لیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اس کے ہمراہ گیا اور چند بکریاں لینے کی شرط پر سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا اور کہا کہ تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اجرت لی ہے؟ آخر جب حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5737]
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احتیاط کو ملاحظہ کیا جائے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تحقیق نہ کی بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا ہر مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیئے خاص طور پر دین وایمان کے لیے جس قدر احتیاط سے کام لیا جائے کم ہے مگر ایسا احتیاط کرنے والے آج عنقا ہیں الا ما شاءاللہ۔
حضرت مولان وحیدالزماں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کا مہر تعلیم قرآن پر کردیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5737   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5737  
5737. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام چشمے پر رہنے والوں کے پاس سے گزرے۔ ان کے ہاں زہریلے کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ صحابہ کرام کے پاس ان کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا تم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ اس چشمے پر ایک آدمی کو کسی زہریلے جانور سے کاٹ لیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اس کے ہمراہ گیا اور چند بکریاں لینے کی شرط پر سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا اور کہا کہ تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اجرت لی ہے؟ آخر جب حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5737]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنے پر اجرت لینا جائز ہے بلکہ پہلے سے طے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی احتیاط قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک انہیں اس کے حلال یا جائز ہونے کا علم نہیں ہوا بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا، البتہ دم جھاڑ کے لیے فارغ ہو جانا اور اسے ذریعۂ معاش بنا لینا انتہائی مذموم ہے۔
یہ طریقہ سلف صالحین کے ہاں غیر معروف ہے اور یہ دم کرنے والے، کروانے والے کو برائی اور فساد کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
جس طرح کسی بزرگ سے دعا کروانا تو جائز ہے لیکن اس بزرگ کا اس کام کے لیے فارغ ہو کر بیٹھ رہنا تاکہ لوگ اس کے پاس آ کر دعا کرائیں درست نہیں۔
ایسا کرنے سے کئی ایک مفاسد کے جنم لینے کا اندیشہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5737   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.