سنن نسائي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
76. باب : العبد يباع ويستثني المشتري ماله
باب: غلام بیچا جائے اور خریدار اس کے مال کی شرط لگا دے۔
حدیث نمبر: 4640
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ , وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی تابیر (پیوند کاری) ہو جانے کے بعد (کھجور کا) درخت خریدے تو اس کا پھل بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے، اور جو غلام بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے“۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4640]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البیوع 15 (1543)، سنن ابی داود/البیوع 44 (3433)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2211)، (تحفة الأشراف: 6819) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 4639
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيُّمَا امْرِئٍ أَبَّرَ نَخْلًا , ثُمَّ بَاعَ أَصْلَهَا , فَلِلَّذِي أَبَّرَ ثَمَرُ النَّخْلِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی کوئی کھجور کے درخت کی پیوند کاری کرے پھر اس درخت کو بیچے تو درخت کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا پھل کی شرط لگا لے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4639]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/البیوع 90 (2203)، 92 (2206)، المساقاة 17 (2379)، الشروط 2 (2716)، صحیح مسلم/البیوع 15 (1543)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2210)، (تحفة الأشراف: 8274)، موطا امام مالک/البیوع 7 (9)، مسند احمد (2/6، 9، 4، 5، 63، 78) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ معاملہ ہر قسم کی کھیتی کے بیچنے میں ہو گا، کیونکہ کھیتی میں بیچنے والا خرچ کیا ہوتا ہے، کھجور میں تو تابیر (پیوند کاری) سے پہلے بیچنے والے کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے اس لیے تابیر (پیوند کاری) کی شرط لگائی گئی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

