الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
129. بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ:
129. باب: سجدہ کی فضیلت کا بیان۔
(129) Chapter. Superiority of prostrating.
حدیث نمبر: 806
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، وعطاء بن يزيد الليثي، ان ابا هريرة اخبرهما، ان الناس قالوا:" يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟ قال: هل تمارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب، قالوا: لا يا رسول الله، قال: فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب، قالوا: لا، قال: فإنكم ترونه كذلك يحشر الناس يوم القيامة، فيقول: من كان يعبد شيئا فليتبع فمنهم من يتبع الشمس ومنهم من يتبع القمر ومنهم من يتبع الطواغيت، وتبقى هذه الامة فيها منافقوها فياتيهم الله فيقول انا ربكم فيقولون هذا مكاننا حتى ياتينا ربنا فإذا جاء ربنا عرفناه، فياتيهم الله فيقول انا ربكم فيقولون انت ربنا فيدعوهم فيضرب الصراط بين ظهراني جهنم فاكون اول من يجوز من الرسل بامته، ولا يتكلم يومئذ احد إلا الرسل وكلام الرسل يومئذ اللهم سلم سلم وفي جهنم كلاليب مثل شوك السعدان، هل رايتم شوك السعدان؟، قالوا: نعم، قال: فإنها مثل شوك السعدان، غير انه لا يعلم قدر عظمها إلا الله تخطف الناس باعمالهم فمنهم من يوبق بعمله ومنهم من يخردل ثم ينجو حتى إذا اراد الله رحمة من اراد من اهل النار، امر الله الملائكة ان يخرجوا من كان يعبد الله فيخرجونهم ويعرفونهم بآثار السجود، وحرم الله على النار ان تاكل اثر السجود فيخرجون من النار فكل ابن آدم تاكله النار إلا اثر السجود فيخرجون من النار قد امتحشوا فيصب عليهم ماء الحياة فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل، ثم يفرغ الله من القضاء بين العباد ويبقى رجل بين الجنة والنار وهو آخر اهل النار دخولا الجنة مقبل بوجهه قبل النار، فيقول: يا رب اصرف وجهي عن النار قد قشبني ريحها واحرقني ذكاؤها، فيقول: هل عسيت إن فعل ذلك بك ان تسال غير ذلك؟، فيقول: لا، وعزتك فيعطي الله ما يشاء من عهد وميثاق فيصرف الله وجهه عن النار، فإذا اقبل به على الجنة راى بهجتها سكت ما شاء الله ان يسكت، ثم قال: يا رب قدمني عند باب الجنة، فيقول الله له: اليس قد اعطيت العهود والميثاق ان لا تسال غير الذي كنت سالت، فيقول: يا رب لا اكون اشقى خلقك، فيقول: فما عسيت إن اعطيت ذلك ان لا تسال غيره، فيقول: لا، وعزتك لا اسال غير ذلك فيعطي ربه ما شاء من عهد وميثاق فيقدمه إلى باب الجنة، فإذا بلغ بابها فراى زهرتها وما فيها من النضرة والسرور فيسكت ما شاء الله ان يسكت، فيقول: يا رب ادخلني الجنة، فيقول الله: ويحك يا ابن آدم ما اغدرك اليس قد اعطيت العهود والميثاق ان لا تسال غير الذي اعطيت، فيقول: يا رب لا تجعلني اشقى خلقك فيضحك الله عز وجل منه ثم ياذن له في دخول الجنة، فيقول: تمن، فيتمنى حتى إذا انقطع امنيته، قال الله عز وجل: من كذا وكذا اقبل يذكره ربه حتى إذا انتهت به الاماني، قال الله تعالى: لك ذلك ومثله معه، قال ابو سعيد الخدري: لابي هريرة رضي الله عنهما، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال الله لك ذلك وعشرة امثاله، قال ابو هريرة: لم احفظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قوله لك ذلك ومثله معه"، قال ابو سعيد: إني سمعته يقول ذلك لك وعشرة امثاله.
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أن أبا هريرة أخبرهما، أن الناس قَالُوا:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: هَلْ تُمَارُونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ، قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلْ تُمَارُونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْ فَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الشَّمْسَ وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الْقَمَرَ وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ أَنْتَ رَبُّنَا فَيَدْعُوهُمْ فَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِهِ، وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا الرُّسُلُ وَكَلَامُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمْ شَوْكَ السَّعْدَانِ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ يُوبَقُ بِعَمَلِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يُخَرْدَلُ ثُمَّ يَنْجُو حَتَّى إِذَا أَرَادَ اللَّهُ رَحْمَةَ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ اللَّهُ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَيُخْرِجُونَهُمْ وَيَعْرِفُونَهُمْ بِآثَارِ السُّجُودِ، وَحَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ فَكُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْكُلُهُ النَّارُ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ قَدِ امْتَحَشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَيَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الْجَنَّةَ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ قِبَلَ النَّارِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَقُولُ: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فُعِلَ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَ ذَلِكَ؟، فَيَقُولُ: لَا، وَعِزَّتِكَ فَيُعْطِي اللَّهَ مَا يَشَاءُ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ بِهِ عَلَى الْجَنَّةِ رَأَى بَهْجَتَهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ قَدِّمْنِي عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ الْعُهُودَ وَالْمِيثَاقَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنْتَ سَأَلْتَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لَا أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَقُولُ: فَمَا عَسَيْتَ إِنْ أُعْطِيتَ ذَلِكَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَهُ، فَيَقُولُ: لَا، وَعِزَّتِكَ لَا أَسْأَلُ غَيْرَ ذَلِكَ فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا بَلَغَ بَابَهَا فَرَأَى زَهْرَتَهَا وَمَا فِيهَا مِنَ النَّضْرَةِ وَالسُّرُورِ فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: وَيْحَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ الْعُهُودَ وَالْمِيثَاقَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لَا تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ فَيَضْحَكُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ ثُمَّ يَأْذَنُ لَهُ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: تَمَنَّ، فَيَتَمَنَّى حَتَّى إِذَا انْقَطَعَ أُمْنِيَّتُهُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ كَذَا وَكَذَا أَقْبَلَ يُذَكِّرُهُ رَبُّهُ حَتَّى إِذَا انْتَهَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لَكَ ذَلِكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: لِأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَمْ أَحْفَظْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَوْلَهُ لَكَ ذَلِكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ ذَلِكَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے؟ آپ نے (جواب کے لیے) پوچھا، کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے۔ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے۔ یہ امت باقی رہ جائے گی۔ اس میں منافقین بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس (ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لیں) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ بھی کہیں گے کہ بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بلائے گا۔ پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا۔ اس روز سوا انبیاء کے کوئی بھی بات نہ کر سکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے۔ اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گے۔ سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہا ہاں! (آپ نے فرمایا) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے۔ البتہ ان کے طول و عرض کو سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے۔ بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ پھر ان کی نجات ہو گی۔ جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو۔ چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ جب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہو گی۔ جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے۔ اس لیے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے۔ جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہو گا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا۔ اس لیے کہے گا کہ اے میرے رب! میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے۔ کیونکہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کر دوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم! اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا۔ لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا اے میرے رب! مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ ہونا چاہئے۔ اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کر دی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب دوسرا سوال کوئی تجھ سے نہیں کروں گا۔ چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا۔ دروازہ پر پہنچ کر جب جنت کی پنہائی، تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا۔ لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ افسوس اے ابن آدم! تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا؟ کیا (ابھی) تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دیا گیا، اس سے زیادہ اور کچھ نہ مانگوں گا۔ بندہ کہے گا اے رب! مجھے اپنی سب سے زیادہ بدنصیب مخلوق نہ بنا۔ اللہ پاک ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلہ کی اجازت عطا فرما دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا۔ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں (اللہ تعالیٰ کے سامنے) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو، فلاں چیز کا مزید سوال کرو۔ خود اللہ پاک ہی یاددہانی کرائے گا۔ اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اور اس سے دس گنا اور زیادہ تمہیں دی گئیں۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی بات صرف مجھے یاد ہے کہ تمہیں یہ تمنائیں اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ لیکن ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ اور اس کی دس گنا تمنائیں تجھ کو دی گئیں۔

Narrated Abu Huraira: The people said, "O Allah's Apostle! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" He replied, "Do you have any doubt in seeing the full moon on a clear (not cloudy) night?" They replied, "No, O Allah's Apostle!" He said, "Do you have any doubt in seeing the sun when there are no clouds?" They replied in the negative. He said, "You will see Allah (your Lord) in the same way. On the Day of Resurrection, people will be gathered and He will order the people to follow what they used to worship. So some of them will follow the sun, some will follow the moon, and some will follow other deities; and only this nation (Muslims) will be left with its hypocrites. Allah will come to them and say, 'I am Your Lord.' They will say, 'We shall stay in this place till our Lord comes to us and when our Lord will come, we will recognize Him. Then Allah will come to them again and say, 'I am your Lord.' They will say, 'You are our Lord.' Allah will call them, and As-Sirat (a bridge) will be laid across Hell and I (Muhammad) shall be the first amongst the Apostles to cross it with my followers. Nobody except the Apostles will then be able to speak and they will be saying then, 'O Allah! Save us. O Allah Save us.' There will be hooks like the thorns of Sa'dan [??] in Hell. Have you seen the thorns of Sa'dan [??]?" The people said, "Yes." He said, "These hooks will be like the thorns of Sa'dan [??] but nobody except Allah knows their greatness in size and these will entangle the people according to their deeds; some of them will fall and stay in Hell forever; others will receive punishment (torn into small pieces) and will get out of Hell, till when Allah intends mercy on whomever He likes amongst the people of Hell, He will order the angels to take out of Hell those who worshipped none but Him alone. The angels will take them out by recognizing them from the traces of prostrations, for Allah has forbidden the (Hell) fire to eat away those traces. So they will come out of the Fire, it will eat away from the whole of the human body except the marks of the prostrations. At that time they will come out of the Fire as mere skeletons. The Water of Life will be poured on them and as a result they will grow like the seeds growing on the bank of flowing water. Then when Allah had finished from the Judgments amongst his creations, one man will be left between Hell and Paradise and he will be the last man from the people of Hell to enter paradise. He will be facing Hell, and will say, 'O Allah! Turn my face from the fire as its wind has dried me and its steam has burnt me.' Allah will ask him, "Will you ask for anything more in case this favor is granted to you?' He will say, "No by Your (Honor) Power!" And he will give to his Lord (Allah) what he will of the pledges and the covenants. Allah will then turn his face from the Fire. When he will face Paradise and will see its charm, he will remain quiet as long as Allah will. He then will say, 'O my Lord! Let me go to the gate of Paradise.' Allah will ask him, 'Didn't you give pledges and make covenants (to the effect) that you would not ask for anything more than what you requested at first?' He will say, 'O my Lord! Do not make me the most wretched, amongst Your creatures.' Allah will say, 'If this request is granted, will you then ask for anything else?' He will say, 'No! By Your Power! I shall not ask for anything else.' Then he will give to his Lord what He will of the pledges and the covenants. Allah will then let him go to the gate of Paradise. On reaching then and seeing its life, charm, and pleasure, he will remain quiet as long as Allah wills and then will say, 'O my Lord ! Let me enter Paradise.' Allah will say, May Allah be merciful unto you, O son of Adam! How treacherous you are! Haven't you made covenants and given pledges that you will not ask for anything more that what you have been given?' He will say, 'O my Lord! Do not make me the most wretched amongst Your creatures.' So Allah will laugh and allow him to enter Paradise and will ask him to request as much as he likes. He will do so till all his desires have been fulfilled . Then Allah will say, 'Request more of such and such things.' Allah will remind him and when all his desires and wishes; have been fulfilled, Allah will say "All this is granted to you and a similar amount besides." Abu Sa`id Al-Khudri, said to Abu Huraira, 'Allah's Apostle said, "Allah said, 'That is for you and ten times more like it.' "Abu Huraira said, "I do not remember from Allah's Apostle except (his saying), 'All this is granted to you and a similar amount besides." Abu Sa`id said, "I heard him saying, 'That is for you and ten times more the like of it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 770

   صحيح البخاري806هل تمارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا قال فإنكم ترونه كذلك يحشر الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبع فمنهم من يتبع الشمس ومنهم من يتبع القمر ومنهم من يتبع الطواغيت
   صحيح البخاري7437هل تضارون في القمر ليلة البدر قالوا لا يا رسول الله قال فهل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد القمر
   صحيح مسلم451هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر قالوا لا يا رسول الله قال هل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد ا
   جامع الترمذي2554تضامون في رؤية القمر ليلة البدر وتضامون في رؤية الشمس قالوا لا قال فإنكم سترون ربكم كما ترون القمر ليلة البدر لا تضامون في رؤيته
   مسندالحميدي1212هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7437  
´دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا`
«. . . أَنَّ النَّاس قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ . . .»
. . . لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ:: 7437]

تخريج الحديث:
[115۔ البخاري فى: 97 كتاب التوحيد: 24 باب قول الله تعالىٰ: وجوه يومئذ ناضرة۔۔۔ 22 مسلم 183]

لغوی توضیح:
«تُضَارُوْنَ» تم تکلیف محسوس کرتے ہو۔
«صَحْوًا» صاف، جب آسمان پر بادل نہ ہو۔
«الْاَوْثَان» جمع ہے «وَثَن» کی، معنی ہے بت۔
«غُبَّرَات» باقی رہنے والے۔
«سَرَاب» وہ ریت جو دوپہر کو چمک کی وجہ سے پانی معلوم ہوتی ہے۔
«الْحَسْر» پل
«مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ» دونوں کا ایک ہی معنی ہے، پھسلنے کی جگہ۔
«خَطَاطِيفُ» جمع ہے خطاف کی اور «کـَلالِیب» جمع ہے «كلوب» کی، دونون کا معنی ایک ہی ہے، ایسا لوہا جوسرے سے مڑا ہوا ہو۔
«حَسَكَة» سعدان بوٹی کے کانٹے۔
«اَجَاوِيد» جمع ہے «اَجْوَاد» کی اور «اجَواد» جمع ہے «جَوَاد» کی، معنی ہے تیز رفتار، عمدہ۔
«الْخَيْل» گھوڑے۔
«الرُّكَاب» اونٹ۔
«مَخْدُوش» خراشیں لگے ہوئے، نوچے ہوئے۔
«مَكْدُوْس» دھکیلے گئے۔
«مَنَاشَدَه» مطالبہ۔
«امْتُحِشُوْا» جنہیں جلا دیا گیا۔
«حَافَتَيْه» اس کے دونوں کنارے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 115   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 806  
806. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:806]
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اس طویل حدیث کو لائے ہیں۔
اس میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اللہ پاک نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ اس پیشانی کو جلائے جس پر سجدے کے نشانات ہیں۔
ان ہی نشانات کی بنا پر بہت سے گنہگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوزخ سے نکالا جائے گا باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
باقی حدیث میں اور بھی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔
ایک یہ کہ اللہ کا دیدار برحق ہے جو اس طرح حاصل ہوگا جیسے چودہویں رات کے چاند کا دیدار عام ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں اللہ پاک کا آنا اور اپنی صورت پر جلوہ افروز ہونا اور اہل ایمان کے ساتھ شفقت کے ساتھ کلام کرنا۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث صحیحہ جن میں اللہ پاک کی صفات مذکور ہیں۔
ان کی بنا پر اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ اللہ پاک ان جملہ صفات سے موصوف ہے۔
وہ حقیقتاً کلام کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اپنے عرش پر ہے۔
اسی کی ذات کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔
اس کا علم اور سمع و بصر ہر ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس طرح چاہے آئے جائے۔
جس سے بات کرے اس کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔
حدیث ہذا میں دوزخ کا بھی ذکر ہے سعدان نامی گھاس کا ذکر ہے جس کے کانٹے بڑے سخت ہیں اور پھر دوزخ کا سعدان جس کی بڑائی اور ضرر رسانی خدا ہی جانتاہے کہ کس حد تک ہوگی۔
نیز حدیث میں ماءالحیاة کا ذکر ہے۔
جو جنت کا پانی ہوگا اور ان دوزخیوں پر ڈالا جائے گا جو دوزخ میں جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔
اس پانی سے ان میں زندگی لوٹ آئے گی۔
آخر میں اللہ پاک کا ایک گنہگار سے مکالمہ مذکو رہے جسے سن کر اللہ پاک ہنسے گا۔
اس کا یہ ہنسنا بھی برحق ہے۔
الغرض حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔
حضرت الامام کی عادت مبارکہ ہے کہ ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔
ایک مجتہد مطلق کی شان یہی ہونی چاہئے۔
پھر حیرت ہے ان حضرات پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فاضل اسلام کو مجتہد مطلق تسلیم نہیں کرتے۔
ایسے حضرات کو بنظر انصاف اپنے خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 806   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:806  
806. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:806]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے سجدے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیشانی کو نہیں جلائے گا جس پر سجدے کے نشانات ہوں گے۔
اور انہی نشانات کی وجہ سے بے شمار گناہ گاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔
جو لوگ دنیا میں نماز کی نعمت سے محروم رہے ہوں گے لیکن کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کیا ہو گا انہیں جہنم کے عذاب سے کیسے نجات ملے گی؟ ان کے جسم پر سجدے کے آثار و علامات نہیں ہوں گے جن سے فرشتے شناخت کر کے انہیں جہنم سے نکال لائیں تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے؟ غالبا ایسے لوگوں کو خود اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا جبکہ تمام انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی سفارشات سے بےشمار لوگ جہنم سے نجات حاصل کر چکے ہوں گے اور جنت میں انہیں داخلہ مل چکا ہو گا۔
تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
اب میری سفارش رہ گئی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے گا جنہوں نے دنیا میں کبھی اچھا کام نہیں کیا ہو گا۔
ان کے پاس دھندلا سا ایمان ہو گا جو انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7439)
واللہ أعلم۔
(2)
اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دوزخ کی آگ سے نمازی کے جسم کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا؟ علامہ نووی ؒ کی رائے ہے کہ تمام اعضائے سجدہ، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے جبکہ قاضی عیاض کا موقف ہے کہ صرف پیشانی جس سے سجدہ ہوتا ہے وہی محفوظ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے کہ گناہ گار لوگوں میں سے کچھ لوگ آدھی پنڈلی، کچھ گھٹنوں اور کچھ کمر تک آگ میں رہیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدم اور گھٹنے آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے، اس لیے صرف پیشانی کو محفوظ کہہ سکتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب ہو گا مگر ان کے چہروں کے دائرے اس سے محفوظ ہوں گے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ اس میں خاص لوگوں کا حال بیان ہوا ہے لیکن عام گناہ گار اہل ایمان کے تمام اعضائے سجدہ آگ سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کا تقاضا ہے، اس لیے جہنم میں سزا پانے والے اہل ایمان کی دو اقسام ہیں اور دونوں قسم کی احادیث کے موارد بھی الگ الگ ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے استدلال کا جواب دیا ہے کہ آخرت کے احوال کو دنیا کے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ کمر تک آگ میں جلنے والوں کے گھٹنے اور قدم دوزخ کی آگ سے بالکل متاثر نہ ہوں اور اعضائے سجدہ اس سے محفوظ رہیں۔
پھر لکھا ہے کہ چہرے کے دائروں والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف پیشانی بلکہ چہرے کے پورے دائرے سجدے کی برکت سے محفوظ رہیں گے۔
اس بنا پر پیشانی کے استثناء والی بات بھی محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 556/11 و 481/2) (3)
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں اقل کو ابتدائی اور اکثر کو آخری حالات پر محمول کیا جاتا ہے۔
اس بنا پر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں کم از کم قطعۂ جنت کا بیان ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو پہلے مطلع کیا گیا اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں زیادہ سے زیادہ رحمت الٰہی کا بیان ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کو بعد میں مطلع کیا گیا اور بیان کے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ اس پر مطلع نہ ہو سکے۔
(عمدة القاري: 552/4)
واللہ أعلم۔
(4)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا اثبات ہے جن پر آگے کتاب الرقاق، حدیث: 6573 اور کتاب التوحید، حدیث: 7437 میں گفتگو ہو گی۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 806   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.