الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
71. باب مَا جَاءَ فِي أَرْضِ الْمُشْتَرَكِ يُرِيدُ بَعْضُهُمْ بَيْعَ نَصِيبِهِ
71. باب: مشترکہ زمین جس کا حصہ دار اپنا حصہ بیچنا چاہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1312
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن خشرم، حدثنا عيسى بن يونس، عن سعيد، عن قتادة، عن سليمان اليشكري، عن جابر بن عبد الله، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من كان له شريك في حائط، فلا يبيع نصيبه من ذلك، حتى يعرضه على شريكه ". قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ليس بمتصل، سمعت محمدا يقول: سليمان اليشكري، يقال: إنه مات في حياة جابر بن عبد الله، قال: ولم يسمع منه قتادة، ولا ابو بشر، قال محمد: ولا نعرف لاحد منهم سماعا من سليمان اليشكري، إلا ان يكون عمرو بن دينار، فلعله سمع منه في حياة جابر بن عبد الله، قال: وإنما يحدث قتادة، عن صحيفة سليمان اليشكري، وكان له كتاب عن جابر بن عبد الله، حدثنا ابو بكر العطار عبد القدوس قال: قال علي بن المديني، قال يحيى بن سعيد: قال سليمان التيمي: ذهبوا بصحيفة جابر بن عبد الله إلى الحسن البصري فاخذها، او قال: فرواها، وذهبوا بها إلى قتادة، فرواها، واتوني بها، فلم اروها، يقول: رددتها.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ شَرِيكٌ فِي حَائِطٍ، فَلَا يَبِيعُ نَصِيبَهُ مِنْ ذَلِكَ، حَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَى شَرِيكِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ، يُقَالُ: إِنَّهُ مَاتَ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ قَتَادَةُ، وَلَا أَبُو بِشْرٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا نَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ سَمَاعًا مِنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، فَلَعَلَّهُ سَمِعَ مِنْهُ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: وَإِنَّمَا يُحَدِّثُ قَتَادَةُ، عَنْ صَحِيفَةِ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، وَكَانَ لَهُ كِتَابٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ عَبْدُ الْقُدُّوسِ قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ: ذَهَبُوا بِصَحِيفَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ فَأَخَذَهَا، أَوْ قَالَ: فَرَوَاهَا، وَذَهَبُوا بِهَا إِلَى قَتَادَةَ، فَرَوَاهَا، وَأَتَوْنِي بِهَا، فَلَمْ أَرْوِهَا، يَقُولُ: رَدَدْتُهَا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے باغ میں کوئی ساجھی دار ہو تو وہ اپنا حصہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے اپنے ساجھی دار پر پیش نہ کر لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان یشکری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں مر گئے تھے، ان سے قتادہ اور ابوبشر کا سماع نہیں ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں نہیں جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے سلیمان یشکری سے کچھ سنا ہو سوائے عمرو بن دینار کے، شاید انہوں نے جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں سلیمان یشکری سے حدیث سنی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ قتادہ، سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے، سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی جس میں جابر بن عبداللہ سے مروی احادیث لکھی تھیں،
۳- سلیمان تمیمی کہتے ہیں: لوگ جابر بن عبداللہ کی کتاب حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اسے لیا یا اس کی روایت کی۔ اور لوگ اسے قتادہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی اس کی روایت کی اور میرے پاس لے کر آئے تو میں نے اس کی روایت نہیں کی میں نے اسے رد کر دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ مؤلف، وانظر مسند احمد (3/357) (صحیح لغیرہ) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/المساقاة 28 (البیوع 49)، (1608)، سنن ابی داود/ البیوع 75 (3513)، سنن النسائی/البیوع 80 (4650)، و 107 (4704، 4705)، (تحفة الأشراف: 2272)، و مسند احمد (3/312، 316، 397)، وسنن الدارمی/البیوع 83 (2670) معناہ في سیاق حدیث ”الشفعة“»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 373)، أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1368
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن حجر , حدثنا إسماعيل ابن علية , عن سعيد , عن قتادة , عن الحسن , عن سمرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " جار الدار احق بالدار ". قال: وفي الباب , عن الشريد , وابي رافع , وانس. قال ابو عيسى: حديث سمرة حديث حسن صحيح , وروى عيسى بن يونس , عن سعيد بن ابي عروبة , عن قتادة , عن انس , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله , وروي عن سعيد , عن قتادة , عن الحسن , عن سمرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم والصحيح عند اهل العلم حديث الحسن , عن سمرة , ولا نعرف حديث قتادة , عن انس , إلا من حديث عيسى بن يونس , وحديث عبد الله بن عبد الرحمن الطائفي , عن عمرو بن الشريد , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب , هو حديث حسن , وروى إبراهيم بن ميسرة , عن عمرو بن الشريد , عن ابي رافع , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت محمدا يقول: كلا الحديثين عندي صحيح.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ الشَّرِيدِ , وَأَبِي رَافِعٍ , وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرَوَى عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ , وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ حَدِيثُ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ , وَلَا نَعْرِفُ حَدِيثَ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ , وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيِّ , عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ , هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ , عَنْ أَبِي رَافِعٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ: كِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ.
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھر کا پڑوسی گھر (خریدنے) کا زیادہ حقدار ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے اور قتادہ نے انس سے اور انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ نیز سعید بن ابی عروبہ سے مروی ہے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ سے اور سمرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں شرید، ابورافع اور انس سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور اہل علم کے نزدیک صحیح حسن کی حدیث ہے جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے۔ اور ہم قتادہ کی حدیث کو جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہے، صرف عیسیٰ بن یونس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی کی حدیث جسے انہوں نے عمرو بن شرید سے اور عمرو نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس باب میں حسن حدیث ہے۔ اور ابراہیم بن میسرہ نے عمرو بن شرید سے اور عمرو نے ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 75 (3571)، (تحفة الأشراف: 4588)، و مسند احمد (5/12، 13، 18) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «شفعہ» اس استحقاق کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شریک (ساجھے دار) سے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہو قیمت ادا کر کے حاصل کر سکے۔
۲؎: اس حدیث سے پڑوسی کے لیے حق شفعہ کے قائلین نے ثبوت شفعہ پر استدلال کیا ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس جگہ پڑوسی سے مراد ساجھے دار ہے پڑوسی نہیں، کیونکہ اس حدیث میں اور حدیث «إذا وقعت الحدود وصرفت الطريق فلا شفعة» یعنی جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ ہو جائیں تو شفعہ نہیں، جو آگے آ رہی ہے میں تطبیق کا یہی معنی لینا ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1539)
حدیث نمبر: 1369
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة , حدثنا خالد بن عبد الله الواسطي , عن عبد الملك بن ابي سليمان , عن عطاء , عن جابر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الجار احق بشفعته ينتظر به وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , ولا نعلم احدا روى هذا الحديث غير عبد الملك بن ابي سليمان , عن عطاء , عن جابر , وقد تكلم شعبة في عبد الملك بن ابي سليمان , من اجل هذا الحديث , وعبد الملك: هو ثقة مامون عند اهل الحديث , ولا نعلم احدا تكلم فيه غير شعبة , من اجل هذا الحديث , وقد روى وكيع , عن شعبة , عن عبد الملك بن ابي سليمان , هذا الحديث , وروي عن ابن المبارك , عن سفيان الثوري , قال عبد الملك بن ابي سليمان: ميزان يعني: في العلم والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم ان الرجل احق بشفعته , وإن كان غائبا فإذا قدم فله الشفعة وإن تطاول ذلك.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ جَابِرٍ , وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ , وَعَبْدُ الْمَلِكِ: هُوَ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ شُعْبَةَ , مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ , وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , هَذَا الْحَدِيثَ , وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: مِيزَانٌ يَعْنِي: فِي الْعِلْمِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ , وَإِنْ كَانَ غَائِبًا فَإِذَا قَدِمَ فَلَهُ الشُّفْعَةُ وَإِنْ تَطَاوَلَ ذَلِكَ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم عبدالملک بن سلیمان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے اس حدیث کو عطاء سے اور عطاء نے جابر سے روایت کی ہو،
۲- شعبہ نے عبدالملک بن سلیمان پر اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ محدثین کے نزدیک عبدالملک ثقہ اور مامون ہیں، شعبہ کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے عبدالملک پر کلام کیا ہو، شعبہ نے بھی صرف اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ اور وکیع نے بھی یہ حدیث شعبہ سے اور شعبہ نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی ہے۔ اور ابن مبارک نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: عبدالملک بن سفیان میزان ہیں یعنی علم میں،
۲- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ آدمی اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو، جب وہ (سفر وغیرہ) سے واپس آئے گا تو اس کو شفعہ ملے گا گرچہ اس پر لمبی مدت گزر چکی ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 75 (3518)، سنن ابن ماجہ/الشفعة 2 (2494)، (تحفة الأشراف: 2234)، و مسند احمد (3/303) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ غیر حاضر شخص کا شفعہ باطل نہیں ہوتا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے، اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2494)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.