الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
73. بَابُ: نَفَقَةِ الْحَامِلِ الْمَبْتُوتَةِ
باب: قطعی طلاق والی حاملہ کے نفقہ کا بیان۔
Chapter: Maintenance Of A Pregnant Woman Who Has Been Irrevocably Divorced
حدیث نمبر: 3582
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار، قال: حدثنا ابي، عن شعيب، قال: قال الزهري: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، ان عبد الله بن عمرو بن عثمان طلق ابنة سعيد بن زيد وامها حمنة بنت قيس البتة، فامرتها خالتها فاطمة بنت قيس بالانتقال من بيت عبد الله بن عمرو، وسمع بذلك مروان، فارسل إليها، فامرها ان ترجع إلى مسكنها حتى تنقضي عدتها، فارسلت إليه تخبره ان خالتها فاطمة افتتها بذلك واخبرتها , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افتاها بالانتقال حين طلقها ابو عمرو بن حفص المخزومي" , فارسل مروان قبيصة بن ذؤيب إلى فاطمة، فسالها عن ذلك، فزعمت انها كانت تحت ابي عمرو لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب على اليمن خرج معه، فارسل إليها بتطليقة وهي بقية طلاقها، فامر لها الحارث بن هشام، وعياش بن ابي ربيعة بنفقتها، فارسلت إلى الحارث، وعياش تسالهما النفقة التي امر لها بها زوجها، فقالا: والله ما لها علينا نفقة إلا ان تكون حاملا، وما لها ان تسكن في مسكننا إلا بإذننا، فزعمت فاطمة انها اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له،" فصدقهما"، قالت: فقلت: اين انتقل يا رسول الله؟ فقال:" انتقلي عند ابن ام مكتوم، وهو الاعمى الذي عاتبه الله عز وجل في كتابه"، فانتقلت عنده فكنت اضع ثيابي عنده، حتى انكحها رسول الله صلى الله عليه وسلم، زعمت اسامة بن زيد.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأُمُّهَا حَمْنَةُ بِنْتُ قَيْسٍ الْبَتَّةَ، فَأَمَرَتْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ بِالِانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَسْكَنِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا فَاطِمَةَ أَفْتَتْهَا بِذَلِكَ وَأَخْبَرَتْهَا , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْتَاهَا بِالِانْتِقَالِ حِينَ طَلَّقَهَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيُّ" , فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ إِلَى فَاطِمَةَ، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرٍو لَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ وَهِيَ بَقِيَّةُ طَلَاقِهَا، فَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَى الْحَارِثِ، وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا النَّفَقَةَ الَّتِي أَمَرَ لَهَا بِهَا زَوْجُهَا، فَقَالَا: وَاللَّهِ مَا لَهَا عَلَيْنَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا، وَمَا لَهَا أَنْ تَسْكُنَ فِي مَسْكَنِنَا إِلَّا بِإِذْنِنَا، فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ،" فَصَدَّقَهُمَا"، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَهُوَ الْأَعْمَى الَّذِي عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ"، فَانْتَقَلْتُ عِنْدَهُ فَكُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ، حَتَّى أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، زَعَمَتْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ.
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ۱؎ لڑکی کی ماں کا نام حمنہ بنت قیس تھا، لڑکی کی خالہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو کے گھر سے (کہیں اور) منتقل ہو جا، یہ بات مروان (مروان بن حکم) نے سنی تو انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی بیوی کو کہلا بھیجا کہ اپنے گھر میں آ کر اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے، (اس کے جواب میں) اس نے مروان کو یہ خبر بھیجی کہ مجھے میری خالہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے گھر چھوڑ دینے کا فتویٰ دیا تھا اور بتایا تھا کہ جب ان کے شوہر ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھر سے منتقل ہو جانے کا حکم دیا تھا۔ (یہ قصہ سن کر) مروان نے قبیصہ بن ذویب (نامی شخص) کو (تحقیق واقعہ کے لیے) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا۔ (وہ آئے) اور ان سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو کی بیوی تھیں اور وہ اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر (گورنر) بنا کر بھیجا تھا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن چلے گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے انہیں وہ طلاق دے کر بھیجی جو باقی رہ گئی تھی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہما کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ انہیں نفقہ دے دیں گے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حارث اور عیاش سے اس نفقہ کا مطالبہ کیا جسے انہیں دینے کے لیے ان کے شوہر نے ان سے کہا تھا، ان دونوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جواب دیا: قسم اللہ کی! ان کے لیے ہمارے ذمہ کوئی نفقہ نہیں ہے، (یعنی ان کے لیے نفقہ کا حق ہی نہیں تھا) ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں بیشک وضع حمل تک نفقہ مل سکتا ہے) اور اب ان کے لیے ہمارے گھر میں رہنے کا بھی حق نہیں بنتا، الا یہ کہ ہم انہیں (ازراہ عنایت) اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ (یہ باتیں سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور یہ ساری باتیں آپ کو بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی تصدیق کی (کہ انہوں نے صحیح بات بتائی ہے)۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کہاں چلی جاؤں؟ آپ نے فرمایا: ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ۔ یہ ابن ام مکتوم وہی نابینا شخص ہیں جن کی خاطر اللہ نے اپنی کتاب (قرآن پاک کی سورۃ عبس) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا تھا۔ تو میں ان کے یہاں چلی گئی۔ (ان کے نہ دیکھ پانے کی وجہ سے بغیر کسی دقت و پریشانی کے) میں وہاں اپنے کپڑے اتار لیتی (اور تبدیل کر لیتی) تھی ۲؎ اور یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نہ کرا دی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3224 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ایسی طلاق جس سے طالق کا مطلقہ سے ہر طرح کا رشتہ ختم ہو جائے اور مرد کا اس سے بغیر دوسری شادی کے نکاح ناجائز ہو۔ ۲؎: معلوم ہوا کہ بلاقصد و ارادہ عورت کی نگاہ اگر مرد پر پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا شخص کے گھر میں عورت کو عدت گزارنے کے لیے جو حکم صادر فرمایا اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عورت کی ذات مرد کی نگاہوں سے پوری طرح محفوظ رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود یہ کہ فاطمہ کی نگاہ ابن ام مکتوم پر پڑ سکتی تھی پھر بھی آپ نے اس ناحیہ سے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا، اب رہ گئی بات ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث «افعمیاوان انتما» کی تو اس سلسلہ میں امام ابوداؤد اپنی سنن (۴/۳۶۲) میں لکھتے ہیں کہ یہ ازواج مطہرات کے لیے خاص ہے، ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص (۳/۱۴۸) میں ابوداؤد رحمہ اللہ کی اس تطبیق کو «جمع حسن» کہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.