(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا جرير، عن مغيرة، عن ابي وائل، عن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الولد للفراش، وللعاهر الحجر"، قال ابو عبد الرحمن: ولا احسب هذا عن عبد الله بن مسعود، والله تعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَلَا أَحْسَبُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکا فراش والے کا ہے ۱؎ اور زنا کرنے والے کو پتھر ملیں گے“۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9294) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: بیوی اور لونڈی جس سے مرد کی صحبت جائز ہے اسے فراش (بچھونا) کہا گیا ہے، تو بچھونا جس کا ہو گا یعنی عورت یا لونڈی جس کی ہو گی لڑکا بھی اس کا کہا یا مانا جائے گا۔ ۲؎: یعنی غیر شادی شدہ ہو گا تو کوڑے لگیں گے جو پتھر کی مار کی طرح تکلیف دہ ہیں اور شادی شدہ ہو گا تو (فی الواقع) پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد , عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الولد للفراش، وللعاهر الحجر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ فراش والے کا ہے (یعنی جس کی بیوی ہو اس کا مانا جائے گا) اور زنا کار کے لیے پتھر ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی زنا کار اگر کہتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے نطفہ کا ہے تو وہ پتھر کا مستحق ہے۔ اور اگر زنا کار شادی شدہ ہے تو ضابطے و قانون شریعت کے مطابق اسے پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا، یعنی اس کے لیے بالکل یہ محرومی ہو گی۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکا فراش والے (یعنی شوہر) کا ہے اور زنا کار کے لیے پتھر ہے (یعنی اسے مار لگے گی یا پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا)“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة , عن عائشة، قالت: اختصم سعد بن ابي وقاص، وعبد بن زمعة في غلام، فقال سعد: هذا يا رسول الله، ابن اخي عتبة بن ابي وقاص عهد إلي انه ابنه انظر إلى شبهه، وقال عبد بن زمعة: اخي ولد على فراش ابي من وليدته، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شبهه، فراى شبها بينا بعتبة، فقال:" هو لك يا عبد، الولد للفراش، وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة"، فلم ير سودة قط. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي غُلَامٍ، فَقَالَ سَعْدٌ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَبَهِهِ، فَرَأَى شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ"، فَلَمْ يَرَ سَوْدَةَ قَطُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبد (عبد بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی و سر پرست ہو)، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت و حصے میں پتھر ہے۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس سے پردہ کرو ۱؎، تو اس نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا)۔
وضاحت: ۱؎: مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب رہنمائی کر دی کہ بچہ اگرچہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن يوسف بن الزبير مولى لهم، عن عبد الله بن الزبير، قال: كانت لزمعة جارية يطؤها هو، وكان يظن بآخر يقع عليها، فجاءت بولد شبه الذي كان يظن به، فمات زمعة وهي حبلى، فذكرت ذلك سودة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولد للفراش، واحتجبي منه يا سودة، فليس لك باخ". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ مَوْلًى لَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: كَانَتْ لِزَمْعَةَ جَارِيَةٌ يَطَؤُهَا هُوَ، وَكَانَ يَظُنُّ بِآخَرَ يَقَعُ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ شِبْهِ الَّذِي كَانَ يَظُنُّ بِهِ، فَمَاتَ زَمْعَةُ وَهِيَ حُبْلَى، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ سَوْدَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ، فَلَيْسَ لَكِ بِأَخٍ".
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ صحبت کرتا تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سے بدکاری کیا کرتا ہے۔ چنانچہ اس لونڈی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ اس شخص کی صورت کے مشابہ تھا جس کے بارے میں زمعہ کا گمان تھا کہ وہ اس کی لونڈی سے بدکاری کرتا ہے، وہ لونڈی حاملہ تھی جب ہی زمعہ کا انتقال ہو گیا، اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام المؤمنین سودہ (سودہ بنت زمعہ) رضی اللہ عنہا نے کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ فراش والے کا ہے ۱؎ اور سودہ! تم اس سے پردہ کرو کیونکہ (فی الواقع) وہ تمہارا بھائی نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5293)، مسند احمد (4/5) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بیوی یا لونڈی جس کی ہو گی بچہ اس کا مانا جائے گا جب تک کہ وہ خود ہی اس کا انکار نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ میرے نطفے کا نہیں ہے، اگرچہ خارجی اسباب سے معلوم بھی ہوتا ہو کہ یہ اس کے نطفہ کا نہیں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: اختصم سعد بن ابي وقاص، وعبد بن زمعة في ابن زمعة، قال سعد: اوصاني اخي عتبة إذا قدمت مكة، فانظر ابن وليدة زمعة، فهو ابني، فقال عبد بن زمعة: هو ابن امة، ابي ولد على فراش ابي، فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم شبها بينا بعتبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولد للفراش، واحتجبي منه يا سودة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي ابْنِ زَمْعَةَ، قَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ إِذَا قَدِمْتَ مَكَّةَ، فَانْظُرِ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَهُوَ ابْنِي، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: هُوَ ابْنُ أَمَةِ، أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا زمعہ کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ وہ کس کا ہے اور کون اس کا حقدار ہے) سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھو (اور اسے حاصل کر لو) وہ میرا بیٹا ہے۔ چنانچہ عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر (یعنی اس کی ملکیت میں) پیدا ہوا ہے (اس لیے وہ میرا بھائی ہے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ صورت میں بالکل عتبہ کے مشابہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اگرچہ وہ عتبہ کے مشابہ ہے لیکن شریعت کا اصول و ضابطہ یہ ہے کہ) بچہ اس کا مانا اور سمجھا جاتا ہے جس کا بستر ہو (اس لیے اس کا حقدار عبد بن زمعہ ہے) اور اے سودہ (اس اعتبار سے گرچہ وہ تمہارا بھی بھائی لگے لیکن) تم اس سے پردہ کرو (کیونکہ فی الواقع وہ تیرا بھائی نہیں ہے)“۔