English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ابي داود سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ابي داود میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (5274)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
23. باب في إفراد الحج
باب: حج افراد کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1783
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا انه الحج، فلما قدمنا تطوفنا بالبيت، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن ساق الهدي ان يحل، فاحل من لم يكن ساق الهدي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم (مکہ) آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہو وہ حلال ہو جائے ۱؎، چنانچہ وہ تمام لوگ حلال ہو گئے جو ہدی لے کر نہیں آئے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1783]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ الحج 34 (1561)، صحیح مسلم/ الحج 17 (1211)، سنن النسائی/ الکبری، الحج (3785)، (تحفة الأشراف: 15984)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/189، 191، 192، 210) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنا احرام کھول دے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1561) صحيح مسلم (1211)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1778
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد. ح وحدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد يعني ابن سلمة. ح وحدثنا موسى،حدثنا وهيب، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين هلال ذي الحجة، فلما كان بذي الحليفة، قال:" من شاء ان يهل بحج فليهل، ومن شاء ان يهل بعمرة فليهل بعمرة"، قال موسى في حديث وهيب:" فإني لولا اني اهديت لاهللت بعمرة، وقال في حديث حماد بن سلمة: واما انا فاهل بالحج فإن معي الهدي، ثم اتفقوا، فكنت فيمن اهل بعمرة، فلما كان في بعض الطريق حضت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: ما يبكيك؟ قلت: وددت اني لم اكن خرجت العام، قال: ارفضي عمرتك وانقضي راسك وامتشطي، قال موسى: واهلي بالحج، وقال سليمان: واصنعي ما يصنع المسلمون في حجهم، فلما كان ليلة الصدر امر، يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، عبد الرحمن فذهب بها إلى التنعيم، زاد موسى: فاهلت بعمرة مكان عمرتها وطافت بالبيت فقضى الله عمرتها وحجها. قال هشام: ولم يكن في شيء من ذلك هدي. قال ابو داود: زاد موسى في حديث حماد بن سلمة: فلما كانت ليلة البطحاء طهرت عائشة رضي الله عنها.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکلنے کو ہوا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے۔ موسیٰ نے وہیب والی روایت میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہدی نہ لے چلتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: رہا میں تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ ہدی ہے۔ آگے دونوں راوی متفق ہیں (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں تھی، آپ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ مجھے حیض آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیوں رو رہی ہو؟، میں نے عرض کیا: میری خواہش یہ ہو رہی ہے کہ میں اس سال نہ نکلتی (تو بہتر ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا عمرہ چھوڑ دو، سر کھول لو اور کنگھی کر لو۔ موسیٰ کی روایت میں ہے: اور حج کا احرام باندھ لو، اور سلیمان کی روایت میں ہے: اور وہ تمام کام کرو جو مسلمان اپنے حج میں کرتے ہیں۔ تو جب طواف زیارت کی رات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کو حکم دیا چنانچہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کر گئے۔ موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمرے کے عوض (جو ان سے چھوٹ گیا تھا) دوسرے عمرے کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس طرح اللہ نے ان کے عمرے اور حج دونوں کو پورا کر دیا۔ ہشام کہتے ہیں: اور اس میں ان پر اس سے کوئی ہدی لازم نہیں ہوئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: موسیٰ نے حماد بن سلمہ کی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب بطحاء ۱؎ کی رات آئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہو گئیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1778]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏حدیث سلیمان بن حرب عن حماد بن زید قد أخرجہ: سنن النسائی/الحج 185 (2993)، 186 (2994)، (تحفة الأشراف: 16863، 16882)، وحدیث موسی بن اسماعیل عن حماد بن سلمة وموسی بن اسماعیل عن وہیب، قد تفرد بہما أبو داود، (تحفة الأشراف: 17295)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض 1 (294)، 7 (305)، 15(316)، 16 (317)، 18 (319)، الحج/31 (1556)، 33 (1560)، 34 (1562)، 77 (1638)، 115 (1709)، 124 (1720)، 145 (1757)، العمرة 7 (1786)، 9 (1788)، الجھاد 105 (2952)، المغازي 77 (4395)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن النسائی/الطھارة 183 (291) سنن ابن ماجہ/الحج 36 (2963) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: بطحاء سے مراد منیٰ ہے، یعنی قیام منیٰ کے ایام کی کسی رات میں وہ پاک ہو گئیں، علامہ عینی کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا حیض تین ذی الحجہ بروز سنیچر مقام سرف میں شروع ہوا تھا، اور دسویں ذی الحجہ کو سنیچر کے روز پاک ہوئیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
أخرجه النسائي (2718 وسنده صحيح) ورواه البخاري (317) ومسلم (1211)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1779
حدثنا القعنبي عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابي الاسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع فمنا من اهل بعمرة ومنا من اهل بحج وعمرة ومنا من اهل بالحج، و اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فاما من اهل بالحج او جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہم میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، چنانچہ جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے یوم النحر (یعنی دسویں ذی الحجہ) تک احرام نہیں کھولا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1779]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البخاری 34 (1562)، المغازی 78 (4408)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن النسائی/الحج 48 (2717)، سنن ابن ماجہ/ الحج 37 (2965)، (تحفة الأشراف: 16389)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/36، 104، 107، 243) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1562) صحيح مسلم (1211)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1781
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع فاهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان معه هدي فليهل بالحج مع العمرة، ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا"، فقدمت مكة وانا حائض ولم اطف بالبيت ولا بين الصفا و المروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" انقضي راسك وامتشطي واهلي بالحج ودعي العمرة"، قالت: ففعلت، فلما قضينا الحج، ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع عبد الرحمن بن ابي بكر إلى التنعيم، فاعتمرت، فقال:" هذه مكان عمرتك"، قالت: فطاف الذين اهلوا بالعمرة بالبيت وبين الصفا و المروة ثم حلوا ثم طافوا طوافا آخر بعد ان رجعوا من منى لحجهم، واما الذين كانوا جمعوا الحج والعمرة فإنما طافوا طوافا واحدا. قال ابو داود: رواه إبراهيم بن سعد، و معمر، عن ابن شهاب نحوه، لم يذكروا: طواف الذين اهلوا بعمرة وطواف الذين جمعوا الحج والعمرة.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے پھر وہ حلال نہیں ہو گا جب تک کہ ان دونوں سے ایک ساتھ حلال نہ ہو جائے، چنانچہ میں مکہ آئی، میں حائضہ تھی، میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، لہٰذا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: اپنا سر کھول لو، کنگھی کر لو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرے کو ترک کر دو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میں نے حج ادا کر لیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا (تو میں وہاں سے احرام باندھ کر آئی اور) میں نے عمرہ ادا کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کی جگہ پر ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: چنانچہ جنہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر ان لوگوں نے احرام کھول دیا، پھر جب منیٰ سے لوٹ کر آئے تو حج کا ایک اور طواف کیا، اور رہے وہ لوگ جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابراہیم بن سعد اور معمر نے ابن شہاب سے اسی طرح روایت کیا ہے انہوں نے ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے عمرہ کے طواف کا احرام باندھا، اور ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1781]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ الحج 31 (1556)، 77 (1638)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن النسائی/ الحج 58 (2765)، (تحفة الأشراف: 16591)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 74 (223)، مسند احمد (6/35، 177) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: اسی طرح حج افراد کا احرام باندھنے والوں نے بھی ایک ہی طواف کیا، واضح رہے کہ مفرد ہو یا متمتع یا قارن سب کے لئے طوافِ زیارت فرض ہے، اور متمتع پر صفا و مروہ کی دو سعی واجب ہے، جب کہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے، خواہ طواف قدوم (یا عمرہ) کے وقت کرلے یا طواف زیارت کے بعد، یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لئے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں سعی کے لئے بھی طواف کا لفظ وارد ہوا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1556) صحيح مسلم (1211)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1782
حدثنا ابو سلمة موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، انها قالت: لبينا بالحج حتى إذا كنا بسرف حضت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال:" ما يبكيك يا عائشة؟" فقلت: حضت، ليتني لم اكن حججت، فقال:" سبحان الله! إنما ذلك شيء كتبه الله على بنات آدم"، فقال:" انسكي المناسك كلها غير ان لا تطوفي بالبيت"، فلما دخلنا مكة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من شاء ان يجعلها عمرة فليجعلها عمرة إلا من كان معه الهدي"، قالت: وذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر يوم النحر، فلما كانت ليلة البطحاء وطهرت عائشة، قالت: يا رسول الله، اترجع صواحبي بحج وعمرة وارجع انا بالحج؟ فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن بن ابي بكر فذهب بها إلى التنعيم فلبت بالعمرة.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا: عائشہ! تم کیوں رو رہی ہو؟، میں نے کہا: مجھے حیض آ گیا کاش میں نے (امسال) حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی ذات پاک ہے، یہ تو بس ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے واسطے لکھ دی ہے، پھر فرمایا: تم حج کے تمام مناسک ادا کرو البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرو ۱؎ پھر جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اسے عمرہ بنانا چاہے تو وہ اسے عمرہ بنا لے ۲؎ سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ہدی ہو، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے گائے ذبح کی۔ جب بطحاء کی رات ہوئی اور عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہو گئیں تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میرے ساتھ والیاں حج و عمرہ دونوں کر کے لوٹیں گی اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا وہ انہیں لے کر مقام تنعیم گئے پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہاں سے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1782]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، (تحفة الأشراف: 17477)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/219) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن یہ جملہ «من شاء أن يجعلها...الخ» صحیح نہیں ہے جو اس روایت میں ہے، صحیح جملہ یوں ہے «اجعلوها عمرة» یعنی حکم دیا کہ عمرہ بنا ڈالو)
وضاحت: ۱؎: طواف ایک ایسی عبادت ہے جس میں طہارت شرط ہے اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو طواف سے روک دیا، طواف کے علاوہ حائضہ حج کے تمام ارکان ادا کرے گی۔
۲؎: جیسا کہ مذکور ہوا یہ جملہ جو اس روایت میں ہے صحیح نہیں ہے، صحیح جملہ یوں ہے: تم اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو سوائے اس شخص۔۔۔ الخ
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله من شاء أن يجعلها عمرة والصواب اجعلوها عمرة م
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح مسلم (1211)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1784
حدثنا محمد بن يحيى بن فارس الذهلي، حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا يونس، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لو استقبلت من امري ما استدبرت لما سقت الهدي، قال محمد: احسبه قال: ولحللت مع الذين احلوا من العمرة"، قال: اراد ان يكون امر الناس واحدا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے یہ بات معلوم ہو گئی ہوتی جواب معلوم ہوئی ہے تو میں ہدی نہ لاتا، محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اور میں ان لوگوں کے ساتھ حلال ہو جاتا جو عمرہ کے بعد حلال ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ سب لوگوں کا معاملہ یکساں ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1784]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16742)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/247) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے تو وہ طواف اور سعی کرکے احرام کھول دیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں لوگوں کی آسانی کے لئے ایسا حکم فرمایا تاکہ اس سے مشرکین کی مخالفت ہو، بعض لوگوں کو اس میں تردد ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہوئے، اس حدیث کی بنا پر بعض ائمہ کے یہاں حج تمتع ہی واجب اور افضل ہے، (ملاحظہ ہو: زاد المعاد)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
رواه البخاري (7229)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1785
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، قال:" اقبلنا مهلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج مفردا، واقبلت عائشة مهلة بعمرة حتى إذا كانت بسرف عركت حتى إذا قدمنا طفنا بالكعبة و بالصفا و المروة، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحل منا من لم يكن معه هدي"، قال: فقلنا: حل ماذا؟ فقال:" الحل كله"، فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا اربع ليال ثم اهللنا يوم التروية، ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على عائشة فوجدها تبكي، فقال:" ما شانك؟" قالت: شاني اني قد حضت وقد حل الناس ولم احلل ولم اطف بالبيت والناس يذهبون إلى الحج الآن، فقال:" إن هذا امر كتبه الله على بنات آدم، فاغتسلي، ثم اهلي بالحج"، ففعلت ووقفت المواقف حتى إذا طهرت طافت بالبيت و بالصفا و المروة، ثم قال:" قد حللت من حجك وعمرتك جميعا"، قالت: يا رسول الله، إني اجد في نفسي اني لم اطف بالبيت حين حججت، قال:" فاذهب بها يا عبد الرحمن فاعمرها من التنعيم وذلك ليلة الحصبة".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھ کر آئے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا عمرے کا احرام باندھ کر آئیں، جب وہ مقام سرف میں پہنچیں تو انہیں حیض آ گیا یہاں تک کہ جب ہم لوگ مکہ پہنچے تو ہم نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جن کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دیں، ہم نے کہا: کیا کیا چیزیں حلال ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز حلال ہے، چنانچہ ہم نے عورتوں سے صحبت کی، خوشبو لگائی، اپنے کپڑے پہنے حالانکہ عرفہ میں صرف چار راتیں باقی تھیں، پھر ہم نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو احرام باندھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہیں روتے پایا، پوچھا: کیا بات ہے؟، وہ بولیں: مجھے حیض آ گیا لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن میں نے نہیں کھولا اور نہ میں بیت اللہ کا طواف ہی کر سکی ہوں، اب لوگ حج کے لیے جا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (حیض) ایسی چیز ہے جسے اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے لہٰذا تم غسل کر لو پھر حج کا احرام باندھ لو، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور سارے ارکان ادا کئے جب حیض سے پاک ہو گئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کی سعی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئیں، وہ بولیں: اللہ کے رسول! میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف (قدوم) نہیں کر سکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبدالرحمٰن! انہیں لے جاؤ، اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ، یہ واقعہ حصبہ ۱؎ کی رات کا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1785]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 16 (1210)، 17 (1213)، سنن النسائی/الحج 58 (2764)، سنن ابن ماجہ/المناسک 12 (2911)، (تحفة الأشراف: 2908)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 41(126)، مسند احمد (3/394)، سنن الدارمی/المناسک 11 (1845) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: یعنی ذی الحجہ کی چودہویں رات کو، جس رات کو محصب میں اترتے ہیں یا تیرہویں رات کو اگر بارہویں تاریخ کو منیٰ سے واپسی ہو، محصب: ایّام تشریق کے بعد منیٰ سے لوٹتے وقت راستے میں مکہ سے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح مسلم (1213)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1788
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن قيس بن سعد، عن عطاء بن ابي رباح، عن جابر، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه لاربع ليال خلون من ذي الحجة، فلما طافوا بالبيت و بالصفا و المروة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجعلوها عمرة، إلا من كان معه الهدي"، فلما كان يوم التروية اهلوا بالحج، فلما كان يوم النحر قدموا فطافوا بالبيت ولم يطوفوا بين الصفا و المروة.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد (مکہ) آئے، جب انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سب اسے عمرہ بنا لو سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، پھر جب یوم الترویہ (آٹھواں ذی الحجہ) ہوا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا، جب یوم النحر (دسواں ذی الحجہ) ہوا تو وہ لوگ (مکہ) آئے اور انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1788]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2473)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/362) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: کیونکہ پہلی سعی کافی تھی البتہ جو شخص حج سے پہلے سعی نہ کر سکا ہو اس کو طواف زیارت کے بعد سعی کرنا ضروری ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
أخرجه أحمد (3/362) والنسائي في الكبريٰ (4171)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1789
حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، حدثنا حبيب يعني المعلم، عن عطاء، حدثني جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اهل هو واصحابه بالحج وليس مع احد منهم يومئذ هدي إلا النبي صلى الله عليه وسلم و طلحة، وكان علي رضي الله عنه قدم من اليمن ومعه الهدي، فقال: اهللت بما اهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن النبي صلى الله عليه وسلم امر اصحابه ان يجعلوها عمرة يطوفوا ثم يقصروا ويحلوا إلا من كان معه الهدي، فقالوا: اننطلق إلى منى وذكورنا تقطر؟ فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لو اني استقبلت من امري ما استدبرت ما اهديت، ولولا ان معي الهدي لاحللت".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 81 (1651)، (تحفة الأشراف: 2405)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/305) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1651)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1796
حدثنا ابو سلمة موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم" بات بها، يعني بذي الحليفة، حتى اصبح ثم ركب حتى إذا استوت به على البيداء حمد الله وسبح وكبر، ثم اهل بحج وعمرة واهل الناس بهما، فلما قدمنا امر الناس فحلوا حتى إذا كان يوم التروية، اهلوا بالحج ونحر رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع بدنات بيده قياما". قال ابو داود: الذي تفرد به، يعني انسا، من هذا الحديث انه: بدا بالحمد والتسبيح والتكبير ثم اهل بالحج.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ (مکہ) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا، یہاں تک کہ جب یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے «الحمدلله، سبحان الله والله أكبر» کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1796]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 24، (1547)، 25 (1548)، 27 (1551)، 119 (1715)، الجہاد 104 (2951)، 126 (2986)، صحیح مسلم/صلاة المسافرین 1 (690)، سنن النسائی/الضحایا 13 (4392)، ویأتي ہذا الحدیث برقم (2793)، (تحفة الأشراف: 947) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: اور باقی اونٹوں کو علی رضی اللہ عنہ نے ذبح (نحر) کیا، کل سو اونٹ تھے، جو ذبح کئے گئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1551)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1801
حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابن ابي زائدة، اخبرنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز، حدثني الربيع بن سبرة، عن ابيه، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان بعسفان، قال له: سراقة بن مالك المدلجي: يا رسول الله، اقض لنا قضاء قوم كانما ولدوا اليوم، فقال:" إن الله تعالى قد ادخل عليكم في حجكم هذا عمرة فإذا قدمتم فمن تطوف بالبيت وبين الصفا و المروة فقد حل إلا من كان معه هدي".
سبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم عسفان میں پہنچے تو آپ سے سراقہ بن مالک مدلجی نے کہا: اللہ کے رسول! آج ایسا بیان فرمائیے جیسے ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں جو ابھی پیدا ہوئے ہوں (بالکل واضح) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عمرہ کو تمہارے حج میں داخل کر دیا ہے لہٰذا جب تم مکہ آ جاؤ تو جو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لے تو وہ حلال ہو گیا سوائے اس کے جس کے ساتھ ہدی کا جانور ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1801]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3811)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/404)، سنن الدارمی/المناسک 38 (1899)، (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:إسناده حسن
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1804
حدثنا ابن معاذ، اخبرنا ابي، حدثنا شعبة، عن مسلم القري، سمع ابن عباس، يقول:" اهل النبي صلى الله عليه وسلم بعمرة، واهل اصحابه بحج".
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 30 (1239)، سنن النسائی/الحج 77 (2816)، (تحفة الأشراف: 6462)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/240) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح مسلم (1238)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1805
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث، حدثني ابي، عن جدي، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر، قال: تمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بالعمرة إلى الحج فاهدى وساق معه الهدي من ذي الحليفة، وبدا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاهل بالعمرة ثم اهل بالحج، وتمتع الناس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعمرة إلى الحج، فكان من الناس من اهدى وساق الهدي ومنهم من لم يهد، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قال للناس:" من كان منكم اهدى، فإنه لا يحل له من شيء حرم منه حتى يقضي حجه، ومن لم يكن منكم اهدى فليطف بالبيت و بالصفا و المروة، وليقصر وليحلل ثم ليهل بالحج وليهد، فمن لم يجد هديا فليصم ثلاثة ايام في الحج وسبعة إذا رجع إلى اهله"، وطاف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم مكة، فاستلم الركن اول شيء ثم خب ثلاثة اطواف من السبع ومشى اربعة اطواف، ثم ركع حين قضى طوافه بالبيت عند المقام ركعتين ثم سلم فانصرف، فاتى الصفا فطاف بالصفا و المروة سبعة اطواف ثم لم يحلل من شيء حرم منه حتى قضى حجه ونحر هديه يوم النحر وافاض فطاف بالبيت، ثم حل من كل شيء حرم منه، وفعل الناس مثل ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، من اهدى وساق الهدي من الناس.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے «لبيك بعمرة» کہا پھر «لبيك بحجة» کہا) ۱؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لیے (احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ جائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی، پھر (آپ کے لیے محرم ہونے کی وجہ سے) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج پورا کر لیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لیے حلال ہو گئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1805]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 104 (1691)، صحیح مسلم/الحج 24 (1227)،سنن النسائی/الحج 50 (2733)، (تحفة الأشراف: 6878)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 12(824)، سنن ابن ماجہ/المناسک 14 (2916)، مسند احمد (2/139)، سنن الدارمی/المناسک 84 (1972) (صحیح) (وبدأ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج) یہ جملہ ابن قیم، ابن حجر، اور البانی کے یہاں شاذ ہے، (ملاحظہ ہو: فتح الباری، وزاد المعاد، وصحیح ابی داود 6؍ 68)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعدد بیانات ہیں، ان کے درمیان تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں صرف حج کا احرام باندھا، پھر وحی آ گئی تو عمرہ کو بھی شامل کر لیا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی ساتھ لے کر نہیں گئے ہوتے تو پہلے عمرہ کرتے پھر حلال ہو کر حج کرتے (یعنی حج تمتع کرتے) جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا، خلاصہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا تھا جیسا کہ دسیوں صحابہ کا بیان ہے، اس تفصیل کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کا احرام پھر حج کا احرام باندھا خلاف واقعہ ہے جو ان کے اپنے علم کے مطابق ہے (ابتدائے امر کے مطابق ہے)، یا پھر ان کے بیان کی وہی تاویل ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے یعنی: یہاں تمتع سے مراد لغوی تمتع ہے نہ کہ اصطلاحی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق لكن قوله وبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج شاذ
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1691) صحيح مسلم (1227)
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں