الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
(24) Chapter. The Statement of Allah: “Some faces that Day shall be Nadirah (shining and radiant). Looking at their Lord.” (V.75:22,23)
حدیث نمبر: 7447
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا ايوب، عن محمد، عن ابن ابي بكرة، عن ابي بكرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والارض السنة اثنا عشر شهرا منها اربعة حرم، ثلاث متواليات: ذو القعدة، وذو الحجة، والمحرم، ورجب، مضر الذي بين جمادى وشعبان اي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه يسميه بغير اسمه، قال: اليس ذا الحجة؟، قلنا: بلى قال: اي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس البلدة؟، قلنا: بلى، قال: فاي يوم هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس يوم النحر؟، قلنا: بلى، قال: فإن دماءكم واموالكم، قال محمد، واحسبه قال: واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقون ربكم، فيسالكم عن اعمالكم الا فلا ترجعوا بعدي ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض الا ليبلغ الشاهد الغائب، فلعل بعض من يبلغه ان يكون اوعى له من بعض من سمعه، فكان محمد إذا ذكره، قال: صدق النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال: الا هل بلغت الا هل بلغت".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحَجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ، مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ ذَا الْحَجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ أَلَا فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ أَلَا لِيُبْلِغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يَبْلُغُهُ أَنْ يَكُونَ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ، فَكَانَ مُحَمَّدٌ إِذَا ذَكَرَهُ، قَالَ: صَدَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے بیان کیا اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ اپنی اصلی قدیم ہیئت پر گھوم کر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جن میں چار مہینے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ پھر فرمایا یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے پھر آپ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر فرمایا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم نے کہا کیوں نہیں پھر فرمایا کہ پھر تمہارا خون اور تمہارے اموال۔ محمد نے بیان کیا کہ مجھے خیال ہے کہ یہ بھی کہا کہ اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر اور اس مہینے میں ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تمہارے اعمال کے متعلق تم سے سوال کرے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ آگاہ ہو جاؤ! جو موجود ہیں وہ غیر حاضروں کو میری یہ بات پہنچا دیں۔ شاید کوئی جسے بات پہنچائی گئی ہو وہ یہاں سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو۔ چنانچہ محمد بن سیرین جب اس کا ذکر کرتے تو کہتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں کیا میں نے پہنچا دیا؟ ہاں! کیا میں نے پہنچا دیا؟

Narrated Abu Bakra: The Prophet said, "Time has come back to its original state which it had when Allah created the Heavens and the Earth, the year is twelve months, of which four are sacred; (and out of these four) three are in succession, namely, Dhul-Qa'da, Dhul-Hijja and Muharram, and (the fourth one) Rajab Mudar which is between Jumad (Ath-Tham) and Sha'ban." The Prophet then asked us, "Which month is this?" We said, "Allah and His Apostle know (it) better." He kept quiet so long that we thought he might call it by another name. Then he said, "Isn't it Dhul-Hijja?" We said, "Yes." He asked "What town is this?" We said, "Allah and His Apostle know (it) better.' Then he kept quiet so long that we thought he might call it by another name. He then said, "Isn't it the (forbidden) town (Mecca)?" We said, "Yes." He asked, "What is the day today?" We said, "Allah and His Apostle know (it) better. Then he kept quiet so long that we thought that he might call it by another name. Then he said, "Isn't it the Day of An-Nahr (slaughtering of sacrifices)?" We said, "Yes." Then he said, "Your blood (lives), your properties," (the sub narrator Muhammad, said: I think he also said): "..and your honor) are as sacred to one another like the sanctity of this Day of yours, in this town of yours, in this month of yours. You shall meet your Lord and He will ask you about your deeds. Beware! Don't go astray after me by striking the necks of one another. Lo! It is incumbent upon those who are present to inform it to those who are absent for perhaps the informed one might comprehend it (understand it) better than some of the present audience." Whenever the sub-narrator Muhammad mentioned that statement, he would say, "The Prophet said the truth.") And then the Prophet added, "No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message to you! No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message to you?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 539

   صحيح البخاري4406نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئة يوم خلق السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقون ربك
   صحيح البخاري4662نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان
   صحيح البخاري3197نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر لذي بين جمادى وشعبان
   صحيح البخاري5550نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقو
   صحيح البخاري7447نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقو
   صحيح مسلم4383نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب شهر مضر الذي بين جمادى وشعبان دماءكم وأموالكم وأعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا و
   سنن أبي داود1947نفيع بن الحارثالزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3197  
´سات زمینوں کا بیان`
«. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا سورة الطلاق آية 12 وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ سورة الطور آية 5 السَّمَاءُ، سَمْكَهَا سورة النازعات آية 28 بِنَاءَهَا، الْحُبُكِ سورة الذاريات آية 7اسْتِوَاؤُهَا وَحُسْنُهَا، وَأَذِنَتْ سورة الانشقاق آية 2 سَمِعَتْ وَأَطَاعَتْ، وَأَلْقَتْ سورة الانشقاق آية 4 أَخْرَجَتْ مَا فِيهَا مِنَ الْمَوْتَى، وَتَخَلَّتْ سورة الانشقاق آية 4 عَنْهُمْ، طَحَاهَا سورة الشمس آية 6 دَحَاهَا سورة النازعات آية 30 بِالسَّاهِرَةِ سورة النازعات آية 14 وَجْهُ الْأَرْضِ كَانَ فِيهَا الْحَيَوَانُ نَوْمُهُمْ وَسَهَرُهُمْ. . . .»
. . . اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الطلاق میں) فرمایا «الله الذي خلق سبع سموات ومن الأرض مثلهن يتنزل الأمر بينهن لتعلموا أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بكل شىء علما‏» اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے۔ اور سورۃ الطور میں «والسقف المرفوع‏» سے مراد آسمان ہے اور سورۃ والنازعات میں جو «رفع سمكها‏» ہے «سمك‏» کے معنی بناء عمارت کے ہیں۔ اور سورۃ والذاریات میں جو «حبك» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا۔ سورۃ اذا السماء انشقت میں جو لفظ «أذنت‏» ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا، اور لفظ «ألقت‏» کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا، خالی ہو گئی۔ اور سورۃ والیل میں جو لفظ «طحاها‏» ہے اس کے معنی بچھایا۔ اور سورۃ والنازعات میں جو «ساهرة» کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: Q3195]

«. . . عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ . . . .»
. . . ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3197]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3197 باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سات زمینوں کا ذکر فرمایا ہے، دلیل کے طور پر قرآن مجید سے سورۃ طلاق کی آیت پیش کی ہے جو مکمل طور پر ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہے، اس کے علاوہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہم سے احادیث نقل فرمائی ہیں جو کہ واضح ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں زمین کا ذکر ضرور ہے مگر سات زمینوں کا ذکر موجود نہیں ہے، جس سے ترجمۃ الباب سے مطابقت نہیں بنتی۔
دراصل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں آسمان اور زمین کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے مگر بعض احادیث کی نصوص قرآن مجید کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آسمان تعداد کے اعتبار سے سات ہیں اور زمینیں بھی سات ہی ہیں کیوں کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر آسمان کا ذکر واحد کے صیغے کے ساتھ کیا گیا ہے جو کہ تقریبا قرآن مجید میں 13 مقامات بنتے ہیں۔ [المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الكريم] مگر وہ تمام آیات اسی امر پر محمول ہیں کہ وہ سات کی تعداد میں ہیں اور سورۃ طلاق میں «مثلهن» فرما کر زمین کی گنتی کا بھی واضح تعین فرما دیا گیا ہے، بعین اسی طرح سے امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہے اس میں بھی واحد کے صیغے کے ساتھ «الأرض» کا ذکر ہے، مگر یہاں پر ایک ضروری قاعدہ یاد رکھنا چاہئے کہ:
ارض اور سماء اگرچہ واحد کے صیغے ہیں مگر یہاں پر مراد ہے جنس سماء اور جنس ارض عربیت کے قواعد کے اعتبار سے جس کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے ایک سے زائد بھی، لیکن قرآن مجید میں بتصریح آسمان کو سات آسمان قرار دیا ہے جس میں جنس کا تعین بھی ہوا اور تعداد کا بھی، زمین کیلئے «مثلهن» کہہ کر اس کو آسمان کے مثل قرار دیا گیا ہے کہ وہ بھی تہہ بہ تہہ سات ہیں۔ جس کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بایں طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
امام الطبرانی رحمہ اللہ نے کتاب الدعا اور معجم الکبیر میں مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے کہ:
«أن رسول الله لم ير قرية يريد دخولها إلا قال حين يراها: اللهم رب السماوات السبع وما اظللن ورب الأرضين السبع وما اقللن و رب الشياطين و ما اضللن و رب الرياح وما زرين انا نسئلك خير هذا القرية وخير أهلها ونعوذبك من شرها و شر أهلها و شر ما فيها.» [كتاب الدعا للطبراني، ج 2، ص: 119 - المعجم الكبير للطبراني، ج 8، ص: 39 - عمل اليوم و الليل لابن السني، ص: 472]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ایسی بستی کو دیکھتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہونا چاہتے تو اسے دیکھتے ہی یہ دعا مانگتے تھے کہ اللہ! اے سات آسمانوں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن پر یہ آسمان سایہ فگن ہے، اے سات زمینوں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن کو یہ زمینیں اٹھائی ہوئی ہیں، اے شیطانوں کے مالک اور ان لوگوں کے مالک جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے، اے ہواؤں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن کو یہ ہوائیں اڑا رہی ہیں، ہم سوال کرتے ہیں کہ اس بستی اور اس کے باشندوں کے خیر سے ہمیں فائدہ پہنچا اور ان کے باشندوں کے شر سے ہمیں بچا۔
معجم الکبیر کی حدیث سے زمینوں کا واضح تعین ہو گیا کہ آسمانوں کی طرح زمین بھی سات ہی ہیں، لہذا اس صورت میں صحیح البخاری کی حدیث جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس پر غور فرمائیں کہ اس میں «سماوات» جمع کے ساتھ ہیں اور قرآن اور حدیث میں اس کا تعین سات کی تعداد میں موجود ہے، اور صحیح البخاری کی حدیث میں زمین واحد کے صیغہ کے ساتھ ذکر کی گئی ہے، اب قاعدہ یہ ہوا کہ جب آسمان سات ہیں تو زمین بھی سات ہی ہوں گی، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ 2:
جدید سائنس کا دائرہ کتنا بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے مگر وہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے بیانات کے مد مقابل کبھی نہیں آ سکتے، کیونکہ قرآن و حدیث کا تعلق وحی کے ساتھ ہے جس میں غلطی، لغزش اور خطا کا تصور بھی کفر ہے، کیوں کہ جدید سائنس انسانی کاوشوں اور تحقیق کا محور ہے جس میں اغلاط کے ہزارہا امکانات دامن گیر ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سائنس کے بیانات میں کئی تعارضات پائے گئے ہیں، صدیوں قبل سائنسی بیانات کچھ اور تھے، جس طرح وقت بدلتا گیا تحقیق کے دریچے بڑھتے گئے اور جدید سائنس ترقی کرتی گئی لیکن 1400 سال قبل جو بیانات (Statement) قرآن و حدیث نے پیش کئے وہ اپنی جگہ آج بھی اٹل اور حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان لانا چاہئے، اگر موجودہ تحقیقات بالفرض قرآن و حدیث کے مخالف ہوں گیں تو اس مقام پر یہی کہا جائے گا کہ ابھی سائنس کی تحقیقات میں کمی ہے جو کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر پائی، بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ماڈرن سائنس (Modern Science) اگر قرآن و حدیث کے مخالف ہو گی تو وہ مردود ہو گی، ہمارے لئے نص حدیث اور واضح دلیل صرف کتاب و سنت ہی ہیں۔
سات زمینوں کی حقیقت اور اس کے محل وقوع پر علامہ طنطاوی اور علامہ آلوسی بغدادی رحمہما اللہ کی رائے:
سورۃ طلاق کی آیت پر مفسرین کرام نے مختلف توجیہات پیش فرمائی ہیں اور مختلف قسم کی آراء کا بھی اظہار فرمایا ہے جسے ہم احتمالی اور امکانی تاویلات سے تعبیر کریں گے، بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ سات زمینوں سے مراد «اقاليم سبعة» یعنی زمین کے مختلف براعظم مثلا ایشیا، افریقہ، امریکہ، یورپ وغیرہ، یہ ایک احتمالی ہے جس کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے، امام رازی رحمہ اللہ نے اس رائے کو احتمال کا درجہ دیا ہے، لیکن یہ احتمال واضح طور پر مرفوع حدیث کے مخالف ہے لہذا یہ قاعدہ بھی یاد رکھنا چاہے: مرفوع حدیث کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے فقیہ اور محدث یا مفسر کی بات ہرگز مقبول نہ ہو گی بلکہ اس کی بات کو رد کر دیا جائے گا، چنانچہ مسند احمد و ترمذی کی مرفوع حدیث کے مطابق آسمانوں کی طرح زمینیں بھی تہہ بہ تہہ ہیں۔ اسی بناء پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس قول کا رد فرمایا ہے۔ دیکھئے: [البداية و النهاية، ج: 1، ص: 21 - روح المعاني، ج 28، ص: 144]
علامہ آلوسی رحمہ اللہ سات زمینوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
«و قد غلب على ظن أكثر أهل الحكمة الجديدة أن القمر عالم كعالم أرضنا هذه و فيه جبال و بحار يزعمون أنهم يحسون بها بواسطه أرصادهم وهم مهتمون بالسعي فى تحقيق الأمر فيه فليكن ما نقول به من الأرضين على هذا النحو.» [روح المعاني، ج 14، ص: 339]
حکمت جدیدہ کے حکماء کی اکثریت کا گمان یہ ہے کہ چاند ہماری زمین کی طرح کا ایک ملک ہے جس پر پہاڑ بھی ہیں اور دریا بھی ہیں، ان کا دعوی ہے کہ ہم نے اپنی رصد گاہوں میں چاند پر ان چیزوں کو محسوس کیا ہے، یہ لوگ چاند کے بارے میں مزید تحقیق کا اہتمام کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ مزید معلومات کو حاصل کیا جائے اور ممکن ہے کہ ہم جن زمینوں کے قائل ہیں نہ اسی طرح کی ہوں جیسا کہ چاند ہے۔
نوٹ: یاد رہے علامہ آلوسی البغدادی رحمہ اللہ 1370ھ میں فوت ہوئے ہیں، اب کی تحقیقات میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ کے دور کے حکماء کا خیال آپ نے پڑھا اور اس میں بعض باتیں صحیح بھی ثابت ہوئی ہیں، لیکن یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ علم جدید، اور حکمت جدیدہ کے مطابق ان کے نزدیک زمین سات نہیں ہیں بلکہ کروڑوں ہیں، مگر حدیث میں سات کے عدد کے ساتھ منقول ہیں۔ اسی بات کا جواب دیتے ہوئے علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ممکن ہے کہ زمینیں اور آسمان سات سے زائد ہوں، سات کے عدد تام کا ذکر اس بات کا تقاضا کرتا کہ اس سے زائد نہ ہوں اس لئے کہ عربیت کے ماہرین نے تصریح کی ہے کہ عدد کا مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا۔ [روح المعاني، ج 14، ص: 340]
لہذا لفظ سات کا عدد زائد کی نفی نہیں کرتا، قرآن و حدیث میں کوئی ایسی صراحت نہیں جہاں یہ کہا گیا ہو کہ زمینیں اور آسمان صرف سات ہی ہیں لہذا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زمینیں زیادہ ہیں تب بھی قرآن و حدیث کے مخالف نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
یہاں ایک بہت بڑا دوسرا اشکال وارد ہوتا ہے کہ سنن ترمذی کی حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ «ما تحت كم» کہ تمہارے لئے زمین کے نیچے یعنی باقی چھ زمینیں اس زمین کے نیچے ہیں، اب اگر چاند، مریخ، اور دوسرے کواکب کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو وہ ہمیں ہماری زمین سے اوپر دکھائی دیتے ہیں، اس کا جواب مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی زبانی سنیئے، آپ رقمطراز ہیں:
ممکن ہے کہ یہ زمینیں بعض حالات میں اس زمین کے تحت ہو جاتی ہوں اور بعض حالات میں اوپر ہو جاتی ہوں۔ [بيان القرآن، تفسير سورة طلاق، آيت 12]
علم الکونیات کے مشہور و معروف حکیم طنطاوی مصری زمینوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ زمینیں بھی آسمان کی طرح سات ہیں، مگر اس کے بعد وہ فرماتے ہیں:
یہ عدد حصر کا تقاضیٰ نہیں کرتا جب تم کسی سے کہو کہ میرے پاس اعلی نسل کے دو گھوڑے ہیں، ایک پر تم سوار ہو جاؤ اور دوسرے گھوڑے پر تمہارا بھائی، تو یہ بات اس کی نفی نہیں کرتی کہ تمہارے پاس ہزار گھوڑے ہیں۔ یہاں پر بھی اسی طرح ہے کہ کیوں کہ فلکیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ کم سے کم ممکن زمینیں جو بڑے بڑے سورجوں کے گرد گھومتی ہیں اور جن کو ہم سیارے کہتے ہیں، تین سو ملین (3 کروڑ) زمینوں سے کم نہیں ہیں۔ [الجواهر فى تفسير القرآن الكريم، ج 12، ص: 195]
علامہ فرید واجدی بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ زمینیں سات ہیں مگر ان سے مراد وہی کواکب ہیں جن کے بارے میں جدید ماہرین فلکیات کی رائے ہے کہ یہ ہماری زمین کی طرح ہے۔
دائرۃ المعارف القرن العشرین، ج 1، ص: 191، مادہ ارض، الموسوعۃ الکونیہ الکبری کے محقق ماہر احمد الصوفی فرماتے ہیں:
«بل أن الحقيقة ان فى الكون سبع سماوات وسبع أراضين أى سبع كواكب تشبه كوكبنا الأرض، ولاندري . . . ماذا سيكتشف العلم مستقبلا.» [الموسوعة الكونية الكبرى، آيات الله فى خلق الكون ونشأة الحياة فى السماء الدنيا والسموات السبع، ص: 75]
بلکہ یہ حقیقت ہے کہ سات آسمان اور سات زمین سے مراد کواکب ہیں جو کہ ہماری زمین سے مشابہت رکھتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ عنقریب کیا انکشافات ہوں گے مستقبل میں۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ «و من الأرض مثلهن» کے ظاہر اور احادیث کے پیش نظر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی اوپر نیچے سات ہیں جن کے درمیان بڑے بڑے طویل سفر اور فاصلے ہیں، ممکن ہے اس میں بھی اللہ تعالی کی مخلوقات رہتی ہوں۔
لہذا ہمیں قرآن و حدیث کے بیانات کے مطابق ہی اپنی گزارشات اور تحقیقات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جدید تحقیقات اور سائنس کا دائرہ چاہے کتنا ہی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے مگر یہ تمام کاوش انسانی کاوشوں پر مبنی ہیں، جن میں صحت کے ساتھ اغلاط کثیر کے بھی کئی امکانات دامن گیر ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس قرآن و حدیث سے نکلنے والے بیانات قطعی اور اٹل حقیقت ہیں، ان میں کسی قسم کی بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ دونوں وحی ہیں اور وحی کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 474   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1947  
´حرمت والے مہینوں کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں خطبہ دیا تو فرمایا: زمانہ پلٹ کر ویسے ہی ہو گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ نے آسمان اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی، سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرام ہیں: تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب ہے ۱؎ جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے بیچ میں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1947]
1947. اردو حاشیہ:
➊ اہل عرب میں قدیم سے یہ روایت چلی آتی تھی کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ محرم اور رجب کےمہینوں کو حرمت والے مہینے جانتے تھے اور ان میں قتل و غارت اور عام دنگا فساد سےپرہیز کرتے تھے۔چنانچہ اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے مگر اس کایہ مفہوم نہیں کہ باقی مہینوں میں جو چاہے کیاجائے نہیں بلکہ ہمیشہ ہی اللہ کی حرمت کا پاس رکھنا فرض اورواجب ہے مگر ان مہینوں میں اور زیادہ اہتمام کیا جانا چاہیے۔سورہ توبہ میں ہے: ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ‌ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ‌ شَهرً‌ا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ مِنها أَر‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ﴾ (التوبه:36) مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔
➋ زمانہ گھوم آیاہے اس میں اہل جاہلیت کی اس قبیح رسم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے۔مثلاً محرم کوصفر کی جگہ مؤخر اور صفر کومقدم کر دیا اور اسے نسیء سےتعبیر کرتے تھے۔ اس طرح سال کی تاریخوں میں بہت خرابی پیدا ہوگئی تھی۔اورجس سال نبی ﷺنے حج کیا اس سال اور تاریخ اپنے بالکل صحیح وقت پرآئی تھی۔قرآن کریم نے عمل نسیء کو کفریہ اعمال میں سے شمار کیا ہے اورآیندہ صحیح تاریخ کی حفاظت کی ترغیب دی ہے۔ ﴿انما النسىءزيادة فى الكفر .... الخ ﴾ (التوبه:37)
➌ ماہ رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیاہے کہ وہ لوگ اس کابہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1947   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7447  
7447. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا: زمانہ اپنی اس قدیم حالت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم، ایک مضر قبیلے کا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ اور یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: کیا بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7447]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ حدیث اس لیے لائے کہ اس میں اللہ سےملنے کا ذکر ہے۔
رجب کے ساتھ مضر قبیلہ کا ذکر اس لیے لائےکہ مضر والے رجب کا بہت ادب کیا کرتے تھے۔
آخر میں قرآن وحدیث یاد رکھنے والوں کا ذکر آیا۔
چنانچہ بعد کےزمانوں میں امام بخاری، امام مسلم جیسے محدثین کرام پیدا ہوئے جنہوں نے ہزاروں احادیث کو یاد رکھا اور فن حدیث کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک آنے والے ان کے لیے دعاگو رہیں گے۔
اللہ ان سب کو جزائے خیر دے اوراللہ تعالیٰ تمام اگلوں او ر پچھلوں کو جنت الفردوس میں جمع فرمائے آمین یارب العالمین۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمان کے بے عزتی کرنا کعبہ شریف کی مکۃ المکرمہ کی بے عزتی کرنے کےبرابر ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اس گناہ کے ارتکاب سےبچ گئےہیں۔
إلاماشاءاللہ۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو خانہ جنگی بدترین گناہ ہے ان کے مال و جان پر ناحق ہاتھ ڈالنا بھی اکبر الکبائر گناہوں سے ہے۔
آخر میں تبلیغ کے لیے بھی آپ نے تاکید شدید فرمائی وفقنا اللہ بمایحب ویرضیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7447   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7447  
7447. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا: زمانہ اپنی اس قدیم حالت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم، ایک مضر قبیلے کا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ اور یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: کیا بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7447]
حدیث حاشیہ:

مشرکین مکہ اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے اسی طرح حرمت والے مہینے کو اپنے لیے حلال اور اس کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دے لیتے۔
اس عمل کو (نسئي)
قرار دیا گیا قرآن کریم نے اس عمل کو کفر میں زیادتی کہا ہے حتی کہ انھوں نے حرمت والے مہینوں کی تخصیص بھی ختم کر دی تھی۔
وہ سال کے مطلق چار مہینوں کو حرام قرار دے لیتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تواللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تمام مہینے اپنے اصل حال پر لوٹ آئے تھے اور حج ذوالحجہ کے مہینے ہی میں ہوا تھا۔
حدیث کے آغاز میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے نیز رجب کو قبیلہ مضرکی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ اس مہینے کا بہت احترام کرتا تھا۔

چونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا ذکر ہے۔
اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔
انھوں نے ان احادیث سے مختلف انداز میں رؤیت باری تعالیٰ کو ثابت فرمایا ہے جبکہ معتزلہ نے اپنی عقل کے بل بوتے پر اس کا انکار کیا ہے اس سلسلے میں کچھ آیات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے خیال کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں اور اپنے انکارکے لیے جواز مہیا کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔
(الأنعام: 103)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک موقع پر اس آیت کو اسی مقصد کے لیے پیش کیا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3068)
بلا شبہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا البتہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے ضرورمحو دیدار ہوں گے جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نیز اس آیت میں "ادراک" کی نفی ہے جس کے معنی کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنا ہیں البتہ رؤیت اور چیز ہے۔

منکرین رؤیت ایک دوسری آیت بھی اپنی مقصد بر آری کے لیے پیش کرتے ہیں حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔
(الأعراف: 143)
لیکن اس آیت سے بھی مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ واقعی اس فانی دنیا میں ان فانی آنکھوں سے اس زندہ جاوید ہستی کا دیدار نا ممکن ہے لیکن جب یہ فانی دنیا تبدیل ہو جائے گی اور انسانی ساخت بالخصوص اس کی آنکھوں میں تبدیلی لائی جائے گی تو وہ دیدارالٰہی کی متحمل ہو سکیں گی۔
چنانچہ اُخروی زندگی میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق بیس (20)
سے زیادہ احادیث جمع کی ہیں پھر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حادی الارواح میں ان کی پیروی کرتے ہوئے تیس (30)
احادیث جمع کی ہیں ان میں سے اکثر کی سندیں جید ہیں۔
امادارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے انھوں نے فرمایا:
رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق میرے پاس سترہ (17)
صحیح احادیث موجود ہیں۔
(فتح الباري: 536/13)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مسلمان کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن میدان محشر میں اپنے رب کو ضرور دیکھیں گے۔
پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الٰہی نصیب ہو گا۔
جیسا کہ متعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ہم قیامت کے دن اپنے رب کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں یا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی وقت یا مشقت محسوس نہیں ہو گی۔
(مجموع الفتاوی: 485/6)
استاد محترم شیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان نے منکرین رؤیت کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کیے ہیں پھر ان کا شافی جواب دیا ہے۔
خوف طوالت سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7447   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.